ویکسین ،مسیحا اور موت ۔۔۔۔۔سید عارف سعید بخاری
(syed arif saeed bukhari, Rawalpindi)
قیام پاکستان سے لے کر آج تک قوم کوحقیقی معنوں میں وہ آزادی ،وہ بنیادی انسانی حقوق میسر نہ آسکے جو ان کا حق ہے ۔البتہ 74سالوں میں پہلی بارکورونا وائرس کی آڑ میں قوم کی آزادی سلب کر لی گئی ہے ۔ پہلے لوگوںمیں کوروناوائرس کا ایک نا ختم ہونے والا ''خوف'' پیدا کیاگیا ،پھر اس مرض کی وجہ سے ہونے والی ''بھیانک موت ''سے ڈرایا گیا۔کورونا وائرس سے شہید ہونے والے انسانوں کی میت میں اس جرثومے کی موجودگی سے دیگر لوگوں کو یہ موذی مرض لگنے کاایسا خوف پیدا کیا گیا کہ غیر تو غیر، خونی رشتوں نے بھی دوریاں اختیار کرلیں ۔تدفین کے لیے لوگوں نے آنا چھوڑ دیا ہے ۔سارا دن لوگ ایک دوسرے سے یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ بھائی ! آپ کی طبیعت خراب نظر آ رہی ہے ،کہیں آپ کو کورونا تو نہیں ہوگیا ۔ فوراً ٹیسٹ کروا لیں ۔معمولی نزلہ ،زکام ،فلو میں بھی ہسپپتا ل جانے والوں کو کورونا ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ |
|
|
کورونا ویکسین |
|
ویکسین ،مسیحا اور موت سید عارف سعید بخاری Email:[email protected] قیام پاکستان سے لے کر آج تک قوم کوحقیقی معنوں میں وہ آزادی ،وہ بنیادی انسانی حقوق میسر نہ آسکے جو ان کا حق ہے ۔البتہ 74سالوں میں پہلی بارکورونا وائرس کی آڑ میں قوم کی آزادی سلب کر لی گئی ہے ۔ پہلے لوگوںمیں کوروناوائرس کا ایک نا ختم ہونے والا ''خوف'' پیدا کیاگیا ،پھر اس مرض کی وجہ سے ہونے والی ''بھیانک موت ''سے ڈرایا گیا۔کورونا وائرس سے شہید ہونے والے انسانوں کی میت میں اس جرثومے کی موجودگی سے دیگر لوگوں کو یہ موذی مرض لگنے کاایسا خوف پیدا کیا گیا کہ غیر تو غیر، خونی رشتوں نے بھی دوریاں اختیار کرلیں ۔تدفین کے لیے لوگوں نے آنا چھوڑ دیا ہے ۔سارا دن لوگ ایک دوسرے سے یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ بھائی ! آپ کی طبیعت خراب نظر آ رہی ہے ،کہیں آپ کو کورونا تو نہیں ہوگیا ۔ فوراً ٹیسٹ کروا لیں ۔معمولی نزلہ ،زکام ،فلو میں بھی ہسپپتا ل جانے والوں کو کورونا ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ کتنے ہی لوگ محض ''کورونا''کے خوف سے بیمار ہو کر اگلے جہاں سدھار گئے اب جبکہ ''ویکسین''لگانا لازمی قرار دیدیا گیا۔تو اس حوالے سے بھی لوگوں کی اکثریت ایک ''نفسیاتی خوف ''میں مبتلا ہے کہ پتہ نہیں ویکسین لگوانے سے کیا ہوگا۔۔؟۔ایسے خوفزدہ لوگوں کو ویکسینیشن سے مشکل پیش آ رہی ہے۔ادھر فرانسیسی ماہر وائرلوجسٹ اور نوبل انعام یافتہ لک مونٹاگنیئرکا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے والے افراد کے بچنے کا کوئی امکان نہیںاور یہ آئندہ 2سال میں مر جائیں گے،تاہم ان کے اس دعوے کو سراسر من گھڑت قرار دیا جارہا ہے ۔اس لئے قبل از وقت اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔المیہ یہ ہے کہ کسی ایک بھی فرد کویہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اگرویکسین نہیں لگوانا چاہتا تو نہ لگوائے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اب ویکسین کے بغیر شناختی کارڈ بنے گا اور نہ ہی بچوں کی پیدائش کا اندراج ہوگا ۔ممکن ہے کہ تدفین سے پہلے بھی ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ لازمی قرار دے دیا جائے۔سیر و تفریح کی غرض سے سیاحتی مقامات پر جانے کے لیے، مکان کی رجسٹری کروانے کے لیے ،نکاح نامہ رجسٹر کروانے کے لیے ،تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے ،بنک میں رقم کے لین دین کے لیے بھی نادرہ کا جاری کردہ ''ویکسینینشن سرٹیفیکیٹ''لینا لازمی قراردے دیا جائے۔ الغرض ''ویکسین ''ہر حالت میں لگوانا ہوگی ورنہ حکومت کسی کی جان نہیں چھوڑے گی ۔شناختی کارڈ پر ویکسین لگوانے کی پابندی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں مقیم بنگالیوں اور افغانیوں کی ایک کثیر تعداد شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ویکیسن نہیں لگوا پائیں گے۔پسماندہ دیہات میں بیسیوں ناخواندہ لوگوں کے پاس موبائل فون نہیں اور نہ ہی انہیںویکسین کے لیے1166پرمیسج کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی حاصل ہے ،ایسے لوگ بھی ویکسینینشن سے محروم رہ جائیں گے ۔اور یہ لوگ بھی کسی مرحلے پرکورونا پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ادھر عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ جب تک دنیا کی 70 فیصد آبادی کو کورونا ویکسین نہیں لگ جاتی کورونا کی وباء ختم نہیں ہوگی۔اس موقف سے ایک بات تو طے ہے کہ کورونا وائرس کا خوف اسی منصوبے کو وسعت دینے کے لیے پیدا کیا گیا تھا اب جب تک ان کا مطلوبہ ہدف مکمل نہیں ہوجاتا ۔کورونا وائرس سے نجات پانا ممکن نہیں ہوگا ۔اس لیے د نیاکو یہ جان لینا چاہئے کہ اصل کھیل کیا ہے ۔۔کیونکہ ویکیسن لگانے کا کاروبار بھی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہے اور یہ گیم یونہی تو ختم نہیں کی جا سکتی ۔ دیکھا جائے توکوروناویکسین بھی ایک لحاظ سے منظم دھندہ بن چکا ہے ، اس کا مقصدپیسے کمانے کے سوا کچھ نہیں ،اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ کھربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کا مقصد خدمت انسانیہ ہرگز نہیں ہوسکتا،۔ یعنی کہ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ۔ حکومتی احکامات کی روشنی میںابھی تو 3ماہ کے وقفے سے صرف2ڈوز لگوانی ہیں یہی صورتحال رہی توآئندہ 6 ماہ بعد یا سال بعد پھر تیسری ڈوز لگوانے کا حکم نامہ بھی آجائے گا۔اس وقت مارکیٹ میںدستیاب چائنہ کی ''Sinopharm''نامی ویکسین کو سب سے زیادہ کامیاب قرار دیا جا رہا ہے ، چائنا کی''Sinovac''اور ''Cansino''بھی مارکیٹ میں موجود ہے ۔'' Pfizer vac''نامی امریکن ویکسین صرف امریکہ میں ہے ۔جبکہ برطانیہ کی تیارکردہ ''Astra Zenecta''نامی ویکسین سے اعشاریہ 0.1فیصد مریضوں میں مابعدویکسینیشن اثرات سامنے آئے ہیں ۔ ''Sputnick''نامی روسی ویکسین بھی قدرے بھروسے کے قابل بتائی جا رہی ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے چائنا کی مدد سے خود نیشنل ہیلتھ لیبارٹری(این آئی ایچ) اسلام آبادمیںسنگل ڈوز ''کین سائنو'' کی ایک لاکھ 24 ہزار ڈوز تیار کی گئیں، یہ ویکسین آئندہ ہفتے سے استعمال کیلئے دستیاب ہو گی ۔اس کا نام ''Pak Vac''رکھا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ بیسیوں کمپنیوں کی ''ویکسینز ''مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں گئی قوم کی آزادی ۔؟۔عوام پراتنا ظلم تو فرنگی سامراج کے دور میںبھی نہیں ڈھایا گیا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔کورونا ہو یا کوئی اور بیماری ۔۔یہ سب تو موت کے بہانے ہیں ۔موت سے فرار ممکن نہیں، ملک الموت کو دنیا کی کوئی طاقت'' روح قبض'' کرنے سے روک نہیں سکتی ۔ کسی بھی ٹریفک حادثے میں صرف وہی لوگ لقمہ ء اجل بنتے ہیں کہ جن کا وقت پورا ہو چکاہوتا ہے ،آگ کے شعلوں میں بھی ربّ کائنات بچانا چائے تو بچا لیتا ہے ۔موت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ لیکن مادہ پرستی کی وجہ سے ہماری سوچ و فکرمیں وہ اخلاقی گراوٹ آ چکی ہے کہ ہم اپنے مفاد کے لیے لوگوں کو پریشان و مضطرب کرنا کوئی گناہ نہیں سمجھتے ،ہمیں تو اپنے دھندے کی فکر ہوتی ہے ۔ہماری بلا سے کوئی مرے یا جیئے ۔ہمیں توبس اپنا دھندہ چلانا ہے ،پیسے کمانے ہیں چائے وہ رزق حلال ہو یا حرام ۔اس کی ہمیں قطعاً پرواہ نہیں۔ ڈاکٹر تو'' مسیحا'' ہوتے ہیں،کتنے ہی لوگ انہیں ڈاکٹرز کے ذریعے شفاء یاب ہو تے ہیں ۔ڈاکٹر وہ کہ جو مریض کو تسلی دے ،حوصلہ بڑھائے ،لیکن شاہد کورونا واحد بیماری ہے کہ جب سے یہ حملہ آور ہوئی ہے ،لوگ ہسپتالوں میں جانے سے حتیٰ کے ڈاکٹروں کے پاس بھی جانے سے کترانے لگے ہیں۔کیونکہ کوروناکی وجہ سے ہسپتال جانے والے 80فیصد مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ڈاکٹرز حضرات مریضوں کی ڈھارس بندھانے کی بجائے مزید خوف پیدا کرنے میں لگے ہیں۔جب مسیحا ہی دولت کی لالچ میں ''قاتل''بن جائیں تو اور کسی سے کیاگلہ کیا جاسکتا ہے ۔لوگ علاج پر بے بہاء پیسہ لگا رہے ہیں اس کے باوجود ہسپتالوں میں جانے والے دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو کورونا کے نام پر اگلے سفر پر روانہ کردینے کی شکایات زبان ِ زدعام ہیں۔ ہمارے مسیحا یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والے کے لواحقین سے ''اللہ کی مرضی''کے دو لفظوں کے کہہ دینے سے انہوں نے اپنا فرض ِ مسیحائی ادا کر دیا ہے ۔رب ّکائنات یقیناہمارے'' ملک الموت'' والے کردار سے خوش ہوکر بدلے میں ہمیں جنت میں نہیں بھیج دیں گے ۔شفاء من جانب ِ اللہ ہے ،لیکن ڈاکٹرز حضرات علاج کی حد تک کم ازکم دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں ۔تاکہ مریض اور اس کے لواحقین ان کے جذبہ ء خدمت انسانیہ کو سیلوٹ کریں اور ان کے دل سے مسیحاؤں کے لیے دعا نکلے ۔یہ بھی اللہ کی ذات کا بندے پر خاص کرم ہوتاہے کہ لوگ اپنے کسی محسن کے لیے ہاتھ اٹھا کر اور جھولی پھیلا کر دعائیں دیں ۔اور دُعاکے لیے اٹھنے والے ہاتھ دنیا و آخرت میں ہماری سرخروئی کا وسیلہ بن جائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.