کوہلوں کا بیل اور کانا راجہ

آج تک ہم اپنے نظام تعلیم کو اپنا نے کی بجائے اُسی ترقی کے مرہون منت بن کر رہ گئے اور اب اس ترقی کی راہ پر چلنے والوں کی اگلی نسل اس سے بھی اگلی سٹیج پر آ گئی ہے اورصرف موبائیل ایپلیکشن اور انٹرنیٹ سے ہی گھر بیٹھےآسانی سے مال دار ہونے کا خواب کی تعبیردیکھتی ہے

قارئین گزشتہ دنوں سیٹزن پورٹل پر شکائیت درج کروانے کا سوچا تو علم ہوا کہ اس میں شکائیت کوئی عام انسان نہیں کروا سکتا بلکہ اس کے لئے کوئی قابل اور ماہر ایپ شناسا کی ضرورت ہے تو گرد و نواح بہت قیمتی موبائیل رکھنے والے بہت سے افراد سے رہنمائی حآصل کرنی چاہی تو پتہ چلا کہ ہمارے نوجوان صرف اس جدید ٹیکنولوجی کو صرف ویڈیوز دیکھنے اور ویڈیوز آپ لوڈ کا کام لے رہے ہیں اور اتنا ہی نہیں بے شمار آیپس ایسی بھی ہیں جو صرف ویڈیوز بنانے پر اور دیکھنے پر کچھ سکوں کی لالچ دے کر صرف نوجوانوں کی سوچ کو صرف اسی تک محدود کرنے پر کام کر رہی ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے ٹھیکے دار خواب خرگوش سورہے ہیں لیکن عوام کی داد رسی کے لئے اور شکائیت کے جلد نمٹانے کے لئے خان کی اپنے رفو گروں کی موجودگی میں کالز موصول کرنا اور سیٹیزن پورٹل کا قیام کوئی چھوٹی بات نہیں اور ایسا کوئی پہلی مرتبہ بھی نہیں ہورہا لیکن اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد اورشکا ئیت کا حل کا دورانیہ جو کسی بھی نظام کی اصل کامیابی ہے پر پردہ ڈالنا ایک سوال ہے اوربنائے ہوئے قانون کے مطابق عمل نا ہونے کی سزا کو تجویز نا کرنااسی پرانے پاکستان جیسی صورت حال کو دعوت دینا ہے جس کوجناب خود بیان کرتےئ ہیں کہ خرابی ٹھیک کرنا مشکل ہوتا ہے نیا نظام سے لیکن میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ خامیوں کو پوشیدہ رکھ کر نظام کو خراب ہی نا ہونے دیا جائے اورپھر سب سے ضروری ہے کہ شکائیت کرنے والا اپنی بات کس طرح بیان کر رہا ہے ماضی میں اکثر عدالت یا سرکاری دفاتر کے باہر کچھ کاغذ لئے اور سیاہی کی دوات لئے کپڑا بیچھا کر درخواست گزار بیٹھے ہوتے تھے جو کچھ روپوں کے عوض مدعا سن کر تحریر کر دیتے تھے اکنامک سروے کی رپورٹ کے مطابق 2018 سے 2019 میں شرح خواندگی صرف 60 فی صد ہے تو ایسے میں ان چالیس فی صدغیر خوانددہ افراد کو اس نظام میں جوڑنے کا کوئی اہتمام نا کیا گیاہے ماضی قریب میں اب تو جدید ایپس اور سمارٹ مشینوں کا دور ہے لیکن آج سے کچھ35سے 40 سال قبل بھاری بھرکم بڑی بڑی مشینوں کو متعارف کروایا گیا تھا جس کامقصدعوام کو وقت کی اہمیت سمجھانہ اورسہولت بتانا رکھا گیاتھا اوراس سہولت کو ترقی سے جوڑکر کم محنت سے زیادہ منافع کے لالچ نے بہت پزیرائی دی اور پرانی اشیاء کی قدرو قیمت نا ہونے کے برابر ہو گئی اور محنتی اشخاص کی حوصلہ شکنی ہونے لگی اسطرح سے کچھ نے محنت سے بہتر مانگے کو ترجیح دیا اور کچھ نے کام سے بہتر نوکری کو لیکن اس وقت بھی کچھ لوگ تھے جو اُس ترقی کے لالچ میں نا آئے اور مخالفت کرتے رہےجیسے تحریک آزادی سے قبل انگریزی کو پڑھنے کے مخالفت کی جاتی تھی اور جن نے اس تعلیم کو" مذہب کی جانب لے جانے والی کے بجائے مذہب سے دور لے جانے والی بتا دیا تھا" لیکن دیکھا دیکھی وہ ترقی کے مخالفکھڑے ہونے والوں پر فوقیت انھی کو ملی جو ترقی کی راہ پر چلنےکے حق میں تھے اور اس تعلیم اورمشینوں سے فاعدہ نا لینے کی بات کرنے والے اس دنیا سے کوچ کر گے اورمن حیث القوم اتحاد جذبہ محنت لگن کا تناسب دن بدن عوام میں سے کم ہوتا گیا جس کا انجام یہ نکلاکہ ہماری اس وقت کی نوجوان نسل کچھ سہل ہو گئی اور اپنے کام چھوڑ کر شہروں کی جانب منتقل ہونے لگی آہستہ آہستہ محنت سےبہت دور ہوگئی اورآج تک ہم اپنے نظام تعلیم کو اپنا نے کی بجائے اُسی ترقی کے مرہون منت بن کر رہ گئے اور اب اس ترقی کی راہ پر چلنے والوں کی اگلی نسل اس سے بھی اگلی سٹیج پر آ گئی ہے اورصرف موبائیل ایپلیکشن اور انٹرنیٹ سے ہی گھر بیٹھےآسانی سے مال دار ہونے کا خواب کی تعبیردیکھتی ہے ہماری نوجوان نسل نے بھاری بھرکم مشینوں کی جگہ سمارٹ مشینوں سےمستفید ہونے کواورترقی یافتہ ملکوں کی جدید ٹیکنولوجی سے فاعدہ حاصل کرنے کوترجیح بنا رکھا ہے اورمغرب کی ترقی کو معہ تمام برائیوں کے اپنی زندگیوں میں شامل کر کے انہی پر انحصار کرنے لگی ہے ایسے میں میرے قارئین یہ سوچ رہیں ہوں گے کہ مندرجہ بالا عبارت کا کوہلوبیل اور راجہ سے کیا تعلق تو جنہوں نے کوہلو کو دیکھا ہو تو وہ جانتے بھی ہونگے کہ یہ کام کیسے کرتا ہے اور جنہوں نے کوہلو نا دیکھا ہو تو اُن کے لئے صرف اتنا کہ اس میں ایک لکڑی کا بڑا سارا برتن ہوتا ہےجس کے عین درمیان میں ایک بھاڑی لکڑی کا سوٹا جو بیل کی رسی سے منسلک ہوتا ہے اور برتن کے گرد بیل مسلسل دائرے میں چکڑ لگاتا رہتا ہےاور اس سوٹے کے نیچے جو بھی بیج آتا ہے کا تیل نکل جاتا ہے اوریہ ممکن صرف اُس بیل کی انکھوں پر کپڑا باندھنے کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے بیل کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ سفر کر رہا ہے البتہ وہ ایک ہی جگہ پر گھومتا رہتا ہے تو قارئین دراصل ہم بطورعوام دراصل وہی کوہلو کے بیل ہیں جواپنی انکھوں پرترقی کی پٹی باندھ کر گول گول گھوم رہے ہیں لیکن دراصل کھڑے وہیں ہیں جہاں تاریخ میں پہلے کھڑے تھے میں جناب حبیب جالب کی طرح میں عوام کو گدھے سے تشبیہ نہیں دوں گا اوراس حکومت کو ڈونکی سرکار بھی کہنا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ گدھاتو کبھی نا کبھی بدک بھی جاتا ہے اوراپنے حق کے لئے ویربھی جاتا ہے لیکن کوہلو کا بیل ایسا نہیں کرتا جبکہ وہ اس رسی سے کئی گنا زیادہ طاقت رکھتا ہےاب رہی بات کانے راجہ کی تو مشہور کہاوت کی تو کہتے ہیں اندھوں میں کانا راجہ ہوتا ہے جس کی کہانی کسی اور تحریر میں بیان کروں گا تواندھے نظام میں کہ جس کو ٹھیک کرنا بہت مشکل ہے میں ایک ہی کانا تھا جس کو صادق اور امین کے ٹائیٹل سے ریاست مدینہ کاراجہ بنایا گیا لیکن اب کون جوئے شیر لائے اور عدالت سے دوبارہ اسی صادق اور امین کا کریکٹر سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتا ہے جو قطع نظراس کہ خود کو مغربی منافقت کو سمجھنے کا بر ملا اعلان کر چکا ہے اورہمارا ملک جوایک اسلامی جمہوری مملکت ہے وہ اس مملکت خدا داد کو موجودہ مدینہ کی ریاست کی طرح چلا نا چاہتا ہے اوریہ کام سفارشات اسلامی نظریاتی کونسل کے نام پر کیا جا رہا ہے جس کی کوئی آئینی حثیت نا ہے ۔
 

M.Qasim Saleem
About the Author: M.Qasim Saleem Read More Articles by M.Qasim Saleem : 9 Articles with 5182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.