سوشل میڈیا اور ذہنی دباؤ ۔

سوشل میڈیا اور ذہنی دباؤ ۔

ذہنی دباؤ کو پریشن بھی کہتے ہیں یہ دور جدید کی عام بیماری ہے اس کا کوئی علاج نہیں ہے دنیا جتنی ترقی کرتی جا رہی ہے اتنی ہی یہ بیماری روز بروز لوگوں میں بڑھتی جا رہی ہے ۔انسان کو غم و خوشی ملتے رہتے ہیں لیکن اس کا اثر تھوڑی دیر کے لئے رہتا ہے اگر غم کا اثر کافی عرصے تک رہے اور اس سے معاملات زندگی متاثر ہو تو یہ ڈپریشن کہلاتا ہے ۔اس بیماری میں انسان ذہنی اور جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہے افسردہ رہتا ہے اور اپنے پسندیدہ مشغلوں میں بھی دلچسپی نہیں لیتا۔ اس کے ذہن میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں ۔اور ایسا شخص جو ڈپریشن میں جا چکا ہو وہ مستقبل سے مایوس ہو جاتا ہے ۔خواتین میں ڈپریشن مردوں کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے کیونکہ خواتین اپنی چیزوں سے زیادہ دوسری خواتین کی چیزوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں اور ہر وقت ناشکری کے کلمات ادا کرتی رہتی ہیں اس وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

ذہنی دباؤ آج کل نوجوانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ڈپریشن کی وجہ سے بہت سے طالب علم خودکشی کر لیتے ہیں ۔ڈپریشن انسان کو بہت سی وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے ان میں سے چند وجوہات یہ ہیں کہ انسان کو کوئی بہت بڑا صدمہ ملا ہوتا ہے جیسے کہ اس کا کوئی اپنا اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے یا طلاق ، نوکری، پڑھائی کی اور بھی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں خوراک میں کمی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی اس کی بڑی وجہ ہے طالب علم پڑھائی سے زیادہ سوشل میڈیا میں گم رہتے ہیں اور امتحانات کی وقت ان پر پڑھائی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ذہنی دباؤ ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو اپنے سے اونچے لوگوں میں یعنی امیر لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں انہیں دیکھ کر وہ احساس کمتری کا احساس ہو سکتے ہیں اور ڈپریشن منفی سوچ رکھنے سے بھی ہوتا ہے اگر انسان میں عقیدہ توحید پر ایمان رکھتا ہے تو اسے کبھی بھی پریشان نہ ہو اور وہ کسی بھی ناکامی کے بارے میں نہیں سوچتا کیونکہ اس کا ایمان پختہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ دینے والا ہے کامیابی دینے والا ہے تو ایسا انسان کبھی بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہو سکتا ۔ڈپریشن سے بچاؤ کے لیے ہمیں خود نے سے نچلے طبقے میں بیٹھنا چاہیے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں اور اللہ تعالی نے ہمیں سب کچھ دیا ہے

سوشل میڈیا پر اگر ہم دیکھیں تو چھوٹی سی خبر کو بڑا سنسنی خیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے بچوں کے ذہنوں پر اثر پڑتا ہے اس کے علاوہ آج کل بم بلاسٹ اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے کیسزز خبروں پر بار بار دکھانا اس سے لڑکیوں کے ذہنوں میں ڈر اور خوف پیدا ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے وہ اپنے اندر خوف بٹھا لیتی ہیں اور باہر نکلنے سے آگے بڑھنے سے ڈرتی ہیں ۔ڈپریشن سے بچاؤ کے بہت سے طریقے ہیں ان میں سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے چاہیے ۔ تمام نمازيں پڑھنی چاہیے وقت پر کھانا کھانا چاہیے ہر بات کو مثبت انداز میں سوچنا چاہیے منفی زاويہ سے کسی چیز کے بارے نہیں سوچنا چاہیے۔ اور اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ جو ہوگا وہ اللہ کی مرضی سے ہوگا ۔ اللہ تعالی سے پریشانی دیتا ہے تو اپنے بندے کو اتنا صبر ضرور عطا کرتا ہے۔وه اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اللہ تعالی بڑا غفور الرحیم ہے ۔ اسلیے انسان کو پہلے سے ہی نا امیدی کے خیالات کو ذہن میں جگہ نہیں دینی چاہیے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ دوسروں سے مقابلہ نہیں کرنا چاہیے جو لوگ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں ان سے دور رہنا چاہیے ۔ اگر زیادہ عرصہ کوئی انسان ڈپریشن میں رہے تو موت بھی واقع ہوسکتی ہے لہذا اگر معمولات زندگی میں زیادہ عرصے تک دلچسپی نہ ہو تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ جلد از جلد اس کا علاج کیا جا سکے اور اپنی زندگی کو خوشی سے گزار سکيں ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shazia Hameed
About the Author: Shazia Hameed Read More Articles by Shazia Hameed: 23 Articles with 25002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.