ہمارے الفاظ

انسان کے الفاظ اسکے غلام ہوتے ہیں جب تک وہ اسکے اندر ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ انہیں خود سے آزاد کرتا ہے وہ انکا غلام بن جاتا ہے. انسان بھول جاتا ہے اس سے بھلکڑ تو کچھ دنیا میں نہیں وہ تو زرا سی تکلیف پہ زرا سی آزمائش پہ الللہ پاک کے احسانات کو فراموش کر دیتا ہے. نہیں نہیں میں مکافات عمل کی بات نہیں کر رہی وہ تو یونیورسل ٹرتھ (سچائ) ہے. وقت بھی گزر جاتا ہے پتا ہے سب سے زیادہ خوفناک بات کیا ہے وہ ہے غلامی، الفاظ اپنے غلام کو کبھی معاف نہیں کرتے بلکہ قرضدار بنا دیتے ہیں اور انکی عدالت بہت خطرناک ہے جہاں انسان کا ضمیر اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے. کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کی آپکے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ ہیں جو زندگی کو پرسکون طریقے سے انجوائے کر رہے ، جی ہاں ہر جگہ ہوتے ہیں پر مزے کی بات پتا کیا ہے غلام نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے لیکن اسکا مالک اسکو اس سے زیادہ جانتا ہے تو الفاظوں کو بھی معلوم ہے کہ محاسبہ کے کٹھیرے میں کب کس کو کیسے لانا ہے، لفظ ملتا ہے تو بات بنتی ہے باتیں ارادے بتاتی ہیں اور ہمارے ارادے ہماری زندگی۔ خود کو لفظوں کے احتساب میں نہ لائیں کیونکہ یہ تو ہمارے پاس امانت ہیں، اگر آپ کسی کو موٹیویٹ نہیں کر سکتے تواٹس اوکے لیکن اپنے الفاظ کو ڈیموٹیویٹ کرنے کیلیے نہ استعمال کریں الفاظ بہت انمول ہوتے ہیں انہیں انمول ہی رہنے دیں کون کہاں کیسے سروائیو کر رہا ہے کہاں کس جنگ میں خود کو کیسے سنبھالے ہوئے ہے یہ جاننے کی کوشش بے شک نہ کرو لیکن اپنے الفاظوں کو قابل عزت بنائیں.
 

Zarish Mureed
About the Author: Zarish Mureed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.