پاکستانی ادب اطفال کی پہلی تاریخ ساز کتاب کا حصہ دوئم

تحریر: ذوالفقار علی بخاری
برقی پتہ: [email protected]

پاکستان کے مشہور و معروف لکھاریوں کی حالات زندگی پر ایک اور کتاب منظر عام پر آنے کو ہے۔اس ضخیم کتاب کے 600سے زائد صفحات ہونگے جس میں اُجاگر ہونگے وہ زندگی کے گوشے جو سب سے اُوجھل ہیں۔ایک ایسی کتاب جو قارئین کو اپنے من پسند لکھاریوں کو جاننے میں بھرپور مدد دے گی۔چند سال قبل ”آپ بیتیاں“ کے عنوان سے ایک ضحیم کتاب شائع کی گئی تھی جس کو ادبی حلقوں کے علاوہ قارئین کی جانب سے بھی بھرپور طور پر پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔

ماہ نامہ نٹ کھٹ،حیدرآباد نے معروف ادب اطفال لکھاری نوشاد عادل کے ترغیب دینے پر چند آپ بیتیوں کو شائع کیا تھا مگر اُس کے بند ہو جانے کے بعد اس منفرد سلسلے کو بڑی خوب صورتی سے ”انوکھی کہانیاں“،کراچی نے جاری رکھا کہ آج ہر لکھاری کی خواہش بنتی جا رہی ہے کہ اُس کی زندگی کے حالات دوسروں تک پہنچیں۔

ماہ نامہ انوکھی کہانیاں فرد واحد یعنی”محبوب الہی مخمور“ کی بہترین صلاحیتوں کی بدولت خوب صورت انداز میں شائع تو ہوتا ہی ہے مگر مذکورہ ماہ نامہ ”خاص نمبروں“ کی اشاعت میں جداگانہ حیثیت رکھتا ہے،یعنی خا ص نمبروں کے موضوعات بھی کافی دل چسپ ہیں۔ ”انوکھی کہانیاں“، کراچی نے اپنی اشاعت کا آغاز اگست 1991 میں کیا تھا۔یہ رسالہ بچوں اور طلبہ میں بے حد مقبول ہے۔اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ دیگر رسائل کی بہ نسبت تیس برسوں سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے جو کہ اپنی جگہ ایک انفرادیت ہے۔ ایک زمانے میں آخری صفحات پر ”آخری صفحات آخری لمحہ“کے عنوان سے مکمل ناولٹ شائع ہوا کرتا تھا۔جس کی آج کئی رسالے پیروی بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف اس رسالے کی پہچان منفرد سرورق صفحے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ یہاں سے بہت سے نئے لکھاریوں کو بھرپور طور پر اُبھرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ ان میں چند نام اگر لیں تو ان میں سعید عباس، محمد عرفان رامے اور نوشاد عادل شامل ہیں۔اسی ماہ نامہ رسالے نے آپ بیتیوں کے سلسلے کو مسلسل جاری رکھا ہوا ہے جس کی بدولت معروف لکھنے والوں کے قارئین کو اپنے من پسندلکھاریوں کی زندگی کے اُن گوشوں کے حوالے سے معلومات مل رہی ہیں جو کہ پہلے منظر عام پر نہیں آتی تھیں۔یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ چند سال قبل کوئی لکھاری بھی آپ بیتی لکھنے کو آمادہ نہیں ہوتا تھا، لیکن آج بہت سے ادیب اس بات کے خواہشمند ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو کھول کر قارئین ودیگر ادبی دنیا سے وابستہ افراد کے سامنے رکھیں جس سے نہ صرف معلومات حاصل ہونگی بلکہ مستقبل کے مورخ کو کسی بھی قسم کی تحقیق میں بھی خوب مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان میں آپ بیتی کے رحجان کے حوالے سے بات کریں تو نوشاد عادل نے پہلا پتھر پھینکا تھا، یعنی انہوں نے اس سلسلے کا آغاز اپنی آپ بیتی ”نوشاد بیتی“ لکھ کر کیا تھا۔انہوں نے اپنی زندگی کوکھلے دل سے سامنے پیش کیا تھا،اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے راقم السطور سے عرض کیا:
”کیا فائدہ، اگر میں جھوٹ لکھ دیتا اپنی آپ بیتی میں، اس لئے جو جیسا لگا، لکھ دیا۔ برکاتی صاحب کے بارے میں من و عن لکھا،جو آنکھوں دیکھا، کچھ ایسے بھی افراد دیکھے کہ ہمیشہ اپنے بارے میں موٹے موٹے جھوٹ لکھتے رہے۔یہاں تک کہ بھول گئے کہ وہ پچھلے انٹرویوز میں خود کے بارے میں بعض باتیں کیا لکھ گئے اوراگلے انٹرویوز میں وہی باتیں کچھ اورلکھ گئے۔میں ”دولے شاہ“ کا چوہا نہیں کہ ان جعلی لوگوں کامرید بن بیٹھوں، جو انہوں نے بک دیا،اس پر آنکھ بند کرکے ایمان لے آؤں۔میرے لئے نوشاد بیتی نے کوئی مسئلہ نہیں کیا، بلکہ بعد میں آپ بیتیاں لکھنے والے کو ہمت و حوصلہ ہی دیا کہ اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ”جعلی ادبی عاملوں“ کو بھی پہچانو، اگر کوئی جعلی عامل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس کئی ہزار کرامات ہیں تو آنکھ بند کرکے بے وقوف ہی یقین کرتے ہیں یا ڈرپوک۔ہمت والے ہی عاملوں سے پوچھتے ہیں کہ ”بابا جی۔! سالوں سے کرامات کا راگ الاپ رہے ہو، دکھاؤ تو کون سی کرامات ہیں“۔

نوشاد عادل کے بعد پروفیسر ظریف خان، مسعود احمد برکاتی، ڈاکٹر ظفر احمد خان، غلام حسین میمن،مشتا ق احمد قادری، رضوان بھٹی، ببرک کارمل، خلیل جبار، محبوب الہی مخمور (مدیرماہ نامہ انوکھی کہانیاں،کراچی)،سید صفدر رضا رضوی، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمید ی، یاسمین حفیظ، عبدالرشید فاروقی، طاہر عمیر،حنیف سحر، ڈاکٹر طارق ریاض خان، رانا محمد شاہد،ندیم اختر، صالحہ صدیقی، حکیم محمد سعید شہید، عبداللہ نظامی، آصف جاوید نقوی، احمد عدنان طارق، نذیر انبالوی، عبدالصمد مظفر پھول بھائی، رابعہ حسن، عبد اللہ ادیب، نور محمد جمالی، علی اکمل تصور، اختر عباس،افق دہلوی، شیخ فرید، ضرغام محمود، ارشد سلیم، غلام محی الدین ترک، رابنس سیموئل گل، حاجی محمد لطیف کھوکھر، امجد جاوید، رضیہ خاتم، شابانہ جمال، عاطر شاہین، عمران یوسف زئی،خادم حسین مجاہد، ظہور الدین بٹ، ڈاکٹر عبدالرب بھٹی، شہریار بھروانہ،غلام رضا جعفری، نعیم ادیب، جاوید بسام، جدون ادیب، راحت عائشہ، علی عمران ممتاز، حافظ نعیم احمد سیال، شہباز اکبر الفت، مظہرمشتاق، محمود شام،محمد ناصر زیدی، نشید آفاقی، امان اللہ نیرشوکت، ساجد کمبوہ،یاسین صدیق،خواجہ مظہر نواز صدیقی، نسیم حجازی، فرخ شہباز وڑائچ، محمد شعیب خان،ظفر محمد خان ظفر اور محمد توصیف ملک کے حالات زندگی شائع ہو چکے ہیں۔

حال ہی میں اسی کتاب کا دوسراحصہ سامنے آنے کا اعلان ہوا ہے جس میں نذیرانبالوی،نوشاد عادل،ڈاکٹر عبدالرب بھٹی،خلیل جبار،امجد جاوید،حاجی لطیف کھو کھر،تسنیم جعفری،مظہر مشتاق،جاوید بسام،عبداللہ ادیب،صالحہ صدیقی،عبدالرشید فاروقی،عمران یوسف زئی،محمد ناصر زیدی،نورمحمدجمالی، عارف مجید عارف،عبدالصمد مظفر پھول بھائی، غلام زادہ نعمان صابری،نوید احمد،ضرغام محمود،روبنسن سیموئیل گل،فرخ شہباز وڑائچ،فہیم زیدی،محمدشعیب خان،اکمل معروف اورذوالفقار علی بخاری جیسے نام شامل ہیں جو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

اس کتاب کو سامنے لانے والے محبوب الہی مخمورؔ، مدیر اعلی ماہ نامہ انوکھی کہانیاں اورمعروف ادیب نوشاد عادل ہیں جن کی خواہش تھی کہ ادیبوں کے حالات زندگی کو ایک کتاب کی شکل میں محفوظ کر دیا جائے۔اس کتاب کے دوسرے حصے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی سے کتاب کی پیشگی بکنگ کروائی جا رہی ہے۔

اس تاریخ ساز کتاب کے پہلے حصے کی مانند دوسرا حصہ بھی پاکستانی اور بین الاقوامی لائبریریوں، اہم ادبی اورسرکاری شخصیات کو ارسال کیا گیا جائے گا۔اس ”آپ بیتیاں“ کی کتاب کے پہلے حصے پر اخبارات میں تبصروں کے علاوہ PTVپر خصوصی پروگرام بھی نشر کیا گیا تھا۔ ایک طویل عرصے سے پاکستانی ادب میں ایسی کتاب کی کمی محسوس ہو رہی تھی جس میں پاکستان کی عظیم شخصیات،بڑوں اور بچوں کے ادیبوں اور مدیران کی ذاتی و ادبی زندگی کے واقعات و مشاہدات اوراپنے ہم عصر ادیبوں کے بارے میں تاثرات شامل ہوں۔ اس حوالے سے پہلی کتاب کو بھرپور پذیرائی ملی جس میں چودہ ممتاز شخصیات کی آپ بیتیاں شامل تھیں۔

اس معلوماتی اور دل چسپ کتاب کو درج ذیل پتے سے براہ راست منگوا یا جا سکتا ہے۔
الہی پبلی کیشنز، R-95، سیکٹر 15-B، بفرزون، نارتھ کراچی
واٹس ایپ نمبر: 0333-2172372 ای میل: [email protected]

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522491 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More