مجھے حضرت سیدہ نفیسہ رضی اللہ
عنھا کا حضرت امام شافعی کے بارے میں قول یاد آ رہا ہے جب ان سے حضرت امام
شافعی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان کا تقویٰ کیسا ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا
کہ امام شافعی وضو بہت اچھا کرتے ہیں ۔
یہ سوال اور جواب پڑھ کر میں کافی دنوں تک سوچتا رہا کہ سوال تقویٰ کے بارے
میں تھا اور جواب دیا کہ وہ وضو بہت اچھا کرتے ہیں تو مجھے اساتذہ نے بتایا
کہ جو شخص وضو اچھا کرتا ہے اس کے تقویٰ کا کیا عالم ہو گا اسی کو میں نے
ہم پاکستانی قوم اور حکمرانوں پر پرکھا تو ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا
ہوگیا وہ یہ کہ اگر پوچھا جائے کہ پاکستانی قوم قانون کے کتنے پابند ہیں تو
جواب آتا ہے یہ قوم ٹریفک سگنل کا خیال نہیں رکھتی اور چلتے چلتے کھاتے ہیں
اور شاپر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔یہ ساحل سمندر پر سیر کے لیے جاتے ہیں اور
چپس کے خالی پیکٹ پانی میں پھینک دیتے ہیں اور اگر حکمرانوں کے بارے میں
سوال ہو کہ یہ قانوں کے کتنے پابند ہیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ ٹریفک سگنل
توڑنا اپنی عزت سمجھتے ہیں اور اگر سگنل پر کوئی روک لے تو اسے عبرت کا
نشان بنادیتے ہیں تو آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دوسرے قوانین کے کتنے
پابند ہوں گے ۔
کسی کی شخصیت کو بھی پرکھنا ہو تو دیکھا جاتا ہے کہ وہ عام قوانین کی کتنی
پابندی کرتا ہے اور دوسروں کا کتنا خیال رکھتا ہے اور کیا وہ کسی کو تکلیف
تو نہیں دیتا حدیث مبارک میں ہے ( المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ
)یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔ اگر
ہم اسی ایک حدیث پر ہی عمل پیرا ہو جائیں تو ہمارا پورا معاشرہ پستیوں سے
بلندیوں کی طرف روانہ ہو سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسا بن
گیا ہے جب تک گالی نہ دیں تو ہمارا کلام شروع نہیں ہوتا اور جب تک ایک
دوسرے کی عزت کی دھجیاں نہ بکھیر لیں ہم سیاستدان نہیں بن سکتے جب تک ایک
دوسرے کی عزت کو نیزوں پر نہ اچھال لیں ہمارے قومی بجٹ منظور نہیں ہوتے اور
ایک دوسرے پر اپنی بڑائی ذات پات کے حوالے سے نہ ثابت کرلیں ہمارے جنم دن
کی تقریب نامکمل رہ جاتی ہے حالانکہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد
فرماتے ہیں (یاایھاالناس ان خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل
لتعارفو ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم) (سورةالحجرات ۳۱) اے ایمان والوں ہم نے
تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبائل میں اس لیے
بانٹا تاکہ تمہارا تعارف ہو بے شک تم میں سے اللہ کے نزدیک معززومکرم وہ ہے
جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ۔
ہم میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار نہیں ہے حدیث پاک میں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا (کلکم راع و کلکم مسﺅل عن راعیتہ)تم تمام کے تمام لوگ
ذمہ دار ہو اور تم میں سے ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا
جائے گا ۔
یعنی ہم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر کوئی اللہ کی بارگاہ میں اس ذمہ
داری پر جواب دہ ہوگا۔
ہم میں سے کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری کو ذمہ داری نہیں سمجھتا ۔آپ کسی آفس
میں کا م کے سلسلے میں چلے جائیں تو آفیسر کا آپ کو دیکھتے ہی چہرہ اتر
جائے گا اور آپ سے وہ ایسے کلام کرے گا کہ جیسے اس سے کام نہیں اس کے گردے
مانگ لیے ہوں ۔آپ خدانخواستہ تھانے میں چلے جائیں چاہے آپ کتنے شریف انسان
کیوں نہیں آپ کا استقبال غلیظ گالیوں سے کیا جائے گا ،اگر آپ غلطی سے بیمار
ہوگئے اور کسی سرکاری ہسپتال چلے گئے تو ہسپتال میں موجود عملہ پہلے تو آپ
کو انسان جاننے سے ہی انکار کر دے گا اور اگر کسی طرح آپ نے انہیں اپنے
انسان ہونے اور پاکستانی شہری ہونے پر یقین کر لیا تو آپ کو ڈاکٹر انتظار
کرنے کا کہہ کر خود اپنی محبوبہ سے ٹیلی فون پر ایک ڈیڑھ گھنٹہ بات کرے گا
اگر آپ دل کے مریض ہیں یا آپ ایمرجنسی میں ہیں تو اسے اس سے کیا لینا دینا
چاہے آپ وہاں پر مر جائیں اس سے اسے کوئی سروکار نہیں ۔
اگر آپ کو اگر کسی جائز مسئلے کے لیے بھی اپنے سیاسی لیڈر کے پاس جانا پڑ
جائے پہلے صاحب ملیں گے نہیں اور اگر قسمت کے دھنی ہوئے آپ کی ملاقات ہو
بھی گئی تو دیکھا جائے گا آپ جیالے ہیں یا نہیں اگر جیالے نہیں تو آپ کو اس
گستاخی کی سزا ضرور ملے گی جو آپ کا جائز کام ہونے والا تھا وہ ا ب کبھی
نہیں ہو پائے گا لیکن آپ کو اپنے لیڈر کے استقبال میں چاہتے ہوئے یا نہ
چاہتے ہوتے بھی کھڑا ہونا پڑے گا اور ان کے آنے سے پہلے تیں گھنٹہ ٹریفک
میں سخت دھوپ میں کباب کی طرح بھننا پڑے گا اور اگر آپ اسی ٹریفک میں اپنے
کسی مریض کے ساتھ ہیں یا اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ ہیں تو ان کی ڈیلیوری بھی
اسی رکشہ یا ویگن یا جس پر آپ سوار ہیں میں کرنی پڑے گی کیونکہ آپ کا منتخب
نمائندہ گزر رہا ہے اگر آپ جتنے بھی موذی مرض میں مبتلا ہی کیوں نہیں آپ کو
بغیر علاج کے مرنا پڑے گا لیکن اگر آپ کے منتخب نمائندہ کے پیٹ میں درد ہوا
تو لندن میں ان کا علاج ہو گا ہاں اگر کسی سیاستدان کی ہوا خارج نہیں ہوئی
تو اسے کشمیر کے زلزلے میں اکٹھا فنڈ سے امریکہ علاج کے لیے جانا ضروری ہے
چاہے عوام ڈسپرین کی ایک گولی کے لیے ترس رہے ہوں اور پیٹ بھرنے کے لیے
اپنی اولاد کو بیچ رہے ہوں اور سٹوڈنٹ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے چاہے
اپنے گردے بیچ کر خرچ چلا رہے ہوں یہ عوام کا مسئلہ ہے حکمرانوں کا نہیں
الغرض ہم میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کےلیے تیار نہیں لیکن ہماری
بھڑکیں ایسی کہ اللہ پناہ دے پھر بھی ہم اپنے آپ کو سچا پکا کھرا مسلمان
سمجھتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو مذاق بنا لیا ہے اگر ہم اسلام
کو صحیح معنوں میں سمجھتے تو آج ذلیل و رسوا نہ ہوتے۔ |