پْر اسرار بندے

آپ ساری دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں وہاں جا کر دیکھتے ہونگے کہ وہاں کی حکومتیں کیسا کام کر رہی ہیں ، کیا وہ عوام کی بہتری کے لئے کام رہی ہیں یا ان کے طریقہ کار سے عوام کو ان سے کتنی شکائتیں ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی یہی دیکھا جانا چایئے لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے ویسے تو باقی ممالک بھی ہمارے ملک کی طرح حکومت سیاستدانوں کے ساتھ مل کر دوسرے لوگ حکومت چلاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ذیادہ تر حکومت پُر اسرار بندے ہی چلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ کچھ اور ہے ہمارے ملک میں ایسی سیاسی قیادت کا فقدان ہے جس پر عوام کا مکمل اعتماد ہو ۔ اب یہ بات بھی یہاں کی جاسکتی ہے کہ ایک بندے پر عوام کتنا اعتماد کر سکتی ہے ، یہاں اربوں کی آبادی والی دنیا میں اﷲ تعالیٰ کو کتنے لوگ ماننے والے ہیں، جب کہ وہ خدا ہے جو ساری کائنات کو چلا رہا ہے۔ وہ دونوں جہانوں کو دیکھ رہا ہے اور یہ دنیا اﷲ تعالیٰ پر راضی نہیں ہوتی تو اس اﷲ کی بنائی ہوئی مخلوق سے ایک بندے پر کیسے راضی ہو سکتی ہے ؟

بات ذیادہ دور نکل گئی اس مثال کو میرے لکھنے کا یہ مقصد تھا تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ ہمارا ایک سیاستدان اس ملک کے لوگوں کو کیسے راضی کر سکتا ہے ؟ یہ کروڑوں کی آبادی والا ملک ہے ایک سیاست دان اپنے چند ہزار لوگوں کو لے کر اس کروڑوں کی آبادی کو کیسے ٹھیک کرے گا کیوں کہ یہاں تو ایک ایک بندہ بگڑا ہوا ہے۔ یہاں اس ملک کو ہر بندہ لوٹنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں جس بندے کو موقع ملتا ہے وہ اپنی طرف سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں ہر بندہ اس حد تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کرتا جہاں سے اسے کچھ نہ کچھ فائدہ مل سکے۔ میں پہلے نچلے طبقے کی بات کرتا ہوں کہ چھوٹی سطح پر لوگ کیسے کرپشن کرتے ہیں۔ آپ تھانوں میں جائیں گے تو وہاں ایک معمولی سپاہی بھی دیہاڑی لگانے کے چکر وں میں ہوتا ہے اور آپ کے ساتھ جو بندہ سفید کاٹن کا سوٹ پہن کر گیا ہوگیا، جس کے کپڑوں کو اچھی خاصی مایا لگی ہوگی ، اس کی کھیڑی پالش ہو کر چمک رہی ہوگی، جب وہ شخص تھانے میں داخل ہوگا تو سارے عملے سمیت ایس ایچ او بھی اسے اٹھ کر ملے گا ، بلکہ ساتھ آپ کو چائے بھی پلائی جائے گی اور پھر آپ کے ساتھ معاملہ طے کیا جائے کہ ہماری بات کتنے میں بن سکتی ہے، آپ جس شخص کو ساتھ دستار والا سمجھ کر ساتھ لے کر گئے ہونگے اس کی عزت آپ کی نظر میں مزید بڑھ جائے گی کے اتنا مشکل کام اس بندے نے ہمارا چند ہزار روپوں میں کروا دیا ہے ، یہ بندہ تو بڑے تعلقات والا ہے، آپ کو لگے کا اس بندے کے ساتھ ہمیں بنا کر رکھنی چاہیے یہ ہمارے مستقبل میں بھی کام آسکتا ہے ۔ آپ جب سب کچھ کر لیں گے عین ممکن ہے بلکہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اس صاحب دستار شخص نے اس کے اندر اپنی دیہاڑی لگا لی ہوگی اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔یہ باتیں چھوٹی سطح پر ہوتی ہیں اور ہر محکمے میں یہی حال ہے ، آپ جہاں بھی چلے جائیں جس مرضی محکمے میں چلے جائیں ایسے ہی معاملات طے پا رہے ہونگے ۔میرے خیال میں حسن نثار بلکل ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ قوم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ یہاں ہر بندہ مال بچاؤ کھال بچاؤ کی مہم پر نکلا ہوا ہے اس لیے ہمارے حکمران اپنے ساتھ چندہزارلوگوں کو لے کر اس نظام کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں ؟
 
اچھا اب آتا ہوں میں اپنے موضوع کی طرف جس کے لئے میں نے اتنی ذیادہ تمہید باندھی ہے کہ ہمارا حکمران تو خود رکاوٹوں کا شکار ہوتا ہے وہ ان معاملات کو کیسے ٹھیک کرے تو اس حکمران کو میری طرف سے جواب یہ ہے کہ تم تو صرف ایک چھوٹے سے ملک پر حکمرانی کرتے ہوئے مشکلات کا شکار ہو جاتے ہویہاں اسی دنیا میں حضرت عمر فاروق ؓ نامی ایک حکمران گزرا ہے جس کی حکومت لاکھوں مربع میل پر تھی اس کے دور میں تو کوئی بھوکا نہیں سویا ، اس کے دور حکمرانی میں تو سب کو انصاف ملتا تھا ۔ وہ تو کہتا تھا اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو اﷲ تعالیٰ کے سامنے میں جواب دہ ہوں گا، وہ تو اپنی کمر پر آٹا لاد کر ضرورت مندوں کے گھر پہنچا آتا تھا، وہ تو خود پیوند لگے کپڑے پہن لیتا تھا ، وہ تو کہتا تھا کہ میری تنخواہ ایک مزدور کے برابر کر دو تاکہ مجھے پتہ چل سکے کہ ایک مزدور کا اس تنخواہ میں کیسے گزارہ ہوتا ہے، وہ تو اپنے عہد خلافت میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیتا تھا ۔ہمارے حکمران اس کے دور حکومت کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں لیکن اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل نہیں کرتے ، یہ کیوں نہیں پیوند لگے کپڑے پہنتے، یہ حکمران کیوں اپنا احتساب نہیں ہونے دیتے، ان کے پروٹوکول کیوں اتنے ذیادہ ہوتے ہیں اور پھر ہم عوام سے گلہ کرتے ہیں کہ ہیں ہمیں کھل کر حکومت نہیں کرنے دی جاتی ، بات در اصل یہ ہے ان کے اپنے نخرے ختم ہوں تو یہ عوام کا کچھ سوچیں ، یہ حکمران اس غریب عوام کو تو کچھ بھی نہیں دیتے میں اس لیے کہتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں حکومت کے معاملات سیاست دانوں کی بجائے پُر اسرار بندے دیکھتے ہیں تو انھیں یہ سب معاملات دیکھنے دیں کیوں کہ اور کچھ نہیں تو وہ اس ملک کو کم از کم تحفظ تو دے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک سلامت ہے۔
 

Awais Sikandar
About the Author: Awais Sikandar Read More Articles by Awais Sikandar: 10 Articles with 13282 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.