آٹا مافیا ، چینی مافیا، سیمنٹ مافیا ، قبضہ مافیا وغیر ہ
وغیرہ کے بعد اب پیش خدمت ہے ٹرانسپورٹ مافیا جس کے سپردپاکستان ریلویز اور
اس کی کھرب روپے کی جائیداد کرنے کی تیاری مکمل کرلی گئی۔اس میں بہت سے
میگا کرپشن کیس کی فائلیں بند ہوجائیں گی ۔ قومی مجرم باعزت بری ہوجائیں
گے۔ اس بات کی تصدیق وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے اپنے بیان میں کردی ہے
کہ سٹیل ملز کی طرح ملک کے ریلوے نظام کا بھی برا ہے، اگر یہی نظام چلتا
رہا تو پاکستان سٹیل ملز کی طرح ریلوے کو بھی بند کرنا پڑجائے گا، بحیثیت
وزیر کہہ رہا ہوں، ریلوے کو ہم نہیں چلاسکتے۔
دوسری جانب خبر یہ ہے کہ دستاویزات کے مطابق پاکستان ریلوے نے تما م چلنے
والی مسافر ٹرنیوں کوآؤٹ سورس کرنے کافیصلہ کرلیاہے پاکستان ریلوے نے کرونا
کی پہلی لہر کے بعد تمام مسافرٹرینیں بندکردی تھیں اور کرونامیں کمی کے بعد
88مسافرٹرینیں دوبارہ شروع کردی تھیں جو کورونا سے 130سے زائد تھیں جس پر
پاکستان ریلوے کو کہناتھاکہ باقی ٹرنیں ن خسارہ میں نچل رہی تھیں پہلے
مرحلے میں 15مسافر ٹرینیوں آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا تھا جن میں سے
3منافع بخش مسافر ٹرینیں نجی کمپنی چلارہی ہے جبکہ4خسارے میں چلنے والی
ٹرینوں کونجی کمپنی نے 3ماہ کے اندر واپس کر دیاجبکہ منافع میں چلنے والی
ٹرینوں کواپنے پاس رکھا۔
تاریخی حوالے سے موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861 میں ہوا جب
کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 24 اپریل 1865 کو
لاہور - ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 6
اکتوبر 1876 کو دریائے راوی، دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر
مکمل ہو گئی اور لاہور - جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 جولائی 1878
کو لودہراں - پنوعاقل 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 27
اکتوبر 1878 کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو
اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ رک سے
سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام جنوری 1880 میں مکمل ہوا۔ اکتوبر 1880 میں
جہلم - راولپنڈی 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے
کھول دیا گیا۔ 1 جنوری 1881 کو راولپنڈی - اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل
ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 مئی 1882 کو خیرآباد کنڈ - پشاور 65 کلومیٹر
طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہو گئی۔ 31 مئی 1883 کو دریائے سندھ پر اٹک پل
کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور - راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو
گیا۔1885 تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیاں سندھ ریلوے، انڈین
فلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے اور دہلی ریلوے کام کرتیں تھیں۔ 1885 میں انڈین
حکومت نے تمام ریلوے کمپنیاں خرید لیں اور 1886 میں نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ
ریلوے کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کر دیا گیا۔مارچ
1887 کو سبی - کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ 25 مارچ 1889 کو
روہڑی اور سکھر کے درمیان لینس ڈان پل کا افتتاح ہوا۔ اس پل کی تعمیر مکمل
ہونے کے بعد کراچی - پشاور سے بزریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 15 نومبر 1896 کو
روہڑی - حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا
افتتاح ہوا۔ 25 مئی 1900 کو کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری - حیدرآباد
ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز
کی کراچی - پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔نارتھ ویسٹرن
ریلوے کو فروری 1961 میں پاکستان ویسٹرن ریلوے اور مئی 1974 میں پاکستان
ریلویزمیں تبدیل کر دیا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب انسدادکورونا قوانین
کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندیاں عائد کی گئیں تھیں ۔ مختلف نجی
ٹرانسپورٹ سروس کمپنیوں کے مالک ایوانوں میں منتخب عوامی نمائندوں کی حیثیت
براجمان ہیں۔آٹا مافیا ، چینی مافیا، سیمنٹ مافیا ، قبضہ مافیا وغیر ہ
وغیرہ کی انکوائریاں مکمل نہیں ہوئی ۔ پاکستان اسٹیل ملز سمیت متعددنجکاری
کی زد میں آنے والے اداروں کے ملازمین اپنے حقوق کے لئے سراپااحتجاج ہیں ۔
اس صورت حال میں اچانک پاکستان ریلویز کی نجکاری کا فیصلہ ٹرانسپورٹ مافیا
نوازنے کے سوااور کچھ نہیں۔ پاکستان ریلویز اس وقت ملک میں سب سے زیادہ
اثات جات کا حامل ہے۔
بقول شاعر،داغ دہلوی
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
ضرورت اس امر کی ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے فیصلوں پر
نظرثانی کرنا چاہئے کیوں ظلم اور زبردستی کے فیصلہ طاقتور نہیں۔اگرموجودہ
حکومت نے پاکستان ریلویز کی نجکاری پر نظرثانی نہ کی تویہ ملکی تاریخ کا
بدترین فیصلہ ہوگا۔
|