عماد بزدار کی تصنیف ’ملزم جناح حاضر ہو۔ تحقیقی و تنقیدی تجزیہ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
عماد بزدار کی تصنیف ’ملزم جناح حاضر ہو۔ تحقیقی و تنقیدی تجزیہ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ہم نے پاکستان میں وہ دور بہت اچھی طرح سے دیکھا ہے کہ جب ترقی پسند شاعروں، نثر نگاروں، سیاستدانوں کو ان کی گفتگو،تقاریر، ان کی شاعری کے منظر عام پر آنے کے بعد گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ تحقیق اور مقدمہ قید ہونے کے بعد چلا کرتا تھا۔ بہت سی مثال دی جاسکتی ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کو قید کیا گیا، حبیب جالب قید ہوئے، سیاست دانوں کی تو ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے قید و بند کی ازیتیں برداشت کیں۔سیاست دانوں میں ولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، نواب زادہ نصراللہ خان، آصف علی زرداری، نواز شریف، مخدوم جاوید ہاشمی، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹواور دیگر شامل ہیں۔ جب ملک میں سرکار اسلامی ذہن لیے ہوئے ہوتی تھی تو انقلابیوں، اشتراکیو ں، کمیونیسٹو، ترقی پسندوں کو دھڑا دھڑا جیل میں ڈال دیا کرتی۔ کتابیں، شاعری کے مجموعے ضبط کر لیے جاتے، کتابوں پر پابندی عائد کردی جاتی۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس قسم کی حرکات و سکنات حکمرانوں کو وقتی تسیکن و تسلی کے سوا کچھ نہ تھیں۔ آزادی اظہار، آزادی رائے، آزادی تحریر پر قدغن زیادہ عرصہ نہیں رہ سکتی۔ اسے صرف اور صرف دلائل سے، گفتگو سے، قائل کیا جاسکتا ہے۔ حبیب جالب کی شاعری خود اس کی زبانو لہجے میں اس دور کے حکمرانوں کے دلوں پر خنجر چلایا کرتی تھی، یاد کیجئے اس دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا، خطرے میں اسلام نہیں، تھانے چلو ورنہ، وغیرہ وغیرہ لیکن وقت نے پلٹا کھایا، اب وہ زمانہ نہیں رہا، اب کتابوں پر پابندیاں نہیں لگتیں، اب شاعروں کو ان کی شاعری کی وجہ سے جیل نہیں بھیجا جاتا۔ اب تو وقت کے حکمراں جیسے شہباز شریف، حبیب جالب کے شعر بھرے مجمعے میں سنانے لگے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خود بطورو حکمراں حبیب جالب کا نشانہ تھے۔ پاکستان کے قیام اور بانیئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں بھی بعض لوگوں نے منفی خیالت کا اظہار کیا، بعض نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھ دیں، بہت سے زبانی کلامی قائد کے بارے میں منفی رویے کا اظہار 70سال سے کر رہے ہیں۔ ان کے اس عمل کو وقت کے ساتھ مختلف محققین، مصنفین نے دلائل کے ساتھ غلط ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل نے ان حالات اور واقعات کو نہ دیکھا، نہ ان میں حصہ لیا، انہوں نے تو حمایت میں اور مخالفت میں بات کرنے والوں کی کتھا کو سنا، کچھ نے اپنے بڑوں کی زبانی یہ واقعات اور حالات سنے۔ سچ کیا اور جھوٹ کیا ہے۔یہ وقت کا مورخ اور مستقبل کا محقق ہی سامنے لاسکتا ہے اور لارہا ہے۔ ان میں سے ایک نوجوان صحافی عماد بزدار بھی ہے جس نے قائدپر لگنے والے الزامات کو لائل، شوائد،ثبوتوں، منطقی انداز سے اور الزام لگانے والوں کی ان کی اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ وہ سب کچھ غلط ہے۔ کتاب میں قائد پر لگنے والے اعتراضات اور الزامات کو کس طرح مصنف نے رد کیا ہے اس کی تفصیل یقینا بیان ہوگی، جب سے یہ کتاب منصہئ شہود پر آئی ہے اس پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ مجھ تک اس کا دوسرا ایڈیشن پہنچا ہے، اس کتاب کی باز گزشت تو سال بھر سے سنی جارہی تھی، رمضان المبارک سے قبل لندن میں مقیم میری مہرباں ثمینہ رشید کا میسیج ملا کہ میں انہیں اپنا پوسٹل ایڈریس دوں وہ لاہور سے عماد بزادار کی کتاب مجھے بھجوانے کی خواہش مند ہیں۔ میں نے عمل کیا، کافی دن لگ گئے، معلوم ہوا کہ کتاب لاہور سے بذریعہ پوسٹ کراچی پہنچی لیکن میرے گھر تک نہ آئی، وجوہات نہ معلوم رہیں، اس عمل کو ثمینہ نے پھر دھروایا اور کتاب مجھے مل گئی۔ رمضام میں روزہ اور قرآن کے سوا تمام امور مقطع رہتے ہیں چنانچہ یہ کتاب پورے رمضان میری قربت کی منتظر رہی۔رمضان بعد میں نے اسے لائن میں لگی ہوئی تصانیف سے نکال کر ترجیح دی۔ اس ایک ماہ میں غور کرتا رہا کہ مصنف نے آخر اس کتاب کے لیے اس عنوان کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا مصلحت ہے؟ کیا راز ہے؟ آخر جناح سے قبل ملزم کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا۔ کتاب پر تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کے آغاز میں ہی میرے دل و دماغ نے جناح کے نام سے پہلے لفظ ملزم کو قبول نہیں کیا۔ کتاب کے اندر کسی جگہ اس کی وضاحت مجھے نہیں ملی۔ اب ایک ہی راستہ تھا اس گتھی کو سلجھانے کا کہ کتاب کے مصنف سے دو ٹوک الفاظ میں پوچھا جائے، کتاب کا مصنف نوجوان صحافی ہے، یہ میرے میرا فیس بک فرینڈ تو ہے لیکن میں میسیج کے بجائے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔ کتاب میں مصنف کا موبائل نمبر نہیں، پبلشر کا نمبر درج تھا سو پہلی فرصت میں سویرا پبلی کیشنز جو لاہور میں ہے کو فون گھمایا، میں نے تعارف کرایا اور مصنف کا موبائل نمبر طلب کیا، انہوں نے فرمایا کہ میں مارکیٹ میں ہوں یہ کتاب مجھ سے دو لڑکوں نے چھپوائی تھی، میں آفس جاکر ان کے نمبر سینٹ کردونگا۔ بات معقول تھی، شکریہ اداکیا، اب دوسرا خیال لندن میں موجود ثمینہ رشید صاحبہ کا آیا جنہوں نے یہ کتاب مجھے بھجوائی تھی، انہیں میسیج کیا کہ عماد بزدار کا نمبر درکار ہے، انہوں نے فوری بھیج دیا۔ میں نے سوچا کہ اس موضوع پر ان سے بھی بات کی جائے ویسے تو کتاب کے ابتدائی صفحات میں ان کا تحریر کردہ اظہاریہ بھی ہے لیکن جو موضوع یا جو خلش میرے ذہن میں تھی اس پر ان کی توجہ دلا ئی اور ان سے پوچھا کہ آپ میرے اس تجسس کے بارے میں کیا کہیں گی۔ انہوں کچھ تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالی وہ کچھ یوں ہے ”در اصل کچھ لوگ جن میں قوم پرست، گاندھی جی کے فین اور رائٹ ونگ کے وہ لوگ جو پاکستان بننے کے خلاف تھے وہ ہمیشہ قائد کی شخصیت کو لے کر طرح طرح کے الزاما ت لگاتے ہیں۔ مثلاًجناح برٹش ایجنٹ تھے، گاندھی کی حیثیت کے سامنے جناح کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں، پاکستان تو بس بن گیا جناح کا سیاسی کردار کچھ نہیں تھا اور خصوصاً مطالعہ پاکستان کے خلاف لوگ پرسنل ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ جناح میٹرک پاس تھے، ان کی ذاتی زندگی پر بات کرتے ہیں۔ یعنی جناح پر الزامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ عماد بزدار نے ان سارے الزامت کو تاریخی حقائق اور واقعاتی شہادتوں سے غلط ثابت کیا ہے۔ گو کہ اس کا مقصد گاندھی پر تنقید نہیں تھا۔ لیکن تاریخی حقائق گاندھی کی پالیسی کو منافقانہ اور مسلم دشمن ثابت کرتے ہیں۔ اس کتاب سے گاندھی کے کردار کو سمجھنے میں مدد ملی ہے“۔ ثمینہ رشید کی اس وضاحت پر میرا تجسس اپنی جگہ قائم رہا۔ میں نے اپنا تجسس پھر دھرایا کہ یہ باتیں جو آپ نے لکھیں درست پر میری سوئی لفظ ’ملزم‘ پر اٹک گئی ہے۔ ثمینہ نے ازراہ عنایت پھر واضح کیا۔”اس کتاب کا عنوان اسی لیے’ملزم جناح حاضر ہو‘ رکھا کہ بطور ملزم جناح کو تاریخی کٹہرے میں کھڑا کر کے ان الزامات کو حقائق کی روشنی میں غلط ثابت کیا جاسکے“۔ تیسرے مرحلے میں مصنف عماد بزدار کو فون کیا انہوں نے فوری اٹھالیا، اپنا نام بتایا، کہنے لگے کہ آپ میرے فیس بک دوست بھی ہیں، میں نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے۔ کتاب کی مبارک باد دی۔اپنی الجھن بیان کی، انہوں نے بڑے تحمل سے سنا اوروضاحت کی کہ قائد پر مختلف قسم کے الزامات لوگ لگاتے رہے ہیں،یہاں تک کہ بعض نے اپنی کتابوں میں قائد پرجھوٹ الزامات لگائے انہوں نے بطور خاص ولی خان کے جھوٹ کا ذکر کیا، ان کا کہنا تھا کہ میں نے جناح کو کٹہرے میں کھڑا کر کے الزامات لگانے والوں کے الزامات کو ان کی اپنی تحریر اور تاریخ حقائق کی روشنی میں غلط ثابت کیا ہے“۔ عماد کی باتوں میں وزن ور منطق تھی۔ عنوان کے حوالہ سے ایک الجھن سی آئی تھی جسے میں نے جو ذرائع ہوسکتے تھے ان سے گفتگو کر کے دور کیا۔ اسے کسی صورت منفی نہ لیا جائے۔ کتاب ایک مستند تاریخی و تحقیقی دستاویز ہے۔ اب کتاب کے مندرجات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عماد بزدار، محمد اسلم خان، محمد اظہار لحق، ثمینہ رشید، سحرش عثمان شامل ہیں۔محمد اظہار الحق کا خیال ہے کہ ”عماد بزدار کی تصنیف آج پاکستان کی ایک بنیادی ضرورت پورا کر رہی ہے۔ یہ ایک خالص تحقیقی کتاب ہے۔ اس میں نعرے ہیں نہ جذبات۔ حقائق کو مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی ہے نہ مذہب سے بزور دور دھکیلنے کی“۔محمد اسلم نے لکھا کہ ”عماز بزدار کی کتاب میں ٹھوس حقائق، واقعاتی شہادتوں اور مستند دستاویرازت کے حوالوں ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے جسے دائیں اور بائیں ہر دو طرح کے کٹھ ملاؤں نے اپنے تعصب کی عینک سے دیکھا اور ہمیشہ منفی بیان کیا“۔ ثمینہ رشید کے خیالات اوپر بیان ہوچکے ان کا مزید لکھنا ہے کہ ”تاریخ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ول حقائع اور سچائی کو کہیں نہ کہیں کسی شکل میں رقم کرہی دیتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے تو صرف سچ کو کھوجنے کی۔ سوال کرنے وار جواب ڈھونڈنے کی۔ عماد بزدار ے نے اس کتاب میں ان سارے سوالوں کے مدلل جوابات کو جمع کردیا ہے“۔سحرش عثمان کہ کہنا ہے ”یہ کتاب تاریخی حقائق کی روشنی میں جناح کے مقام کے تعین کے لیے ایک مستند حوالہ ثابت ہوگی۔ بلا شبہ تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے یہ کتاب ایک نعمت غیر مترقبہ ہے“۔ان احباب کی آراء کی روشنی میں دو ٹوک الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے بانی ئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر اٹھنے والی انگلیوں، ان پر لگائے جانے والے الزامات کو مخالفین کی اپنی تحریروں، حواشی و حوالات سے تاریخ پاکستان میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کی درستگی کا صائب فریضہ سر انجام دیا ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب کا عنوان ہے ’متحدہ ہندوستان کا حامی جناح‘۔ کتاب کا یہ اہم ہے اور 52 حوالوں سے مزین ہے۔ حوالے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ محقق نے اپنی بات کا حق و سچ ثابت کرنے کے لیے، تحقیق کو مستند بنانے کے لیے کس قدر محنت کی، تلاش و جستجو کے لیے اس نے متعلقہ دستاویزات تک رسائی کو ممکن بنایا۔ چند اہم حوالوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جیسے ’جناح اور گاندھی‘ ایس کے موجمدار ترجمہ ثوبیہ طاہر، چوہدری خلیق الزمان کی شاہراہ پاکستان، ہیکٹر بولتھو کی ’حیات قائد اعظم‘، ڈاکٹر امیڈکر کے ’تھاٹس آن پاکستان‘، اسٹنیلے والپرٹ کی ’جناح آف پاکستان‘،ڈاکٹر صفدر محمود کا ترجمہ ’تقسیم ہند افسانہ اور حقیقت‘، ’پاکستان کیسے بنا‘ کی کئی جلدیں، عبدالرب نشتر کی ’آزادی کی کہانی‘، قائد اعظم کے خطوط، جسونت سنگھ کی کتاب پر ڈاکٹر انور شاہین کا تبصرہ اور دیگر حوالے۔ اس باب کا آغاز ’متحدہ ہندوسان کا حامی، قوم پرست جناح‘ ہے اور یہ بات سچ ہے کہ جناح آغاز سیاست میں متحدہ ہندوستان کے حامی تھے، وہ کانگریس کے رکن بھی تھے، گاندھی کی ڈکٹیٹر شب کی کہانی ہے،،نہرورپورٹ، 14نکات ہیں، گول میز کانفرنس، رولٹ ایکٹ پر جناح کا ردِ عمل، غاندھی کی ڈکٹیٹر شپ کی کہانی اور جناح صاحب کی واپسی پا اس باب کا اختتام ہوتا ہے۔ باب دوم کا عنوان ہے ”مسلمانوں کے قائد اعظم“۔ اس میں فضل الحق رپورٹ برائے بنگال، مطالبہ پاکستان، ہندوستان چھوڑدو تحریک اور جناح گاندھی مذاکرات، جناح صاحب کا بیورلے نکولس کو دیا گیا انٹر ویو، کیبنٹ مشن، جناح ویول ملاقات، دو قومی نظریہ، ہندو لیڈر شپ کی نفرت اورتنگ نظری شامل ہے۔ تیسرا باب ”گاندھی کی شخصیت“ کا احاطہ کرتا ہے، گاندھی کی شخصیت کے بارے میں مختلف شخصیات کی آراء اور دیگر امور گاندھی کی سیاست کے حوالہ سے زیر بحث آئے ہیں۔ کتاب کا آخری باب کا عنوان ہے ’ولی خان کے الزامات کا جواب“۔ پاکستان کے سیاست داں ولی خان صاحب مخصوص سوچ اور ان کی سیاست بھی مخصوص و مختلف تھی۔ وہ قائد کے ناقدین میں سے تھے۔ انہوں نے ایک کتاب بعنوان ”حقائق حقائق ہیں“ لکھی تھی۔ جب یہ کتاب لکھی گئی تو انہیں پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کی اجازت نہ ملی تو تھی یہ کتاب ’افغانستان‘ سے شائع ہوئی۔اس کتاب میں لکھی گئیں باتوں کا جواب تو بے شمار لوگوں دلائل اور حقائق کی روشنی میں دیا۔ یہاں عماد بزدار نے بھی ولی خان کے جناح پر الزامات کو جھوٹ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تحقیق کی، جستجو کی، بے شمار کتابوں، مضامین اور دستاویزات کا سہار لیا۔ جن کی تفصیل ہر باب کے آخر میں دی گئی ہے۔ ولی خان کو حیدر آباد سازش کیس میں قید میں بھی رکھا گیا بعد ازاں حیدر آباد ٹریبونل توڑدیا گیا اور تمام ملزم رہا کردیے گئے۔یہ اور دیگر باتیں اب ماضی اور تاریخ کا حصہ بن چکیں ہیں۔ محققین اس موضوع کو اپنی تحقیق کا حصہ بناتے رہیں گے۔ قائد اعظم پر بے شمار کتابیں، مضامین، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق بھی ہوچکی ہے اورمستقبل میں یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ قائد کو جو عزت و مقام ملا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ ان پر غلط الزامات اورجھوٹ گوئی بے وقعت ہوجاتی ہے۔میں ان الزامات کو یہاں دھرانا غیر ضروری سمجھتا ہوں جو مخالفین ِ قائد اور پاکستان پر لگائے، اس لیے کہ ان کے الزامات اس قدر لغو، جھوٹ کا بلندہ ہیں۔ اگر انہیں سچ مان لیا جائے تو پاکستان کا وجود ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان الزامات کو دھرانا بھی نہیں چاہیے۔ الزامات لگانے والوں کی اکثریت اللہ کو پیاری ہوچکی، ان کی باقیات کو اللہ تعالیٰ عقل دے اور وہ اس ملکِ خداداد کو سلامت رکھنے، ترقی دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔نوجوان صحافی عماد بزدار نے تحقیقی کتاب لکھ کر سچے پاکستانی، قائد سے عقیدت رکھنے والے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوچکا ہے۔ یقینا اس کو لوگ پڑھنا چاہیں گے اور پڑھنا بھی چاہیے، تاکہ قائد کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں۔ مستقبل میں اس کے اور بھی ایڈیشن شائع ہوں گے۔ بہتر ہوگا کہ آئندہ ایڈیشن کی اشاعت سے قبل کسی ماہر پروف ریڈر سے اس پر نظر ثانی کرالی جائے۔ کتاب میں جا بجا املا کی غلطیاں ہیں۔ انہیں درست ہونا بہت ضروری ہے۔آخر میں لندن میں موجودثمینہ رشید کا شکریہ کہ انہوں نے یہ کتاب مجھ تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیاا۔ ان کے توسط سے میں قائد کے بارے میں تحقیقی کتاب کا مطالعہ کرسکا اور میری ذاتی لائبریری میں ایک اچھی کتاب کا اضافہ بھی ہوا۔(20مئی2021ء) |