مبصرہ۔ شیبا حنیف
آج میرے ہاتھ میں میرے ہر دل عزیز بھائی ایم ایم علی کی (سرخ محبت) تصانیف
موجود ہے۔ میں اس کے ٹائٹل پہ نظریں گاڑے ہوئے ہوں اور اس کے عنوان سے
کہانی اخذ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ بھلا اس کہانی میں کیا ہوگا؟ عنوان میں
ایک فوجی جون ہے جو شاید اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتا ہے جب کہ دوسری طرف
وطن کی محبت کے باعث اس فوجی جوان سے اس کی خود کی محبت دور ہوتی جا رہی ہے
جو شاید ایک دوشیزہ ہے جیسا کہ عنوان میں درج ایک دوشیزہ دوسری جانب رخ کیے
چلی جا رہی ہے۔ اب ان دونوں میں کیا رشتہ ہے؟ یہ کیسے سرخ محبت لہو میں
ڈوبی محبت بنی؟اس کی گتھی سلجھانے کے لیے میں کتاب کے اندرونی صفحات کھولتی
ہوں۔
انتساب پڑھ کے بے حد حوشی ہوئی کہ ہر اس فوجی کے نام کیا گیا ہے جن کی وطن
سے محبت کی بدولت ہم سب کی زندگیاں روشن اور حسین ہیں۔
پیش لفظ: پہ نظریں مرکوز کیں جناب محترم ایم ایم علی صاحب کے بارے میں
تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا یقیناً یہ بات قابل ستائش ہے کہ2017میں انہوں
نے اپوواء کی بنیاد رکھی اور انتہائی کم عرصے میں ایک بہترین ادارہ بنا
ڈالا۔ ماشاء ﷲ سچ ہی کہتے ہیں لوگ
'' اﷲ نیک نیتوں کے پھل لگاتا ہے''
پیغام ِ پاکستان, جہانِ ادب, ہفت روزہ اپواء اور اب الحمد اﷲ اپوواء ڈائجسٹ
(جو کہ جلد ہی منظرِ عام پہ آنے والا ہے) بلاشبہ میرے محترم پیارے بھائی
ایم ایم علی ہی کی بدولت ممکن ہو سکا ہے ایم ایم علی شکریہ اپوواء تنظیم
بنانے کا ہم سب نئے لکھاریوں کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرنے کا۔ میں
شیباحنیف اپنے تمام لکھاری بہن بھائیوں کی جانب سے تہہ دل سے آپ کا شکریہ
ادا کرتی ہوں۔ اﷲ آپ کو آپ کے نیک مقاصد میں کامیاب کرے آمین۔
علی سے ایم ایم علی تک کا سفر: حافظ محمد زاہد صاحب کی بدولت طے پایا اور
اس سفر میں میں نے جانا۔ایم ایم علی کا اصل نام (میاں محمد علی) ہے وہ
کراچی میں یکم مارچ 1988 میں پیدا ہوئے جب کہ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم
لاہور سے حاصل کی۔ اور ان کا پہلا کالم 2004 میں شائع ہوا تھا۔ مزید آگے
بڑھتے ہوئے 2010 میں انہوں نے مستقل بنیادوں پر صدائے حق کے نام سے کالم
لکھے۔ اور انہی کالموں پہ مشتمل کتاب (صدائے حق) کو قارئین سے بہت داد
وتحسین مل چکی ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ مشہور زمامہ الیکٹرانک
میڈیا میں علی بھائی ایک دن(عوام کے ساتھ) بطور انکرپرسن بھی اپنی
قابلیت,ذہانت اور دوراندیشی کا لوہا منوا چکے ہیں چلئیے اب بات کرتے ہیں
سرخ محبت پہ ،ناول کے آغاز میں شبِ وصل کی خوب صورت رات کا زکر ہے جس میں
دھوپ چھاؤں سا موسم ہے ایک فوجی اپنی نئی نویلی دلہن کو سمجھا رہا ہے
کہ''ایک سپاہی کا ہر قدم جہاد کی طرف اٹھتا ہے ''۔جب کہ رشنا کا بھی یہی
ماننا ہے ''پیار میں بہت طاقت ہوتی ہے '' پھر چاہے وہ وطن کی مٹی سے ہو یا
وطن میں بسنے والے لوگوں سے۔
اس کہانی کے ہیرو کا نام معاذ ہے جو کہ ایک اعلی فوجی افسر کرنل مقصود اور
بلقیس بیگم کی اکلوتی اولاد ہے کرنل صاحب اکثر و بیشتر اپنے اکلوتے لختِ
جگر معاذ کو فوج میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت دیتے مگر معاذ بیرونِ ملک
جانے کا خواہش مند تھا جب کہ کرنل صاحب کے ساتھ ساتھ بیگم بلقیس بھی اپنے
بیٹے کو ملک و قوم کی حفاظت کرنے کا کہتی۔ مگر ان کا لاڈلا بیٹا جوکہ خوب
صورت امیر دوستوں میں رہنے والا,فوج میں شمولیت اختیار کرنے سے قاصر رہتا
اور وہ اپنے ہی شہر کے بہترین کالج میں زیرِ تعلیم تھا جب کہ سیاحت کا تو
حد درجہ رسیا تھا کبھی یہاں تو کبھی وہاں، سیاحت اس کا من پسند مشغلہ ہے۔
جب کہ معاذ کی آئے روز غیر حاضری پہ رشنا نامی نازک سی لطیف و حسین جذبات
والی دوشیزہ افسردہ اور فکر مند رہتی اور آئے روز اپنی دوست عینی سے
پوچھتی۔
یہ معاذ کیوں نہیں آئے؟ جب کہ عینی دل ہی دل میں اپنی پیاری سی دوست جس کی
بدولت وہ اپنی محبت جنید کو پانے میں کامیاب ہوئی رشنا کی حالت زار پہ
افسوس کرتی ہے اور اسے کچھ سمجھاتے سمجھاتے رہ جاتی ہے کہ کہیں عینی کے
لفظوں کی سچائی رشنا کو چھلنی نہ کر دیں۔ر شنا معاذ کے کالج میں ہی زیرِ
تعلیم ہے ۔اور وہ بھی اس حقیقت سے آشناء تھی کہ کالج کی بہت ساری لڑکیاں
معاذ پہ فدا ہیں اور معاذ کی الفت کا دم بھرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ جہاں
اتنی مکھیاں امنڈ امنڈ کے آنے کو بے قرار ہوں وہاں رشنا جیسی کم صورت مڈل
کلاس لڑکی جس کی معاذ نے بغیر کسی وجہ سے اوباش لڑکوں سے ناموس بچائی اور
اسے عزت و آبرو کے ساتھ نا صرف محفوظ مقام پہ پہنچایا بلکہ اوباشوں کی خوب
پھینٹی بھی لگائی۔ رشنا جو پہلے ہی معاذ سے محبت کرتی تھی اب تو اس کی
دیوانی ہو چکی تھی مگر رشنا کی معاذ سے محبت یک طرفہ ہے۔ رشنا کے والد
سرکاری ملازمت کرنے والے کلرک (اکرام صاحب تھے جو اکثرو بیشتر سینے کے درد
میں مبتلا رہتے۔ وہ اپنا آبائی علاقہ تھرپارکر چھوڑ شہر میں پناہ گزین
ہوئے۔ جہاں آکر اکرام صاحب نے سرکاری نوکری تو پالی, رشنا کو پڑھایا
لکھایا, بیوی کا ساتھ نبھایا مگر اپنے لخت جگر امجد کو نشے کی لت میں اپنا
آپ برباد کرتے دیکھا اور اولاد کی بربادی کا یہ دکھ اکرام صاحب, اور خالدہ
بیگم کو اندر ہی اندر کھائے جانے لگا اب وہ اکثر ہی بیمار رہتے۔ پیارے
دوستو: تھر پارکر وطن عزیز کا وہ حصہ ہے۔ جہاں غربت اور جہالت کے قصے زبانِ
زدعام ہیں یہاں مجھے یہ کہہ لینے دیجیے کہ علی بھائی نے تھر پارکر کا نقشہ
آنکھوں کے سامنے کھینچ کے رکھ دیا کہیں اونٹ تو کہیں ریت کا طوفان واہ بہت
ہی عمدہ منظر نگاری چند لمحے تو یوں لگا جیسے معاذ کی طرح میں بھی صحرا میں
کھو گئی ہوں اور میری آنکھیں ریت کی بدولت بند ہو گئی ہے۔ اور مجھے بھی
اپنا آپ کسی جھونپڑی میں پڑا نظر آنے لگا۔ پنجر اور ڈھانچوں جیسے بچے نظروں
کے سامنے دوڑنے لگے۔ اور میں بے ساختہ ساون کی فریاد کرنے لگی کہ یا اﷲ
مینہ برسا یا اﷲ بارش یا اﷲ ساون میرے ہونٹ بھی پیاس سے خشک ہو گئے سانولی
رنگت والی عورتیں پانی کے لیے سرگرداں نظر آنے لگیں۔ یا خدا یہ کیسے لوگ
ہیں سوکھے سانولے؟ یا خدا یہ کیسی دنیا ہے جہاں پانی کی بوند بوند کو ترسنا
پڑتا ہے؟ میں نے ہواؤں کا طوفان چلتے دیکھا ہے مگر ریت کا طوفان؟؟ اسی ناول
کی بدولت دیکھا سرخ آندھی, ریت کا طوفان ہر چیز بہا کر لے جاتا ہے بڑے بڑے
اونٹ, دوست مال و متاع سب لٹ جاتا ہے بالکل ایسا ہی تو ہوا معاذ اور اس کے
دوستوں کے ساتھ۔ ایسے میں جب غیبی مدد منظور ہو تو صبور نامی ننھا سا فرشتہ
اتر آتا ہے۔جو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں زیرِ تعلیم ہے۔ اور چھٹیاں
گزارنے اپنے نانا چاچارحیم سے ملنے صحرا میں آیا ہے ننھا صبور صحرا میں
ساون بن برس رہا ہے اس کی میٹھی میٹھی باتیں معاذ اور کرنل مقصود کے دل کو
گدگدا رہی ہیں چاچا رحیم جو کہ ویرانے میں مسیحائی بانٹ رہے ہیں اور لوگوں
کو قناعت شکر عاجزی انکساری کا درس دے رہے ہیں۔ تو گویا وہ بھی تو کوئی
فرشتہ ہی ہیں۔ جنہیں قدرت نے انسان کے روپ میں انسانوں کی دوا کے طور پہ
بھیج دیا۔ معاذ کو بھی تو انہوں نے جیون دان دیا, زندگی سے مایوس رشنا کو
بھی تو انہوں نے ہی اس کی حقیقی خوشی و زندگی معاذ سے ملوایا۔ کرنل مقصود
جو اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو بیٹھے تھے چاچا رحیم کے در پہ ہی تو آکے سب
بچھڑے ملے, بخار میں سلگتی خالدہ شفایاب ہوئی۔ مگر یہ کیا جیون دان دینے
والے کے گھر کیسی قیامت ٹوٹ پڑی آرمی پبلک سکول پہ حملہ معصوم صبور کو مار
کر ظالموں کو کیا ملا؟ ہائے کتنے ہی معصوم کچل ڈالے شہر تو کیا گاؤں اجاڑ
ڈالا پانی کی طلب کرتے صحرا کے باسیوں کو خون سے نہلا ڈالا۔ ان کے
صبر,قناعت,ہمدردی کا صلہ یہ دیا کہ انہیں آنسوؤں میں رول ڈالا۔ صبور کی موت
نے معاذ کے اندر کے فوجی کو جگایا اور اس نے وطن کے لیے لڑتے ہوئے جامِ
شہادت نوش کیا۔ معاذ تو بڑے جوش و خروش کے ساتھ پورے فوجی اعزاز لیے شہادت
کی میٹھی نیند سو گیا جب کرنل مقصود اور بلقیس بیگم اپنے اس دنیا میں آنے
اور بیٹے کو سپردِ وطن کرنے کے بعد سینہ تان کے کہنے لگے کہ '' ہم شہید کے
والدین ہیں'' اور اب ہمارا پوتا رومان ملک کی خدمت کرے گا ان شاء اﷲ۔ جب کہ
ایک دن کہ سہاگن, رومان کی والدہ, شہید کی بیوی رشنا کے پاس معاذ کی سنہری
یادیں ہیں جن سے وہ اٹھتے بیٹھتے اپنا دل بہلاتی ہے۔۔۔۔
آخر میں,میں یہ کہنا چاہوں گی بہت ہی عمدہ ناول گفتگو میں ربط بات سے بات
جڑی ہوئی پڑھتے وقت کہیں بھی کوفت محسوس نہیں ہوئی بلکہ پھر کیا ہوا؟ اچھا
آگے؟ کے تجسس میں قاری مسحور کن پڑھتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کے ناول
اختتام پزیر ہوا۔ علی بھائی آپ کو مصنفین کی صف میں کھڑا ہونے پہ ڈھیروں
ڈھیر مبارک باد۔ اﷲ کرے زور قلم اور بھی زیادہ سچ تو یہ ہے سرخ محبت آپ کی
دوسری تصانیف ہے جب کہ پہلی تصانیف صدائے حق سے میں ناواقف ہوں۔ میں صدائے
حق بھی پڑھنا چاہتی ہوں تاکہ پاکستان کے لیجنڈ کی ادب کے اصلی ہیرو کی
کہانی جو اندھیروں میں علم بانٹ رہا ہے۔ صحرا میں ساون کا کردار ادا کر رہا
ہے۔ پہ ایک مختصر مگر جامع سچی داستان لکھ سکوں۔ مجھے لگا میں نے معاذ کی
نہیں ایم ایم علی کی ہی داستان پڑھی ہے جو وطن سے, رشنا سے, اپنے والدین سے
اپنی اولاد سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی معاذ نے کر کے دکھائی۔ علی بھائی
صدائے حق پڑھنے کا انتظار رہے گا انشاء ﷲ۔ مجھے لگتا ہے یہ شعر علی بھائی
پہ ہی جچتا ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جزاک اﷲ خیر واحسان جزاء
|