سن 1948 کے اندر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین
کو تقسیم کرنے کی تجویز منظور ہوئی اور اس کی وجہ سے اسرائیل عالم وجود میں
آیا۔ اس کے خلاف ووٹ دینے والے 13 ممالک میں ہندوستان واحد غیر عرب ملک
تھا ۔ 1970 کی دہائی میں ہندوستان کے اندر فلسطینی عوام کے واحد اور جائز
نمائندے کی حیثیت سے پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کی حمایت میں ریلی
نکالی گئی۔سن1975 میں فلسطینی عوام کے واحد نمائندے کی حیثیت سے پی ایل او
کو تسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک ہندوستان بن گیا۔ دہلی میں پی ایل او
کے دفتر کو پانچ سال بعد سفارتی حیثیت دی گئی۔ 1988 میں جب پی ایل او نے
مشرقی یروشلم میں اپنے دارالحکومت کے ساتھ فلسطین کی ایک آزاد ریاست کا
اعلان کیا تو ہندوستان نے فورا ہی اسے منظوری دے دی۔ آگے چل کر جب بھی
یاسر عرفات ہندوستان تشریف لاتے تھےتو ان کا بطور سربراہ مملکت استقبال کیا
جاتا تھا۔ ہندوستان کی عرب ممالک پر توانائی کا انحصار بھی ا س رفاقت کا
ایک اہم عنصر بن گیانیز ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات بھی خیال رکھا جاتا
تھا۔
یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے خاتمہ نے ہندوستان کو
اسرائیل کا دوست بنادیا ۔ یہ منطق عجیب ہونے کے باوجود مبنی بر حقیقت ہے ۔
عرصۂ دراز تک ہندوستان غیر جانبدار ہونے کے باوجود سوویت یونین کی جانب
میلان رکھتا تھا۔ اسرائیل امریکہ کا حلیف تھا اس لیے دونوں ایک دوسرے کے
مخالف کیمپوں میں تھے ۔ سوویت یونین کے فوت ہوجانے کے بعد ہندوستان بھی
امریکی کیمپ میں داخل ہوگیا تو ماضی کے دو دشمن امریکی چھت کے نیچے دوست بن
گئے ۔ ہندوستان کے مسلم ممالک سے اچھے روابط کے سبب یہ آشنائی ڈھکی چھپی
تھی کیونکہ وہ اور ہندوستانی مسلمان اسرائیل کو دشمن سمجھتے ہیں ۔ اس کے
علاوہ گاندھی جی فلسطین کے حامی تھے اور کانگریس ان کی ڈگر پر چلنے کی کوشش
کرتی تھی۔ زمانہ بدلا تو وطن عزیز میں گاندھی جی کے قاتل گوڈسے نوازوں کو
اقتدار مل گیا ۔وہ لوگ مسلمانوں کے ووٹ سے مایوس و بے نیاز تھے اس لیے
ہندوستان و اسرائیل کھلم کھلا ایک دوسرے کے فطری حلیف بن گئے ۔
ہند اسرائیل تعلقات پر طائرانہ نظر سفارتی تعلقات میں اتار چڑھاو کا اشارہ
کرتے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1948 میں قائم ہونے والےاسرائیل کو تسلیم
کرنے کی خاطر 1950 تک انتظار کیا۔ اس کے بعد بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی
تعلقات قائم کرنے میں بڑا وقت لگایا۔ 1992 میں نرسمھا راو کے زمانے میں
اسرائیل سےسفارتی رشتہ تو استوار ہوگیا مگر تعلقات میں گرمجوشی کا مظاہرہ
نہیں ہوا۔ 2000 میں بی جے پی سرکار کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ لال
کرشن اڈوانی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے مرکزی وزیر بنے ۔ انہوں نے
اسرائیل کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم بھی کیا ۔
امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی مسماری کے بعد ہندوستان کھل کر اسرائیل کا
ہمنوا بن گیا۔ 2003 میں سابق قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے امریکن
جیوئش کمیٹی سے خطاب میں اسرائیل اور امریکہ کو مل کر 'اسلامی انتہاپسندی'
کے خلاف لڑنے پر زور دیا مگر 2004 میں کانگریسی اقتدار کے دورا ن یہ معاملہ
پھر سے سرد بستے میں چلا گیا لیکن کوئی تلخی نہیں آئی ۔
نریندر مودی کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور
پھر وزیر اعظم نریندر مودی نے2017میں اسرائیل کا دورہ کرکے دوستی پر مہر
لگا دی ۔ ہند اسرائیل دوستی میں وزیر اعظم مودی کا دورہ ایک سنگ میل ثابت
ہوا اور پھر بین الاقوامی فورم میں ہندوستان کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنے
لگا ۔ جون 2019؍میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل میں
فلسطین کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’شہید ‘کو مشاہد کا درجہ دیئے جانے کے خلاف
ایک قراداد پیش کی ۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق لندن میں واقع ’شہید
‘تنظیم حقوق انسانی اور انسانی مسائل پر کام کرنے کا دعوی تو کرتی ہے مگر
درحقیقت وہ لبنان کے حماس کی حامی ہے جسے وہ دہشت گرد گردانتا ہے۔ اس
قرارداد کی حمایت میں ہندوستان سمیت امریکہ ،جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور
جاپان سمیت 28ملکوں نے ووٹ ڈالے تھے جبکہ چین ،ایران ،پاکستان اور سعودی
عرب سمیت 14ملکوں نے اس کے خلاف ووٹ دیاتھا۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم
بنیامن نیتن یاہونے ٹویٹ کیا تھا کہ ،”اقوام متحدہ میں اسرائیل کاساتھ دینے
اور حمایت میں کھڑے ہونے کے لیے نریندرمودی اور ہندستان کا شکریہ۔“ یاہو کو
امید تھی کہ اب یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا لیکن بقول غالب؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
اسرائیل کے لیے ہندوستان کی دوستی ایک نعمت غیر مترقبہ تھی ۔ ویسے بھی وہ
ملک کسی اخلاقی اصول و ضابطے کا پابند نہیں ہے اس لیے اس نے ہندوستان کی ہر
معاملے میں غیر مشروط حمایت کرتا رہا۔ یہودی ریاست کو اسلام دشمنی اور مفاد
پرستی نے یہ بات بھلا دی کہ ان کا قاتل ہٹلر دراصل سنگھ پریوار کا آئیڈیل
رہا ہے اور ماضی میں وہ اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل نے ہندوستان کی
اس وقت بھی حمایت کی جب پوکھرن دھماکے کے بعد امریکہ نے ہندوستان پر معاشی
پابندی لگا دی تھی اور پلوامہ و ائیر اسٹرائیک کے بعد بھی ۔ اس نے اسلحہ
اور جاسوسی کے آلات فروخت کر کےہندوستان خوب روپیہ بھی کمایا ۔ 5 ؍ اگست
2019کو کشمیر میں دھاندلی کے بعد دنیا کے بہت سارے ممالک تنقید کررہے تھے
ایسے میں ہندوستان کو عالمی برادی کی مدد درکار تھی ۔ اس دوران 7؍ اگست کو
عالمی یوم رفاقت آگیا اور اسرائیل نے اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھایا ۔
2019 کے اندر ’یوم رفاقت ‘کے دن ' اسرائیلی سفارتخانے نے مودی اور یاہو کی
ایک تصویری ویڈیو شائع کی جس کے پس منظر میں شعلے فلم کا نغمہ ''یہ دوستی
ہم نہیں چھوڑیں گے '' چل رہا تھا ۔ اس طرح گویا ہندوستان کے ساتھ اسرائیل
کی دوستی بامِ عروج پر پہنچ گئی۔ اس پیغامِ محبت و الفت کے جواب میں مودی
جی نے جوش میں آکرعبرانی زبان میں لکھا تھا '' شکریہ، اسرائیل کے عوام اور
میرے بہترین دوست نیتن یاہو کی خدمت میں فرینڈشپ ڈے کی مبارکباد۔ ہندوستان
اور اسرائیل وقت کی کسوٹی پر آزمائے ہوئےدوست ہیں۔ہمارا تعلق مضبوط اور
لازوال ہے۔ دعا ہے ہماری رفاقت اور بھی پھولے پھلے ''۔وزیر اعظم نریندر
مودی کے لیے ٹوئٹر پیغام لکھنے والے محرر کے یہ بے جان الفاظ آج گنگا میں
کورونا کے مریضوں کی لاشوں کی مانند بے یارو مددگار تیر رہے ہیں ۔
ان الفاظ کو پھر سے پڑھیں کہ ہندوستان اور اسرائیل وقت کی کسوٹی پر آزمائے
ہوئےدوست ہیں۔ اس گانے بجانے کے بعد پہلے کورونا کی آزمائش آئی ۔ اس کی
دوسری لہر نے ہندوستان کے طبی ڈھانچے کی کمر توڑ دی ۔ سعودی عرب اور امریکہ
جیسے دوست تو دوست پاکستان اور چین جیسے دشمنوں کو بھی رحم آگیا اور سبھی
نےدست ِ تعاون دراز کیا لیکن اس دوران عرب ممالک کے مقابلے اسرائیل سے آنے
والی مدد بہت کم تھی ۔ اس لیے کہ اس کے پاس انسانوں کو تباہ و تاراج کرنے
کا تو بہت سارا سامان ہے لیکن انسانیت کو بچانے کی کوئی خاص تیاری نہیں تھی
۔ ویسے بھی امریکہ کی امداد پر گزارہ کرنے والے اسرائیل سے کسی بڑی مدد کی
توقع خام خیالی ہے۔ اس لیے وقت کی پہلی ہی کسوٹی پر یہ دوستی ٹوٹ کر بکھر
گئی۔اس طرح گویا جس تعلق کو مضبوط اور لازوال کہا گیا تھا وہ زوال پذیر
ہوگیا ۔ مودی جی کی دعا کہ ’ ہماری رفاقت اور پھولے پھلے‘ ناکام و نامراد
ہوکر لوٹ آئی۔
اس دوستی میں دوسری آزمائش سے اسرائیل کو گزرنا پڑا۔ اس نے حماس کے خلاف
اپنی وحشیانہ مہم میں اپنے دوستوں کی جانب حمایت کی خاطر نظر دوڑائی تاکہ
مظالم کی پردہ پوشی ہوسکے۔ اسرائیل کو اس موقع پر حکومت ہند سے بڑی توقعات
وابستہ تھیں اس لیے کہ فی الحال ہندوستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن
بھی ہے لیکن بھارت نے فلسطین کے ساتھ توازن قائم رکھ کر اسرائیل کو مایوس
کردیا ۔ انگریزی کےایک مشہور محاورے کا مفہوم ہے’سچا دوست وہی ہے جو مشکل
میں کام آئے‘ ۔ ہندوستان چونکہ حسب ِ توقع اسرائیل کے کام نہیں آسکا اس
لیے گویا نئی فلم شعلے کا جوشیلا نغمہ ’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے ‘ ازخود
پرانے سنیما سنگم کے غمگین نغمے میں بدل گیا جو یاہو کی زبان پر اس طرح
رواں ہے کہ ؎
دوست دوست نہ رہا ، پیار پیار نہ رہا
اے مودی ہمیں تیرا، اعتبار نہ رہا
( ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|