اقتدار کے مہرے

سیاستدان اقتدار میں نہ ہوں تو انہیں حکومت سے دنیاجہاں کے عیب نظر آتے ہیں۔وہ اپنے جلسے،جلوسوں اور دیگر محافل میں چیخ چیخ کر حکومت کو تما م تر خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔لیکن جوں ہی اقتدار کا ’’ہما‘‘ان کے سر پر بیٹھایا جاتا ہے ۔ان کے سبھی اعتراض اور تنقید صدا بصحرا ثابت ہونے لگتی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازاہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم اقتدار کے جس سمندرمیں غوطہ زن ہونے جا رہے ہیں اس میں مگر مچھوں سمیت کتنی اقسام کے حشرات الارض ہیں ۔اور نہ ہی انسان کو سمندر کی گہرائی کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔پاکستان کی سیاست بھی کچھ اسی کیفیت سے دوچار ہے ۔74برس میں جتنے بھی لوگ برسراقتدار آئے ،سبھی کی کہانی اور پس منظر ایک جیسا ہی ہے ۔یہاں کسی بھی سیاسدان کی کوئی حیثیت ہے اورنہ ہی کوئی اوقات ۔اقتدار میں کسے ’’اِن‘‘ ہونا ہے اور کسے ’’آؤٹ ‘‘کرنا ہے ۔یہ سب کچھ امریکہ اور ہمارے اداروں (اسٹیبلشمنٹ)کا ہی مرہون منت ہے ۔کوئی فرشتہ ہے یا چور ڈاکواس کا فیصلہ ہمیشہ ’’خلائی مخلوق‘‘اور ’’فرشتہ صفت لوگوں‘‘نے ہی کرنا ہوتا ہے ۔ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت میں ’’خدائی خدمت گاروں ‘‘کا ایک گروہ بطور خاص شریک رہتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حکومت کا حصے رہے ہیں ۔ان کا کام اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات کی روشنی میں تمام معاملات کو چلانا ہوتا ہے ۔انہی وزیروں اور مشیروں نے ہمیشہ حکومتوں کو ڈوبونے میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کیا ہے ۔ہر چار پانچ سال کے بعدا سٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی من پسند جماعت کے قائدکو’’مہرہ ’’بنا کرایک ’’انقلابی نعرے‘کے ساتھ حکومت کے خلاف میدان میں اتار دیتی ہے ۔ماضی میں بنیادی جمہوریتوں کا نعرہ لے کر آنے والی عسکری قیادت کو دس سال بعدایک عوامی تحریک کے ذریعے استعفیٰ دینے پر مجبور کیاگیاعوام کا نجات دہندہ قرار پانے والے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کومحض 2آنے سیر چینی مہنگی ہونے پر سڑکوں پر رسوا کیا گیا ۔ایوب خان کو ’’ڈیڈی‘‘ کہنے والے ایک عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو ’’روٹی، کپڑا اورمکان ‘‘کے نعرے کے ساتھ لایا گیا ۔بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کو’’ اسلامی فلاحی مملکت ‘‘کے قیام کے نعرے کے ساتھ میدان سیاست میں اتارا گیا ۔بھٹو کومرد ِ مومن جنرل ضیاء الحق کے ذریعے تختہ دار پر لٹکوا دیا گیا ۔جبکہ ضیاء الحق کو اسلامی شریعت سے متعلق اسمبلی میں ایک بل پیش کرنے کی پاداش میں بہاولپور میں طیارہ حادثے میں شہید کروادیا گیا ۔اس حادثے میں امریکی سفیرسمیت کئی قابل پاکستانی جنرلز بھی مروا دئیے گئے ۔ضیاء الحق کے جانے کے بعد جلا وطن کی جانے والی بی بی بے نظیر بھٹو شہید کو بیرون ملک سے لاکر قوم پر مسلط کر دیا گیا ۔جنہیں ان کے شوہر نامدار کے ساتھ بعض لوگوں کی ملی بھگت سے لیاقت باغ ،راولپنڈی میں منعقدہ عظیم الشان جلسے سے باہر آتے ہوئے شہید کروا دیاگیا ۔اس دوران دو بار میاں نواز شریف کو ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا ۔جبکہ1998میں جنرل پرویز مشرف کے ذریعے نواز شریف کو معزول کرکے معہ فیملی بیرون ملک بھیج دیا گیا ۔بعد ازاں آصف علی زرداری کے ذریعے ایک ڈیل کے تحت نواز شریف کو دوباہ واپس لایا گیا ۔جنرل پرویز مشرف نے خوب ڈٹ کر حکومت کی ،انہوں نے امریکی خواہشات کا بھی احترام کیا اور ملک کو بھی محفوظ رکھا ۔پاکستان میں جنرل پرویز مشرف وہ واحد حکمران ہیں کہ جنہیں صدر آصف علی زرداری نے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا ۔یوں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے اور رسوا کرنے کے لیے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو ’’لٹیروں کا کڑا احتساب‘‘ کے نام پرایک نیا نعرہ دے کر قوم پر مسلط کر دیا گیا ۔عمران خان کو برسراقتدار آئے تقریباً 3سال کا عرصہ گذر چکا ہے ۔لیکن ان کی کارکردگی صفر ہی ہے ۔وہ اپنے نعروں کے مطابق قوم کو کچھ بھی ’’ڈیلیور‘‘ نہیں کر پائے ۔اب تک وہ کسی چوریا لٹیرے سے کچھ بھی برآمد نہیں کروا سکے ۔حکومت پر ان کی گرفت کافی حدتک کمزور چلی آ رہی ہے ۔ان کے اقتدار میں آنے کے بعد احتساب کی تلوارکے سبب پیشتر اداروں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے ۔مہنگائی کاجن قابو سے باہر ہو چکا ہے ،اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔رہی سہی کسر کورونا وائرس کی مسلسل سوا سال سے جاری لہر سے نکال دی ہے ۔عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ وہ علاج معالجہ کروانے کے قابل بھی نہیں رہا ۔ایک پیراسیٹامول کی گولی تک خریدنے کی بعض لوگوں میں سکت نہیں رہی ۔کورونا کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو چکے ،اکثر اداروں نے اپنے فاضل ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا ہے ،غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔نوجوانوں کے لیے روزگار ناپید ہوچکا ۔بازاروں میں سخت مندی چل رہی ہے ۔کورونا کے خوف سے لوگوں نے ہسپتالوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ معمولی بخار میں بھی ہسپتال جانے والے مریض کو فوری طور پر کورونا کا مریض بناکر داخل کرلیا جاتا ہے بعد ازاں’’جی بس! اﷲ کی مرضی ‘‘کہہ کر مریض کی میت پکڑا دی جاتی ہے ۔یوں مرنے والا حقیقت میں کورونا سے مرا یا کسی اور بیماری سے، اب اس کی کوئی تشخیص نہیں رہی ۔گویا گذشتہ سواسال سے کسی اور مرض سے کوئی مریض نہیں مر رہا بلکہ ہر دوسرا مریض کورونا سے ہی مرتا ہے اور وہ بھی ہسپتال میں جانے والا ۔اس میں کتنی سچائی ہے اس کی تصدیق کرنا تو ایک مشکل امر ہے کیونکہ حکومت ، ڈاکٹرز ، میڈیا اورپیرا میڈیکل سٹاف کسی بات کو واضح طور پر بیان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ملک اس وقت جس معاشی بحران سے گذر رہا ہے ۔اس کا تقاضا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے ’’مہروں‘‘ کے ذریعے ملک کی بربادی کی تاریخ رقم کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو آزادانہ ماحول میں آگے آنے کا موقع دے ۔جب تک ادارے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اقتدار کی منتقلی کا کھیل ختم نہیں کرتے۔اس وقت تک پاکستان کی ترقی و استحکام کا خواب شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا ۔اور نہ ہی ہم عالمی اداروں کی غلامی سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔سیاستدان بھی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے حصول اقتدار کی روش ترک کرکے اپنی کارکردگی اور پروگرام کے ساتھ میدان میں اتریں اور ماضی کی حکومتوں کے عبرتباک انجام سے عبرت حاصل کریں ۔ماضی سے حال تک کا جائزہ لیا جائے تو ’‘بیساکھیوں کے سہارے‘‘اقتدار حاصل کرنے والوں کو واپسی کے لیے بھی کبھی عزت دار راستہ میسر نہیں آیا ۔کیونکہ یہ قوتیں جس مہرے کو ’’بادشاہ ‘‘بناکر اقتدار کے ایوانوں کی زینت بناتی ہیں وہی قوتیں اپنے ہی کسی’’ خاص پیادے‘‘ کے ذریعے بادشاہ کو تخت سے اٹھا کر تختے پر پہنچانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ۔وزیر اعظم عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ ماضی میں برسراقتدار حکمرانوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں کیونکہ یہی قوتیں اس وقت بھی ’’کڑے احتساب‘‘کے ڈرامے کو ناکام بنانے کے درپے ہیں ۔عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کوحقیقی ’’ریاست مدینہ ‘‘بنا نے میں کامیاب ہو کر پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کر جائیں گے تو یہ اُن کی بھول ہے ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130347 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.