اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر خون خرابے کا سلسلہ
کوئی نیا واقعہ نہیں ہے 2005میں انخلا ء کے فوری بعد بھی اسرائیل نے اپنی
بربریت کو جار ی رکھتے ہوئے حماس کو ٹینکوں اور بارود کے سائے میں رکھا،اس
کے علاوہ2008اور2014میں بھی اسرائیل نے اپنی غنڈہ گردی کو وقفے وقفے سے
جاری رکھا ،ان سالوں میں اسرائیل کی مسلح افواج نے سینکڑوں فلسطینیوں کو
شہید کیا، ہزاروں لوگوں کو بے گھر کیا ،حالیہ دنوں میں رمضان کے آخری عشرے
جمعتہ الوداع کے روز اسرائیل کی جانب مسجد اقصی میں موجود نمازیوں پر جو
مظالم ہوئے اسے پوری دنیانے دیکھا اور یہ تو سب ہی جان چکے ہونگے کہ
اسرائیل کی جانب سے گیارہ دنوں کی مسلسل خون ریزی کے بعداسرائیل اورحماس
میں جنگ بندی ہوئی ،مگر اس جنگ بندی کے پیچھے کن ممالک اور کن طاقتوں کا
ہاتھ رہاہے ہمیں انہیں کسی بھی لحاظ سے فراموش نہیں کرسکتے ،ان گیارہ دنوں
میں اسرائیلی حملوں سے 232بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کردیاگیا،دوہزار کے
قریب زخمی ہوئے اور ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد لوگ
گھروں سے بے گھر ہوئے، یہ بات درست ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی میں
ان تمام لوگوں کا ہاتھ ہے جو مسلمان ہیں یا پھر انسانیت سے محبت رکھنے والے
غیر مسلم ممالک لیکن اس سارے کھیل میں آج مغربی میڈیا پاکستان کے کرداد کو
بہت قدر کی نگاہ سے دیکھ رہاہے ،آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں
وزیراعظم عمران خان کی کامیاب پالیسیوں کا چرچا ہے،خاص طورپر فلسطین امن
مشن کی کامیابی نے تو مغربی میڈیا کو بھی ہلاکر رکھ دیاہے ، وزیراعظم عمران
خان کی ہدایت پر اس امن مشن کا جھنڈا وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی لیکر
نکلے تھے جنھوں نے جاتے ہی اپنے جارحانہ خطاب میں اقوام متحدہ کے فلور پر
کھڑے ہوکر اسرائیلی جارحیت کے شکار فلسطین میں عالمی فوج تعینات کرنے
کامطالبہ کیا، سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے قوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا یہ ہی وجہ تھی
کی ان کے مطالبے پر نہ صرف غور کیا گیا بلکہ ان کے کہنے پر سلامتی کونسل کا
ہنگامی اجلاس بھی بلایاگیا اور دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ کے
نتیجہ خیز خطاب کے فوری بعد ہی دنیا کا عالمی منظر نامہ بدل چکا تھا جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ اجلاس کی پہلی نشست میں ہی سیز فائرکااعلان ہوا،آج دیکھا
جائے تواس وقت عالمی میڈ یا میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور
وزیرخارجہ کی کوششوں کی دھوم مچی ہوئی ہوئی ہے،وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود
قریشی کا اقوام متحدہ کے فلور پر خطاب اور ایک انگریزی میڈیا میں انٹریو کو
شاید تاریخ کبھی نہ بھلاسکے ان دونوں مقامات پر شاہ محمود قریشی صاحب نے نہ
صرف فلسطین اور کشمیریوں کے مسلمانوں کی ترجمانی کی بلکہ انہوں نے ڈیڈھ ارب
سے زائد مسلمانوں کی نمائندگی کی اور اس طرح مسلم دنیا کا ایک عظیم لیڈر
ہونے کا ثبوت بھی دیا، سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیرخارجہ شاہ محمود
قریشی نے کہاکہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے یہ
جنگ بندی فلسطین میں امن کے لیے پہلا قدم ہے، انہوں نے حاضرین کو بتایاکہ
اسرائیل نے فلسطین میں ظلم وبربریت کی انتہا کردی ہے ،وزیرخارجہ مخدوم شاہ
محمودقریشی نے فلسطین میں ہونے والی تباہی کا جس انداز میں نقشہ کھنیچا اور
جس انداز میں تباہ شدہ اسکولوں، ہسپتالوں اور گھروں کا زکر کیااس نے وہاں
پر موجود عالمی رہنماؤں پر سکتہ ساطار ی کردیا تھا، انہوں نے پاکستان کی
جانب سے غزہ میں آئندہ اس قسم کی صورتحال سے بچنے کے لیے بین الاقوامی
پروٹیکشن فورس تعینات کرنے کا مطالبہ کیا،پاکستان کے وزیرخارجہ نے پوری
دنیا کے رہنماؤں کے سامنے دلیرانہ انداز میں اسرائیل کو مستقل بنیادوں پر
لگام ڈالنے کا مطالبہ کیا اور اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں زخمی
اور بے گھر مسلمان فلسطینیوں کے لیے فوری امدادی سامان کی ترسیل پر زور دیا۔
سلامتی کونسل میں پاکستان کے موقف نے اس قدر زور پکڑا کہ سلامتی کونسل نے
بھرپور دباؤ کے ساتھ اسرائیل کو فوری جنگ بندی پر آمادہ کیااور آج یہ ہی
وجہ ہے کہ 57مسلم ممالک اور عالمی دنیا کے بے شمار ممالک کی جانب سے
پاکستان کی جانب سے شروع دن سے ہی اسرائیلی بربریت کے خلاف مذمت اور کردار
کا اعتراف زور وشور سے کیا جارہا ہے،کیوں کہ وزیراعظم عمران خان اور
وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی جانب سے مسلم ممالک کے رہنماؤں سے
رابطے عرب ممالک کو قائل کرنے کا سلسلہ تو جمعتہ الوداع کی رات سے ہی شروع
ہوگیاتھا جبکہ اس قدر کوشش کسی مسلم ملک کی جانب سے دیکھنے کو نہ مل سکی
ہے،یعنی پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل ہی اقوام متحدہ
کے جنرل سیکرٹری سے ٹیلی فونک رابط کرکے انہیں موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا
اور انہیں بتایا کہ پاکستان کی جانب سے کس طرح سے لوگ اسرائیلی بربریت کے
خلاف سڑکوں پر موجود ہے اور شدید غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں،پاکستانی
حکومت کی جانب سے مسلم ممالک کے سربراہوں کو پاکستان کے طلباء اور
سیاستدانوں کی جانب سے جو جزبات تھے ان کے بار ے میں بتایا اور اس طرح ایک
حقیقی مسلم ریاست ہونے کا حق اداکیا، اگر ہم فلسطینی مسلمانوں سے اظہار
یکجہتی کی بات کریں تو اس کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے،1948میں خان لیاقت علی
خان کی حکومت سے لیکر اب تک یہ واحد حکومت ہے جس نے صرف اپنی جماعت کی نہیں
بلکہ پورے پاکستان کی فلاحی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی مکمل ترجمانی کی
ہے،فلسطینی مسلمانوں کے لیے پاکستان کی جانب سے بھرپور محبت کا آغاز کوئی
نئی بات نہیں ہے 1965میں اس وقت کے وزیراعظم حسین سہروردی کی جانب سے
اسرائیل کے لیے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی پر ملک گیر احتجاج ریکارڈ ہوئے
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو 1967میں شام اور اسرائیل کے مابین جنگ میں
شام کے مسلمانوں کی بھرپور مدد کی گئی تھی، 1973کی جنگ میں بھی پاکستان نے
عربوں کا ساتھ دیااور اس سلسلے میں اس جنگ کے اگلے ہی سال لاہور میں اسلامی
سربراہی کانفرنس بلائی گئی ،یہ وہ تاریخی باتیں ہیں جس سے پاکستان کی جانب
سے کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھرپور محبت کااظہار کیا جاتارہاہے
۔موجودہ وقتوں میں جس انداز میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیرخارجہ
مخدوم شاہ محمود قریشی کا زکر عالمی میڈیا میں کیا جارہاہے یہ سب کچھ ایسے
ہی ہیں کہ پاکستان واحد ایسا ملک ہے جو اپنے مسلمان بھائیوں کو کسی بھی حال
میں تنہا نہیں چھو ڑتا اور اس بار بھی اسرائیل اور فلسطین تنازے میں مرکزی
کردار اداکرتے ہوئے ہم نے پوری دنیا کو یہ بتادیا کہ ہمارے آپس میں کتنے ہی
اختلافات کیوں نہ ہو لیکن جہاں مسلم امہ پر ظلم کی بات ہوگی ہم سب ایک پلیٹ
فارم پردکھائی دینگے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ جب لیڈر شپ قوم کے دل کی آواز
اور ان کے جزبات کو سمجھتے ہو اور اغیار کے سامنے دم ہلانے کی بجائے اپنی
قوم کے نمائندے بن کر وطن کی لاج رکھتے ہو ! اور قومی و بین الاقوامی امور
پر وطن کی سا لمیت کا پاس رکھتے ہو!اس کی غیرت وحمیت کا سودا کرنے کی بجائے
اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کامقدمہ لڑتے ہو !تو کیوں نہ ان کی وطن واپسی
پر ان کا پھولوں سے استقبال کیا جائے کیوں نہ ایسے حکمرانوں کے راستے میں
دلوں اور نظروں کو بچھا یا جائے اور اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب
مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب فلسطین امن مشن کے کامیاب دورے کے بعد وطن واپس
آئے توجس انداز میں ان کا عوام کی جانب سے ان کا پھولوں سے استقبال کیا گیا
اس پر یہ ہی کہا جاسکتاہے شاہ صاحب آپ نے وزیراعظم عمران خان اور اس ملک کے
22کروڑ عوام کی لاج رکھ لی ہے ۔ |