ہلاکوخان نے جب بغدادکی اینٹ سے اینٹ بجادی تو
ہرطرف تباہی وبربادی کے آثارتھے اس عالم میں تاتاریوں نے وحشت کے مارے اتنی
کتابیں سمندرمیں پھینک دیں کہ سمندرکا پانی رک گیا تاریخ شاہدہے جب
مسلمانوں کو کتابوں سے محبت تھی وہ دنیاپر حکمرانی کرتے تھے جس سے کتابوں
سے رشتہ ٹوٹاہے ہم ٹوٹ بکھرگئے ہیں حالانکہ مسلمانوں کو کتابوں سے محبت
فطری ہے اﷲ کی آخری الہامی کتاب قرآن مجیدکوپڑھنابھی ثواب ہے اور اس پرعمل
کرنا دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کاایک وسیلہ بھی ہے۔ بہت سی شخصیات آج بھی
موجودہیں جن کے لوں لوں میں کتابوں کی محبت رچی ہوئی ہے اس حوالہ سے مادری
زبان کی اپنی ہی چاشنی ہے: برصغیرمیں پنجابی اور پنجابی کلچر دل موہ لیتاہے
پنجابی ہزاروں اولیاء کرام کی زبان ہے جو دلوں کو جوڑنے اور لوگوں کو ایک
ساتھ بٹھانے کا ہنر بھی جانتے ہیں، انہیں خود غرضی، مفادات اور اناں کے اس
زمانے میں محبتیں بانٹنا اور محبتیں لٹانا بھی آتا ہے یہ ایک حقیقت ہے
‘‘ہمارے معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا رجحان خوفناک حد تک کم ہوتا چلا جا رہا
ہے’’ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے ‘‘جن قوموں نے کتابوں کا دامن تھامے رکھا اور
تھامے ہوئی ہیں وہ ہمیشہ تاریخ کے دھارے میں دوسروں سے آگے رہیں اور جہاں
کتابوں کو ردی، چھان بورے اور پکوڑوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا وہاں
جہالت، کم فہمی، کم عقلی، ضلالت اور گمراہیوں نے ڈیرے ڈال لیے’’ آپ کو اگر
یقین نہ آئے تو آپ خود دنیا کی ان قوموں کی فہرست نکال کر دیکھ لیجئے جہاں
سب سے زیادہ کتاب پڑھیں اور شائع کی جاتی ہیں آپ کو وہ قومیں اقتصادی، مالی
اور اخلاقی لحاظ سے کتابیں نہ پڑھنے والی قوموں سے ہزار گنا آگے دکھائی دیں
گی، ہمارے یہاں کیا صورتحال ہے آپ اس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگا
لیجئے مجھے چند دن پہلے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹوریل پیج کے انچارج کہنے لگے
‘‘ملک میں مطالعہ کی صورتحال یہ ہے کہ اخبار میں چھپنے والے کالمز صرف میں
اور خود کالم نگار پڑتا ہے’’ اور یہی وہ خوفناک صورتحال ہے جس کا کسی کو
ادراک نہیں ہے حالانکہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘‘ دقیانوسی لوگوں نے ہمیشہ
سیکھنے اور نئی نئی چیزوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کی مخالفت کی ہے، ہم
نے کبھی تصویر، کبھی مائیک، کبھی سوشل میڈیا اور کبھی پرنٹنگ پریس کو برا
بھلا کہا اور کبھی ٹیکنالوجی کو شیطانی اور دجالی ہتھکنڈوں سے منسوب کرتے
رہے، ہم کیونکہ کتابیں نہیں پڑھتے چنانچہ ہر نئی ایجاد کی جاہلانہ حد تک
ڈھٹائی کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں، حکمران تعلیم کی اہمیت سے ناآشنا ہیں،
لائبریریاں دم توڑتی جارہی ہیں، سکول کالجز، یونیورسٹیاں…سائنسدان، فلاسفر،
موجد، اور بڑے بڑے دماغ پیدا کرنے کے بجائے ‘‘نوکر’’ پیدا کررہی ہیں، پورا
معاشرہ اپنے دماغوں کی آبیاری کرنے کے بجائے انہیں بدبودار گٹڑوں میں دھکیل
رہا ہے. سائنسدانوں کا خیال تھا ‘‘ہمارا دماغ ہر روز 65 ہزار سوالات جنریٹ
کرتا ہے اگر دماغ کو ان سوالات کے جواب نہ ملیں تو یہ بری طرح ابلنے لگتا
ہے جو بعد میں ڈپریشن، اینگزائٹی، سٹریس اور پریشانی کا سبب بنتا ہے، آپ
چاہیں تو پورے معاشرے کی صورتحال دیکھ لیں یہ سب کا ماننا تھا ‘‘دنیا میں
بڑے دماغ وہ تھے جو کتابوں سے جڑے رہے، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں
بھی آگے وہی ہوگا جو نئی نئی چیزیں سیکھنے اور مطالعہ کرنے کا شوقین ہوگا
حالانکہ ہمارے بچپن میں والدین کتابیں پڑھتے بھی تھے اور اپنے بچوں کو نئی
نئی کتابیں، رسالے اور ڈائجسٹ خرید کر بھی دیتے تھے اس سے ان کی نا صرف
ذہنی نشوونما ہوتی تھی بلکہ ان میں نئی چیزیں سیکھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا
تھا’’ اسی طرح بعض دوستوں کا خیال تھا ‘‘ہمیں مطالعہ کرنے کی ابتدا قرآن
کریم سے کرنی چاہیے اور قرآن مجید کو سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہیے’’ اس حقیقت
سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ ہم جب تک کتابوں سے جڑے رہے تب تک دنیا
ہمارے اشاروں پر چلتی رہی لیکن جس دن ہم نے کتابوں کو پیٹھ دکھانا شروع کر
دی کشکول اور در در کی ٹھوکرں ہمارا مقدر بن گئیں آج ضرورت اس امرکی ہے کہ
ہم ادبی بیٹھکوں کااہتمام کریں جس میں اساتذہ کرام کو خصوصی طور پر مدعو
کیا گیا تاکہ وہ طلبا میں کتب بینی کا شوق پیدا کرسکیں، لائبریریاں آباد کی
جائیں، کتاب اور کتاب دوستی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے اس میں درس
گاہیں، مساجد،درگاہیں اور علما ء کرام بھی اس معاملے میں خصوصی کردار ادا
کر سکتے ہیں’’ ہم سب کو تہیہ کرنا ہوگا ‘‘کتب بینی کو فروغ دینے کے لیے ہم
اپنی اپنی سطح پر جو کچھ کر سکتے ہیں، جتنا بھی کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم
کریں گے’’ ہم نے اگر اب بھی اپنی لائبریریاں آباد نہ کیں، اپنی نسلوں میں
کتابوں کا شوق پیدا نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہم تاریخ میں اپنا آپ
ڈھونڈتے پھریں گے مگر کوئی بتانے والا نہیں ہوگا ان حالات میں پاکستان کے
وزیر ِ اعظم عمران خان کی ہدایت پرنے 1ارب18کروڑکی لاگت سے پنجاب کے20اضلاع
میں جدید ای لائبریریوں کا قیام لایا گیاہے جہاں ہرخاص و عام کے لئے بہت سی
سہولیات فراہم کی گئی ہیں جس سے عام آدمی سے لے کربزرگ شہریوں اور علم و
ادب کے شیدائیوں کو60.000نایاب کتب کی فراہمی، wi.fi کی سہولت،700لیپ ٹاپس
جبکہ 300 سے زائد ٹیبلٹس بھی مہیا کئے گئے ہیں جدید ای لائبریریوں میں
تربیت یافتہ انسرکٹرز، تمام لائبریریاںPITBڈیٹا بیس سے منسلک کردی گئی ہیں
جہاں ملکی و بین الاقوامی یونیوسٹیوں کے جدید مقالوں، اخبارات و رسائل اور
ای کتب تک رسائی فراہم کردی گئی ہےHECکی علمی اور نایاب کتابیں بھی عام
آدمی کی پہنچ میں آگئی ہیں جبکہ1994ء سے اب تلک تمام اخبارات کا ریکارڈبھی
دستیاب ہے،ہر ای لائبریری میں40نشستوں پر مشتمل20ملٹی میڈیا آڈیٹوریم قائم
کردئیے گئے ہیں جہاں ای روزگار سے متعلق کورسرز اور معلومات کی مفت فراہمی
کو یقینی بنادیاگیاہے فی الحال 60.000 رجسٹرڈ ممبران اور 15000 افراد
روزانہ کی بنیادپر مستفیدہورہے ہیں یہ اقدامات انتہائی آئندہیں غریب اور
ترقی پذیرممالک میں ای لائبریریوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ نوجوان
نسل یونہی جہالت کے صحرامیں بھٹکتی پھرے گی اور وحشتوں کا سفر کبھی ختم
نہیں ہوگا۔
|