|
|
یہ سات جون 1962 کی بات ہے، پاکستان کے پانچ نوجوان سائنسدانوں کا ایک
گروہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی میں
جمع ہے۔ |
|
مئی 1998 میں بلوچستان میں کیے گئے نیوکلیئر دھماکوں سے 36 سال قبل اُس دن
بلوچستان کی سرزمین پر ایک اور سائنسی تجربہ ہونا تھا۔ |
|
یہ تمام سائنسدان پاکستان کے پہلے راکٹ کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے
ہیں۔ |
|
سورج غروب ہو چکا ہے اور رات کے آٹھ بجنے میں ابھی سات منٹ باقی ہیں۔ |
|
پھر کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوتا ہے۔ |
|
تھری، ٹو، ون۔۔۔ |
|
اور پاکستان کا پہلا راکٹ ’رہبر اوّل‘ کامیابی سے بالائی فضا میں لانچ ہو
کر اپنے بعد آنے والے مزید راکٹس کے لیے ایک رہبر بن جاتا ہے۔ |
|
صرف یہی نہیں، اس لانچ کے ساتھ ہی پاکستان مسلم دنیا سمیت جنوبی ایشیا کی
وہ پہلی قوت بنا جس نے کامیابی سے خلائی تجربہ سرانجام دیا۔ |
|
اب اس واقعے کو 59 سال ہو چکے ہیں مگر اس پراجیکٹ کے ٹیم لیڈر ڈاکٹر طارق
مصطفیٰ کو آج بھی وہ دن اُسی طرح یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ |
|
یہ پراجیکٹ کیسے شروع ہوا، پاکستان یہ مقصد کیسے حاصل کر پایا اور ٹیم کو
اس دوران کیا کیا چیلنجز درپیش رہے، یہ میرے وہ سوال تھے جن کی وجہ سے میں
چھ دہائیوں بعد اس ٹیم کے ارکان کی تلاش میں نکلا۔ |
|
ڈاکٹر طارق جب مسکراتے ہوئے اپنے بذلہ سنج مگر باوقار انداز میں گفتگو کرتے
ہوئے اس دور کے بارے میں بتا رہے تھے تو خلائی سائنس کے دلدادہ اس صحافی نے
خود کو یکایک اُسی دور میں پایا۔ |
|
آئیے، آپ بھی میرے ساتھ اس سفر پر چلیے۔ |
|
دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہو چکا ہے۔ جنگ کا میدان اب زمین کے بجائے خلا
کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ جنگ کی نوعیت بھی اب ایک دوسرے کو ہتھیاروں کے
ذریعے نقصان پہنچانے کے بجائے معاشی اور سائنسی میدان میں پیچھے چھوڑ دینے
میں بدل چکی ہے۔ |
|
روس اور امریکہ ایک دوسرے کو خلائی دوڑ میں نیچا دکھانے کے درپے ہیں۔
امریکہ حیران ہے کہ روس نے خلا میں پہلا انسان پہنچانے میں سبقت کیسے حاصل
کر لی؟ |
|
یکایک امریکی صدر جان ایف کینیڈی اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ (ساٹھ کی) دہائی
کے اختتام سے قبل نہ صرف انسان کو چاند پر اتارے گا بلکہ بحفاظت واپس بھی
لائے گا۔ |
|
اپالو خلائی پروگرام کے منتظم امریکی خلائی ادارے ناسا کے لیے یہ ایک بڑا
چیلنج تھا اور اس کے لیے کئی ایسے اعداد و شمار اور سائنسی ڈیٹا کی ضرورت
تھی جو اس وقت اُس کے پاس موجود نہیں تھے۔ |
|
اسے بحرِ ہند کے اوپر موجود فضا کی صورتحال کو جاننے کی بھی ضرورت تھی اور
جب اُس نے یہ کرنے کی ٹھانی، تو پاکستان کا ستارہ چمک اٹھا۔ |
|
|
|
سنہ 1961 میں جب پاکستان کے اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان امریکہ
کے دورے پر تھے تو اُن کے سائنسی مشیرِ اعلیٰ، نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر
عبدالسلام بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ |
|
ڈاکٹر طارق مصطفیٰ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ اُس وقت
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ تھے اور ٹریننگ کی غرض سے امریکہ میں
مقیم تھے۔ |
|
وہ اسی دوران صدر ایوب اور ڈاکٹر عبدالسلام کے امریکہ کے دورے کو اچھا
اتفاق قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان فی الفور خلائی دوڑ میں شامل ہو
گیا۔ |
|
بی بی سی سے انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ امریکہ میں قیام کے دوران ایک
دن اُنھیں ڈاکٹر عبدالسلام کا فون آیا۔ |
|
’طارق، صبح واشنگٹن میں ایک اہم میٹنگ ہے اور تم نے پہنچنا ہے۔ مجھے اس سے
کوئی واسطہ نہیں کہ لفٹ لے کر آؤ یا جہاز میں آؤ، بس تم نے پہنچنا ہے۔ ‘ |
|
اگلے دن وہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ واشنگٹن میں ناسا کے دفتر پہنچے۔ |
|
وہاں حکام نے اس پاکستانی وفد کے سامنے بحرِ ہند کے اوپر موجود فضا کے
متعلق ڈیٹا نہ ہونے کی مشکل رکھی۔ |
|
ناسا نے پیشکش کی کہ وہ بحرِ ہند کے آس پاس کے ممالک کو راکٹ ٹیکنالوجی
فراہم کرنے کو تیار ہیں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس راکٹ سے جو بھی ڈیٹا
حاصل ہو گا، اس کا تبادلہ ناسا کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ |
|
|
|
یہ سُن کر ڈاکٹر عبدالسلام ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کی جانب
مڑے اور پنجابی میں کہا، ’طارق، تیرا کی خیال اے؟‘ |
|
اُنھوں نے فورا پنجابی میں جواب دیا: ’ایہہ تے ساڈا خواب پورا ہو جاوئے گا۔‘ |
|
پنجابی میں ہونے والی اس گفتگو کو ناسا کے عہدیدار سمجھ تو نہ سکے لیکن
اُنھوں نے مزاج سے اندازہ لگاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام سے کہا کہ ’ینگ مین
اِز ویری کین‘ (نوجوان بہت پُرجوش معلوم ہو رہا ہے۔) |
|
ناسا کے حکام نے اسی دن ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کو اپنے ایک خصوصی طیارے کے
ذریعے ملک کے دوسرے کونے میں بحرِ اوقیانوس کے کنارے واقع والپس آئی لینڈ
راکٹ رینج بھیج دیا، جہاں اُنھیں تمام آلات اور سامان کے متعلق بریفنگ دی
گئی۔ |
|
پوری رات وہ اپنی رپورٹ مرتب کرتے رہے اور اگلے دن وہ دوبارہ واشنگٹن میں
ناسا کے دفتر میں دوبارہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ اپنی رپورٹ کے ساتھ
پہنچے۔ |
|
اسی دن ناسا نے پاکستان سے کہا کہ اگر آپ ہامی بھریں، تو ہم یہ پروگرام
شروع کر سکتے ہیں۔ |
|
اور اُس کے صرف نو ماہ بعد ہی سونمیانی میں نہ صرف راکٹ رینج بھی بنا لی
گئی بلکہ رہبر سیریز کے اولین راکٹ لانچ بھی کر دیے گئے۔ |
|
انڈیا نے یہ کارنامہ اس کے 15 ماہ بعد نومبر 1963 میں انجام دیا۔ |
|
|
|
ٹیم کی ترتیب اور راکٹ رینج کا قیام |
ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ٹیم اکٹھی کریں۔ اُن کے ساتھ
ڈاکٹر سلیم محمود (جو بعد میں سپارکو کے چیئرمین رہے) بھی ٹریننگ پر امریکہ
میں موجود تھے۔ |
|
تین مزید سائنسدانوں احمد ضمیر فاروقی (پاکستان ایئر فورس)، محمد رحمت اللہ
(محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر) اور سکندر زمان (بعد میں چیئرمین سپارکو
بنے) کو بھی امریکہ بلوا لیا گیا اور یہ مختصر سی ٹیم اپنے کام میں جُت گئی۔ |
|
سب سے پہلا مرحلہ پاکستان میں راکٹ رینج کے قیام کا تھا جو اس وقت تک یہاں
پر موجود نہیں تھی۔ |
|
اس کام کے لیے صدر ایوب خان نے تجویز دی کہ سونمیانی میں واقع فوج کی
آرٹلری رینج کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں پر
افرادی قوت کے رہنے کا انتظام اور دیگر سہولیات پہلے سے موجود تھیں۔ |
|
اس تجویز کو قبول کیا گیا اور فوراً اس آرٹلری رینج کو پاکستان کی پہلی
راکٹ رینج میں بدلنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ |
|
سائنسدانوں کو اس کام کے لیے امریکہ میں تیاری کروائی گئی اور ناسا کی جانب
سے ہی ساز و سامان مہیا کیا گیا۔ |
|
چھ مہینوں کے اندر ناسا کے ڈپوز میں موجود امریکی فوج کے فاضل سامان میں سے
راکٹ چلانے کے لیے ضروری سامان تلاش کیا گیا اور اسے امریکہ کی والپس آئی
لینڈ راکٹ رینج میں اکٹھا کیا گیا۔ |
|
پھر پاکستانی سفارتخانے کے مالیاتی مشیر وزیر علی شیخ کی ذمہ داری لگائی
گئی کہ یہ سامان پاکستان پہنچایا جانا ہے۔ |
|
سامان میں موجود حساس آلات ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کی ایک گاڑی کی ڈگی میں رکھ
کر گاڑی پاکستان بھیج دی گئی۔ |
|
تمام سامان مارچ 1962 تک پاکستان پہنچ گیا اور تب تک راکٹ لانچ کی ذمہ دار
ٹیم نے فوج کے انجینیئرنگ شعبے کی مدد سے مل کر آرٹلری رینج کو راکٹ لانچ
کے لیے موزوں شکل دے دی تھی۔ |
|
|
|
تجربہ کیا تھا؟ |
تجربہ یہ کرنا تھا کہ راکٹ کے ذریعے فضا میں 50 سے 100 میل کی بلندی پر
سوڈیم کے بخارات چھوڑے جائیں جنھیں سورج کے غروب ہونے کے بعد افق کے نیچے
سے آنے والی سورج کی روشنی سے منعکس ہونا تھا اور اس کے بعد بھولاڑی،
لسبیلہ، حب اور کراچی ایئرپورٹ کے مقام پر کیمرے نصب کیے گئے جنھوں نے بیک
وقت، بغیر ایک سیکنڈ کے وقفے کے، اُن بخارات کی تصاویر لینی تھیں۔ |
|
اس مقصد کے لیے پاکستانی فضائیہ کے طیاروں میں استعمال ہونے والے جاسوس
کیمروں کو زمین پر نصب کر دیا گیا اور ان کو آپس میں منسلک کر کے بیک وقت
تصاویر لینا ممکن ہو پایا۔ فضائیہ سے احمد ضمیر فاروقی کو شامل کرنے کے
پیچھے یہی مقصد تھا۔ |
|
ان بخارات کی تصاویر کا بغیر کمپیوٹر کی مدد کے طویل حسابات کے ذریعے تجزیہ
کیا جانا تھا جس سے بالائی فضا کے درجہ حرارت اور وہاں پر ہواؤں کا رخ
معلوم ہو جاتا، جس کی ناسا کو اپالو پروگرام کے لیے ضرورت تھی۔ |
|
اس ٹیم کے رکن اور بعد میں پاکستان کے سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ
کمیشن (سپارکو) کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم محمود بی بی سی سے بات کرتے ہوئے
بتاتے ہیں کہ اس دن ٹیم میں بے چینی، جوش، جذبے اور خوشی کے جذبات کا ایک
امتزاج موجود تھا۔ |
|
وہ بتاتے ہیں کہ رہبر اوّل راکٹ تین مرحلوں پر مشتمل راکٹ تھا اور ہر مرحلے
کی کامیاب تکمیل کے بعد ٹیم کو خوشی بھی ہوتی اور اضطراب بھی کہ اگلا مرحلہ
کیسا رہے گا، مگر یہ تجربہ کامیاب رہا۔ |
|
اُس رات یہ تمام سائنسدان خوشی کے باعث سو پائے یا نہیں؟ اس سوال پر ڈاکٹر
سلیم محمود ہنس دیے۔ |
|
’اس رات بھی ہم لوگ جلدی سو گئے تھے کیونکہ اس راکٹ لانچ کے بعد ہمیں اگلا
راکٹ چار دن بعد 11 تاریخ کو ہی لانچ کرنا تھا۔‘ |
|
|
|
رینج کے مشکل حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مشکل
مقام تھا اور ہر وقت گرمی کے ساتھ ساتھ سانپوں اور بچھوؤں کے خطرے کا بھی
سامنا کرنا پڑتا تھا۔ |