برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جانی، مالی، سیاسی
جدوجہد کے نتیجہ میں بننے والی نئی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ورثہ
میں بہت سے وسائل و مسائل اور علاقائی تنازعات ملے وہیں پر پاکستان کو ورثہ
میں اک ازلی دشمن بھارت بھی ملا۔بھارت نے روز اول ہی سے پاکستان کے وجود کو
صحیح طور پر نہیں مانا۔ آج بھی بھارت کے ہندو انتہاء رہنما و تنظیمیں
”اکھنڈ بھارت“ کا نعرہ بلند کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔ 1947سے پاکستان کو اپنے
وجود کا دفاع کرنے کے لئے متعدد جنگیں لڑنی پڑی، چاہے وہ جنگ اپنے قیام کے
ٹھیک ایک سال بعد 1948 ء میں پاک وبھارت جنگ کی صورت میں ہو یا پھر 1965
اور 1971کی جنگیں۔ اور کچھ سیاچن اور کارگل جیسے معرکے بھی پاک بھارت تاریخ
کا حصہ ہیں۔پاک بھارت ازلی دشمنی ہی کی بناء پر پاکستان کو اپنے وجود کے
ٹھیک 24 سال بعد اپنے ایک بہت بڑے حصہ (یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی
صورت) سے محروم ہونا پڑا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر ہی بھارتی
وزیراعظم نے تکبر کے انداز میں کہا تھا کہ آج بھارت نے برصغیر میں دوقومی
نظریہ کو سمندر میں پھینک دیا ہے۔بہرحال مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد
بچ جانے والے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کو اپنی بقاء کے دفاع کے لئے
لئے اپنے ازلی دشمن بھارت سے پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہوچکے تھے۔اکھنڈ
بھارت کے نعرے اور دوقومی نظریہ کو سمندر میں پھینکنے والے بیانات دیتی
ہوئی بھارتی قیادت نے اپنے جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے مئی1974 کو
(امریکی اور کینڈین پلانٹ اور مواد کو استعمال میں لاتے ہوئے) ایٹمی دھماکے
کئے جسکا اصل ہدف پاکستان تھا۔یہ وہ لمحات تھے جب پاکستان کو اپنے ازلی
دشمن بھارت سے اپنی بقاء کے دفاع کے لئے بھرپور اور بروقت اقدامات اُٹھانے
پر مجبورہونا پڑا۔اگر بات کی جائے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تو اسکے پس
منظر میں چند تاریخ حقائق کو پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ”پاکستان اٹامک
انرجی کمیشن“ 1956 میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم
بنانا نہیں تھا۔ 60 کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ
بھارت ”بھا بھا ایٹمی تنصیبات“ میں ایٹم بم کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔
جنرل ایوب کی کابینہ کے کئی طاقتور وزیر ایٹمی صلاحیت کے خلاف تھے۔ وزارت
خارجہ کو خفیہ اطلاع مل چکی تھی کہ بھارت اعلانیہ طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی
کی مخالفت کر رہا ہے مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے پروگرام پر گامزن
ہے۔اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے ۱۱ دسمبر 1965 کو لندن کے ایک ہوٹل
میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی اور دونوں نے
مل کر ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان حالات میں، ایٹمی اسلحے کی
دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے مگر ایوب خان قائل نہ
ہوسکے۔بدقسمتی سے اس کے بعد ہماری قوم نے 1971 دیکھا۔ پاکستان کے دو لخت
ہونے کے بعد بھارت دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کو ختم کر دیا
ہے۔اس تمام صورتحال نے آخر کار پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلا دیا
تھا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر
یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کرنا ہو گا۔ اس میں اہم ترین
کردار بلا شبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب مملکت کے حکمران کی حیثیت سے فیصلہ
کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ 20 جنوری 1972 کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ
سائنسدانوں اور engineersایک میٹنگ بھٹو کی زیر صدارت ہوئی، جسے ”ملتان
میٹنگ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی
حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اور پاکستان
اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنس
دانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور
فہیم حسین سمیت بہت سے سائنس دان شامل تھے۔ اسی دوران 1974 میں بھارت نے
اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی
خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی سال یعنی 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے
پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور ”کہوٹہ ریسرچ لیباٹریز“
کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پھر ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی زیرقیادت ہونے والی
انتھک کوششوں کے ثمرات پاکستان سمیت پوری دنیا نے 28مئی 1998 کی سہ پہردیکھ
ہی لئے تھے۔پاکستان نے متعدد مواقع پر بھارت کو برصغیر پاک و ہند کے خطہ کو
ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے بچنے کئے بہت سی تجاویز پیش کیں جیسا کہ پاکستان
نے 1974 میں یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیا کو ”ایٹمی ہتھیاروں سے پاک
علاقہ“ قرار دیا جائے لیکن بھارت نے پاکستان کی تجویز رد کر دی۔ 1978 میں
پاکستان نے یہ تجاویز دیں کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار
نہ بنانے کا اعلان کریں اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ
قرار دیا جائے۔ 1979 میں پاکستان نے تجویز پیش کی کہ پاکستا ن اور بھارت
ایک ساتھ NPT پر دستخط کر دیں اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی
اجازت بھی دے دیں۔ 1987 میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت
ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشترکہ اعلان کریں۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ پاکستان
کی ان کوششوں کو رد کیا کیونکہ اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔ 1974 کے
ایٹمی دھماکوں اور اسکے بعد کے بھارتی ایٹمی عزائم کے جواب میں پاکستان کے
پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم
بنائے۔ یہ اقدام اسکی بقا کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔بھارت نے جب 1998 میں
”آپریشن شکتی“ کے نام سے پوکھران کے مقام پر مزید پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو
شاید اسے گھمنڈ تھا کہ پاکستان انڈیا کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب
دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور مغربی
دنیا نے بھارت کی اس عالمی جارحیت کا کوئی زیادہ برا نہ منایا اور بھارت کے
ساتھ انکے تعلقات معمول کے مطابق ہی چلتے رہے۔جبکہ دوسری طرف عالمی برادری
کی تمام تر توجہ کا مرکز پاکستان بن چکا تھا، چونکہ عالمی برادری کے بہت سے
اہم ممالک کی انٹیلی جنس ادارے یہ خبر رکھتے تھے کہ پاکستان بھی ایٹمی
دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اوراسی وجہ سے عالمی برادری خصوصا امریکہ،
برطانیہ و دیگر عالمی طاقتور ممالک کی ہر ممکن کوشش تھی کہ کہیں پاکستان
بھی بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کردے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام اور
حکام بھی جنگی عزائم اور علاقہ میں تھانیدار بننے کے دعوے دار بھارت کو منہ
توڑ جواب دینے میں دن رات اپنی توانیاں صرف کررہے تھے۔ پاکستان کی حکومت
اور اداروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آخر کار وہ پاکستان کی بقا اور حفاظت
کے لیے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پاکستان نے
بھارتی ”دھمکی“ کا جواب 28 مئی 1998ء کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے ”چاغی اول“
کی شکل میں دیا۔ 30 مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے اور اسطرح
پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔پاکستان
کو ایٹمی طاقت بنانے میں ذولفقار علی بھٹو سے لے کر میاں محمد نواز شریف
کے1998 کے دور تک تمام حکمرانوں، سائنسدانوں اور پاک فوج کی کوششیں ناقابل
فراموش ہیں۔اور اسی طرح ایٹمی قوت بنانے اور پھر اس ایٹمی ہتھیاروں کو دشمن
کے علاقہ تک پہنچانے کے لئے میزائل ٹیکنالوجی کو بیرون ممالک سے پاکستان تک
منتقلی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔یہ
پاکستان کا جوہری پروگرام ہی تھا کہ جس کی پاداش میں پاکستان کے سب سے
مقبول عوامی لیڈر ذولفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پر جھولنا پڑا۔ کیونکہ
امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے پاکستانی وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے
خلاف جو کلمات ادا کئے آج وہ پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ کا حصہ ہیں۔
We will make horrible example of Bhutto if he continue nuclear program.
اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بھٹو کو پوری دنیا کے لئے نشان عبرت بنادیا
گیا۔اور اک خودساختہ قتل کے مقدمہ میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔لاہور
ہائیکورٹ میں اپنے خلاف چلنے والے ٹرائل کے دوران بھی ذولفقار علی بھٹو نے
درج ذیل بیان قلمبند کروایا تھا۔''مجھے اگست 1976 میں ڈاکٹر ہنری کسنجر
(امریکہ کے اس وقت کے سکریٹری خارجہ) کے ذریعہ بتایا گیا تھا کہ اگر آپ
(بھٹو) دوبارہ پروسیسنگ پلانٹ معاہدے کو منسوخ، اس میں ترمیم یا ملتوی نہیں
کرتے ہیں تو ہم آپ کو ایک خوفناک مثال پیش کریں گے۔ میرے ملک کی خاطر،
پاکستان کے عوام کی خاطر، میں نے اس بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا مقابلہ کیا
''، بھٹو نے لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کے سامنے بیان کیا تھا، جس نے
بالآخر انہیں سزائے موت سنائی۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 نومبر
1972ء کو کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ ذولفقارعلی بھٹو نے ایک
موقع پر یہ بیان دیا تھا کہ ’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں
گے۔‘ 1976 امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خصوصی دورے پر پاکستان بھیجا
گیا، جنہوں نے بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی ترک نہ کی تو
ان کو ’عبرتناک مثال‘ بنا دیا جائے گا۔ تاہم بھٹو نے امریکی دھمکی کو مسترد
کردیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مکمل سرپرستی کی۔ذولفقار علی بھٹو اور
میاں نواز شریف میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت
بنانے اور عالمی دنیا کے سامنے ایٹمی قوت کا اظہار کرنے کے حوالے سے امریکہ
کا دباؤ قبول نہیں کیا اور دونوں کو عالمی سازشوں کے پیش نظر آمریت کے بے
رحم تازیانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے دشمنوں کی نظر میں بھٹو کی
جرائم کی فہرست جیسا کہ پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دینا، اسلامی دنیا کے
تمام لیڈران کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا، ختم نبوت صلی اللہ علیہ وا لہ
وبارک وسلم کوآئین پاکستان کا حصہ بنانے کیساتھ ساتھ انکا پاکستان کو ایٹمی
قوت بنانے کے لئے تگ و دو کرنا بھی اک جرم ٹھہرا، بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا
دیا گیا جبکہ میاں نواز شریف کو قید و بند کی صعوبتوں اور خود ساختہ
جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج ہم یومِ تکبیر منانے جارہے ہیں تو ملک کے
تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف عدالتی ٹرائلز و قید اور اب
خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق: ’ایٹمی
ٹیکنالوجی لانے والے بھٹو کو پھانسی دی گئی، ایٹم بم بنانے والے ڈاکٹر عبد
القدیرخان کو پوری دنیا میں بدنام اور رسوا کیا گیا،پاکستان کو میزائل
ٹیکنالوجی مہیا کرنے والی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کروادیا گیا۔ ایٹمی
دھماکے کرنے والے نواز شریف کو قید کر دیا گیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ
عبرت کا نشان بنے جو اس پروگرام کا حصہ رہے؟ مئی 1998 میں پاکستان پر کس
قدر دباؤ تھا اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی برادری کا سب
سے طاقتور ملک امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو
متعدد مرتبہ ٹیلی فون کالز کی اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر مفت میں
دینے کا لالچ بھی دیا۔وطن عزیز میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کے
لئے عوام الناس اور حکام تقریبا ایک ہی صفحہ پر نظر آئے۔ نواز شریف نے
میڈیا کے سنیئر تجزیہ کاروں اور کالم نویسوں کو مدعو کیا، اس موقع پر
سینئیر صحافی مجید نظامی کا یہ بیان تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ ”میاں صاحب
دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی“۔اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی
قوت پاکستان آج بھی عالمی استعماری قوتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔
دفاعی محاذ پر ناقابل تسخیر اسلامی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان آج ورلڈ
بینک، آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی نظر آتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر، فلسطین جیسے عالمی تنازعات میں جہاں پوری دنیا کو پاکستان کی
ایٹمی صلاحیتوں سے ڈرنے کی ضرورت تھی مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ باوجود اک
ایٹمی قوت ہونے کے پاکستان کو کئی مواقع پر عالمی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال
ہونا پڑا۔ جسکی سب سے بڑی مثال 9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ
کی اک فون کال پر اُس وقت کے پاکستانی آمر صدر مشرف نے امریکہ کا کھل کر
ساتھ دیا جس کا خمیازہ پاکستان کو 100 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان اور ایک
لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی شہادت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔بلکہ آج تک
پاکستان کو اُس وقت کے فیصلوں کے نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ ابھی حال
ہی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے اپنے آرٹیکل 370 کو خاتمہ کرکے
وادی کشمیر کی خصوصی متنازعہ حیثیت کو ختم کردیا، مگر دنیا کی ساتویں اور
اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت سوائے جمعہ کے جمعہ آدھے گھنٹے کا احتجاج کے
کچھ نہ کرسکی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اٹیمی قوت پاکستان کا خوف اسکے تمام
دشمنوں کی نیندیں حرام کردیتا مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم ”سب سے پہلے
پاکستان“ جیسے دلفریب نعرے لگا کر عالمی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔
کل تک پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد بھارت سے خطرات لاحق رہتے تھے مگر 9/11
کے بعد امریکی ہاتھوں میں استعمال ہونے کے بعد پاکستان کی مغربی سرحدیں
افغانستان کی طرف سے بھی غیر محفوظ ہوتی گئی۔ حقیقت حال تو یہ ہے پاکستان
ایٹمی قوت تو بن گیا مگر پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور بیرون
طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کی وجہ سے معاشی قوت نہ بن سکا۔ بہرحال 28
مئی کی سہ پہر پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کا بھرپور جواب دیکر بھارتی
سورماؤں اور عالمی برادری پر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان اپنے دفاع کی خاطر
کسی بھی قسم کا عالمی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ پوری دنیا میں پاکستان کے
ایٹمی بم کو اسلامی بم کا نام دیا گیا۔ جہاں عالمی طاقتیں پاکستان کے
”اسلامی بم“ پر خفا نظر آئیں وہیں پر عالم اسلام اور امت مسلمہ ء نے
پاکستان کی اس عظیم کامیابی پر بھرپور جشن منایا۔ اس وقت کی حکومت نے 28مئی
کو قومی دن کے طور پر منانے اور اس دن کو مخصوص نام دینے کے لئے سینئر ترین
صحافیوں اور parliamentarian پر مشتمل کمیٹی قائم کی، اس کمیٹی نے پورے
پاکستان میں نام تجویز کرنے کے لئے اک مقابلہ کا انعقاد کروایا اور بالآخر
28مئی کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا۔ مگر بدقسمتی سے یوم تکبیر صحیح معنوں
میں صرف 1999 میں منایا گیا اسکے بعد آمر مشرف کے دور میں سرکاری سرپرستی
میں اس دن کو منانے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ اک
انتہائی افسوس ناک پہلو یہ بھی کہ اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام
تب تب ہی ہوا کہ جب جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی۔ آج بھی حالت
یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن تو اس دن کو سرکاری اور بحیثیت پارٹی کے
بھرپور طریقہ سے منانے کا انتظام کرتی آرہی ہے مگر دیگر سیاسی پارٹیاں اس
دن کو منانا تو دور کی بات اس دن کو منانے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں ہیں۔
یاد رہے 28 مئی یعنی یوم تکبیر کسی خاص سیاسی پارٹی کا دن نہیں ہے بلکہ یہ
دن پوری پاکستانی قوم کے لئے فخر کا دن ہے اور یہ دن صرف اسلئے نہ منایا
جائے کہ اس دن کی نسبت سے مخالف سیاسی پارٹی کے قائد یعنی نواز شریف کا ذکر
آتا ہے تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہوگی۔ کیونکہ یہ دن تمام پاکستانیوں کا
دن ہے یہ دن تمام سیاسی پارٹیوں کا دن ہے۔ تو پھر آؤ بغیر کسی سیاسی بغض
اور سیای وابستگی ہمیں اس دن کو ”نعرہ تکبیر اللہ اکبر“ کے نعرے لگاتے ہوئے
قومی دن کے طور پر بھرپور طریقہ سے منائیں۔ اللہ کرے کہ جس طرح پاکستان اک
عالمی ایٹمی قوت بنا ہے اسی طرح سے پاکستان اک عالمی معاشی قوت بھی بن جائے
اور دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کشمیر و فلسطین جیسے علاقوں کو
کفار کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب ہوجائے۔ آمین ثم آمین۔پاکستانی قوم
ہمیشہ کے لئے زندہ باد۔۔پاکستان ہمیشہ کے لئے پائندہ باد۔
|