جدوجہدآزادی فلسطین نئے مراحل میں داخل

ماجد علی سید
اسرائیل اورغزہ کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی جدوجہد آزادی فلسطین ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، ۹مئی کواسرائیلی فوج مسجداقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے اندرداخل ہوئی اورآنسوگیس اور ربر کے گولیا ں برساکرنماز ادا کرتے ہوئے مرد وخواتین اور بچوں کو ایک مرتبہ پھر بربریت کا نشانہ بنایا۔اسی دوران یروشلم کے مشرقی حصے شیخ جراح ،جہاں فلسطینیوں کی قدیم آبادیاں ہیں۔یہودیوں نے پولیس کی مدد سے ہنگامہ آرائی شروع کردی اورانہیں مکانات خالی کروانے کے لئے زبردستی فلسطینیوں کے گھروں میں داخل ہوکر دست درازی کرتے ہوئے ایک بڑا فساد کھڑا کردیا۔بیت المقدس کمپاؤنڈ اورفلسطین کاسارا علاقہ مسلمانوں کے لئے انتہائی بابرکت مقام ہے۔نبی کریم ۱۶ ماہ تک قبلہ اول کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔بیت المقدس کا۳۵ ایکڑکا کمپاؤنڈ عالمی اثارقدیمہ کی جانب سے تحفظ فراہم کردہ علاقہ ہے۔ یروشلم کی ۱۴سوسالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ۱۰۳۲ سال تک فلسطینیوں اورمسلمانان عالم میں اسرائیل کے اس اہانت آمیز ظلم و بربریت پرشدید غم و غصہ کی لہر دوڑگئی۔ حماس نے شیخ جراح کے مظلوم شہریوں پراسرائیلی افواج کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا اور القاسم برگیڈ اوردیگر اسلامی جہادی گروپوں نے اسرائیل پرغزہ سے راکٹ داغنے شروع کردیئے۔انہیں پتا تھا کہ اس مزاحمت کا بہت بڑا خمیازہ غزہ کے شہریوں کو بھگتنا پڑے گا اور بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔۱۹۶۰ سے ۷۲ سالوں کے درمیان غزہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں باربار سینکڑوں مرتبہ ملبہ میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔فلسطینیوں کا بچہ بچہ جان ومال کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیاررہتا ہے۔ بیت المقدس اورمظلوم فلسطینیوں کی تائید میں حماس نے ببانگ دہل اسرائیلیوں کو ایک اور سبق سکھانے کے لئے راکٹوں کی بارش شروع کردی۔ ۱۱ دن میں ۳۶۰۰ راکٹ داغے گئے۔ شہادت کے جذبے سے سرشار فلسطینی مجاہدین کو یہ پتا تھا کہ اسرائیلی عسکری ٹیکنالوجی سے تیارکردہ دنیا کا راڈار آئرن ڈوم راکٹوں کو فضا میں مکمل ضائع کردے گا۔ القاسم برگیڈ نے اس سے ایڈوانس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بے خوف وخطر اسرائیل کے اہم اورحساس مقامات کونشانہ بنا کر تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے،جس سے اسرائیل میں خوف و دہشت کاماحول پیدا ہوگیا۔دنیا کی چوتھی بڑی طاقت سے اسلحہ کے بغیرجذبے سے سرشار غزہ کے فلسطینیوں نے ٹکر لینے کی جو ہمت اورحکمت عملی اختیارکی وہ بڑی حد تک کامیاب رہی۔
اسرائیل نے ظلم وبربریت میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔دنیا کے سب سے جدید ترین ہلاکت خیزایف ۳۵بمبار طیاروں کے ذریعہ کلسٹر بموں کی بارش جس میں ۳۰۰ سے زیادہ معصوم نہتے شہری جس میں ۷۸ بچے بھی شامل تھے شہید ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی اورمعذور ہوگئے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے ۴۵۰ سے زیادہ رہائشی وتجارتی ، اسکولز اورکالجوں کی عمارتوں کو تہس نہس کردیا اور ۳ہزار سے زیادہ رہائشی مکانات منہدم ہوگئے۔

۳۶۰ مربع کیلو میٹر پرمحیط ۲۰ لاکھ افراد پرمشتمل دنیا کا گنجان آبادی ولاشہرغزہ اسرائیلی بربریت کے خلاف مزاحمت پرپھربرسرپیکار تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق غزہ میں فلسطینیوں کا۳۰۰ملین سے زیادہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، لیکن اس مزاحمت کی حکمت عملی سے فلسطینیوں کو متحد کرنے کابڑا موقع مل گیا۔پہلی مرتبہ اسرائیل میں رہنے والی ۲۰فیصد فلسطینی عرب آبادی اورمغربی کنارے کے فلسطین میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف ایک زبردست ناقابل یقین جذبہ ولولہ کی لہربیدار ہوئی اورایک زبردست اتحاد کامظاہرہ کرتے ہوئے ۱۸ مئی کو مکمل ہڑتال اوراحتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں۔ کئی شہروں میں کرفیوں نافذ کردیا گیا۔ اسرائیلی میں فلسطینیوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ فلسطینیوں نے اس کا بھی بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا۔

کرہ ارض پرفلسطینی واحد قوم ہے جو ۱۱۰ سال سے دنیا کی ظالم ترین طاقتوں کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد میں اپنی جان ومال قربان کررہی ہے۔بڑی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے جب سرزمین فلسطین پر اسرائیل کی نام نہاد حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا اس دن سے ہی فلسطینیوں کے گھروں ، بستیوں ،کھیتوں اورکارخانوں سے بے دخلی باربار گرفتاریاں جیل میں تشدد، مصائب اورموت وحیات کی لڑائی لڑتی آئی ہے۔

جس نے بھی اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف پتھراٹھایا وہ گولی سے ہلاک کردیا گیا۔ جب ۹مئی اسرائیلی قابض فوج نہتے فلسطینیوں پرمسلسل بمباری کررہا تھا تو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی چارمرتبہ منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف امریکا نے ویٹو کیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ہم اسرائیل کے تحفظ کے پابند ہیں ۔۲۰۰ سے زیادہ کانگریس ڈیموکریٹس نے بائیڈن کے طرز عمل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مظلوم فسلطینیوں کے حق میں بیان دینے پرزور ڈالا۔اقوام متحدہ میں امریکا کو بدترین شرمندگی کا سامنا اس وقت پڑا جب امریکا نے حماس اورفلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تائید میں قرارداد پیش کی توایک بھی ممبر ملک ایسا نہیں تھا جو امریکا کے خلاف قرارداد کی تائید کرتا باوجود اس کے امریکا نے اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ۴مرتبہ اقوام متحدہ کے بیان کو رکوادیا۔چین ، کویت، تیونس، الجیریا اور پاکستان دیگر تمام یورپی ممالک ممبران نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔

اسرائیل کی غزہ پربمباری کے دوران امریکا نے اسرائیل کو ۷۸۰ ملین ڈالر کی خصوصی فوجی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا۔امریکا کی تاریخ میں امریکا نے کبھی فلسطینیوں کے حقوق کے لئے اپنے سفارتی مشن کو استعمال نہیں کیا۔ برطانیہ نے ۱۹۵۰میں اسرائیل کے تحفظ کی ذمہ داری امریکا پرڈالی دی تھی۔ جب سے آج تک امریکا نے غیرقانونی طوپرمقبوضہ سرزمین میں بنائی گئی اسرائیلی حکومت کی تائید کو اپنا بنیادی فریضہ سمجھتا ہے چاہے وہ صدر ریپبلیکن ہویا ڈیموکریٹس کاہرکوئی اسرائیل کو مقبوضہ غیرقانونی فوجی طاقت بنانے کے لئے کوشاں رہے۔ ۱۹۵۶ میں اس وقت کے صدرآئزن ہاور نے باضابطہ کہا تھاکہ مشرقی وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں زبردست تبدیلی آئے گی۔ آج تک جتنے بھی امریکی صدور برسراقتدار آئے بشمول موجودہ صدر بائیڈن کے فلسطینیوں، عربوں اوردیگرمسلم ممالک سے ان کی نفرت، عداوت اور بغض کھل کر پھرایک مرتبہ دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔

اسرائیلی اخبارات ’’یروشلم پوسٹ‘‘ اور’’ ہرٹز‘‘ نے اسرائیل اورغزہ کے نقصانات کا موازنہ کرتے ہوئے اپنے تجزیے میں یہ برملالکھا کہ اس جنگ میں حماس کا پلڑا بھاری رہا۔حماس اور جہادی گروپس اسرائیلی عوام میں حملوں کا نفسیاتی خوف اوردہشت بٹھانے میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ یہودیوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

بعض امریکی اوریورپی مبصرین نے تویہاں تک لکھ دیا کہ مستقبل میں دنیا کے عسکری کالجز میں حماس کی جنگی حکمت عملی کو بطور مضمون پڑھایاجائے گا۔ گذشتہ چند سالوں میں ٹرمپ نے ڈیل آف دی سینجری کے نام پرمشرقی وسطیٰ کے تمام عرب حکمرانوں کواسرائیل کے قریب کیااوریروشلم جیسے مقدس شہرمیں امریکی سفارتخانہ کو منتقل کرکے اسے بہت بڑاکارنامہ قراردیا جارہا تھااورٹرمپ نے فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیادپردی جانے والی امدادکو روک دیا تھا۔ دوسرے جانب ہمیشہ کی طرح عرب خاندانی شخصی حکومتوں نے ایک کے بعد ایک اسرائیل سے سفارتی ،سیاسی اورتجارتی معاہدے کرکے نہتے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کے کی پشت پرخنجر گھونپتے رہے۔ عربوں کی بے شرمی کی حدتو یہ ہے کہ امارات کے وزیر نے کہا کہ اگرحماس راکٹ حملے بند نہیں کرے گا توہم غزہ میں سرمایہ کاری بند کردیں گے۔ اسرائیل کی اخلاقی فوجی شکست دیکھتے ہوئے کی عرب سیاسی قائدین کے ہوش اُڑگئے۔

حالیہ جنگ میں حماس نے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک بلین سے زیادہ کا نقصان پہنچایا، اس کی برقی اورتیل کی تنصیبات کوکامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے بھاری نقصان پہنچایا،یہودی گھروں اوردفاتر سے جان بچانے کے لئے بھاگنے پرمجبورہوئے۔ حماس کی جراتمندانہ مخلص قیادت نے ثابت کردکھایا کہ وہ بغیر کسی پڑوسی عرب ممالک کی مدد یا ان کی زبانی جمع خرچ ومسلسل دھوکے بازی سے اپنی جدوجہدآزادی سے ہرگزپیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اورا نہوں نے بغیر ذرائع ووسائل کے تنہا اسرائیل جیسی جابرحکومت کو وہ سبق سکھایا جو دنیا کی تاریخ میں لکھا جائے گا۔

بارہ دن کی اس مزاحمتی جنگ میں جان ومال کی قربانیوں کے ذریعے اسرائیل کو پھر ایک مرتبہ یہ یادھانی کروا دی گئی فلسطین سرزمین ہماری ہے اورہماری ہی رہے گی۔ اس کی آزادی کے لئے کیوں نہ ہماری کشتیوں کے پشتے لگ جائیں اورتباہ کن نیو کلئیربموں کی ہمارے سروں پرچوبیس گھنٹے بارش کیوں نہ کی جاتی رہے ہم اپنی تحریک مزاحمت اسلامی الحرالمقادم اسلامیہ کوہرگز پست اورکمزورنہ ہونے دیں گے۔
آل سعود میں ملک فیصل بن عبدالعزیز عالم اسلام کے ایک عظیم متفقہ قائد کی حیثیت سے ابھرے تھے۔ ا انہوں نے اس و قت برملا کہاتھا کہ ’’کونسا اسرائیل ہم ایسے کسی غیرقانونی ملک کو نہیں جانتے اورنہ قبول کرتے ہیں۔اسے ہماری سرزمین ہم کوواپس کرنی پڑے گی۔ہم قبلہ اول بیت المقدس اورارض فلسطین کی بازیابی کے لئے جنگ وجہادکے ذریعے سب کچھ قربان کرتے ہوئے دوبارہ حاصل کرکے رہیں گیااوراس للکار کا خمیازہ انہیں بھگتناپڑے گا۔‘‘ اس ہمت و جرات کی پاداش میں ۲۵مارچ۱۹۷۵کوان کے محل میں انہیں شہیدکردیا گیا۔وہ آل سعود کے پہلے شہید بادشاہ تھے جنہوں نے فلسطین کازکے لئے اپنی جان قربان کردی۔عربوں کی دوہری چالوں اور دوررخی پالیسیوں نے بیت المقدس کی بازیابی کو پچیدہ اورمزید دقت ترین مسئلہ بنادیا ہے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1036675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.