چوھدری نثار علی خان نے پنجاب اسمبلی کی نشست کا حلف اٹھا
ہی لیا ہے وہ 2018میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 10سے ایم پی اے منتخب
ہوئے تھے انہوں نے صوبائی نشست کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے بھی دو حلقوں
این اے 59اور این اے 53سے بھی الیکن میں حصہ لیا تھا لیکن ن لیگ سے دوری کی
وجہ سے وہ مذکورہ دونوں سیٹیں ہار گئے تھے ان کا مووقف تھا کہ ان کے ساتھ
دھاندلی ہوئی ہے لہذا وہ ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گئے اور
اگر پنجاب اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ کا حلف اٹھایا تو اس کا مطلب یہ ہو گا
کہ وہ 2018میں منعقدہ الیکن کے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اسی خدشے کے پیش
نظر انہوں نے 2سال 10ماہ تک صوبائی اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ کا حلف بھی
نہیں اٹھایا تھا جس پر حلقہ پی پی 10کے عوام نے بہت زیادہ شور مچائے رکھا
کہ انہوں نے چوھدری نثار علی خان کو اپنا ایم پی اے منتخب کیا ہے وہ جیتی
ہوئی سیٹ کا حلف لیں تا کہ ایک منتخب ایم پی اے کے زمہ جو بھی زمہ داریاں
ہوتی ہیں ہم ان سے استفادہ حاصل کر سکیں ہمارے کوئی چھوٹے موٹے کام ہو سکیں
لیکن محترم ایم پی اے نے کسی کی بات کو بھی نہ سنا اور نہ ہی حلقہ کے عوام
کو کوئی ترجیح دی ہے موصوف ایک ہی ضد پر قائم رہے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت
حلف نہیں لیں گئے کیوں کہ جس حلقے سے وہ صوبائی اسمبلی کے سیٹ جیت رہے ہیں
اسی حلقے سے قومی اسمبلی کی سیٹ کیسے ہار سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ
پچھلے 3سالوں یہ بھی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ کچھ باتیں ہیں جو ابھی کر نہیں
سکتا کچھ باتیں وقت آنے پر بتاؤں گا اور کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن کا ابھی
وقت نہیں آیا ہے وہ اس طرح کے تمام راز دل میں ہی چھپائے اچانک اس وقت حلف
اٹھانے کیلیے راضی ہو گئے ہیں جب حلقہ کے عوام اس بات کو بھول چکے تھے کہ
ان کے ایم پی اے بھی کوئی ہیں انہوں نے چوھدری نثار علی خان کا نام لینا
بھی چھوڑ دیا تھا ایسے وقت جس میں ان کی ن لیگ سے مخالفت یا دوری بھی مکمل
عروج پر پہنچ چکی ہے پارٹی میں واپسی کے بھی کوئی چانسز نہیں ہیں اور پی ٹی
آئی میں بھی کوئی خاصی گنجائش دکھائی نہیں دے رہی ہے ان کے اوپر ایم این اے
بھی مخالف پارٹی سے ہے ان کو ترقیاتی فنڈز بھی ملنے مشکل ہیں ان کا حلف
لینا سمجھ سے بالاتر ہے اور ایک اہم بات کہ وہ حلف لے کر بھی یہ کہہ رہے
ہیں کہ ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے وہ خود ہی اگر اپنے پچھلے
اور حالیہ بیان پڑھیں یا سنیں تو ان کو محسوس ہو جائے گا کہ وہ کتنے مستقل
مزاج اور ثابت قدم سیاستدان ثابت ہوئے ہیں ان کے تمام بیانات ان کی باتوں
کی نفی کر رہے ہیں یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ان کے تمام بیانات لوگوں کے
پاس محفوظ ہیں اب حلقہ کے عوام کو لالی پاپ دینا ان کیلیئے تھوڑا مشکل ثابت
ہو گا حلف لینا ان کا اخلاقی و قانونی حق بنتا تھا لیکن اگر یہی کام کرنا
تھا تو 3 سال پہلے ہی کر لیتے جب یہ صرف ان کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ عوامی
مطالبہ تھا عوام ان کو حلف کیلیئے دہائیاں دے رہے تھے پی پی 10کے عوام کا
ان پچھلے 3سالوں میں ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے
اس کا ازالہ کون کرے گا حلف اٹھانے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ نہیں بلکہ
کمی ہوئی ہے کیوں کے ان کے بہت سے چاہنے والے اب بھی یہ کہہ رہے تھے کہ یار
چوھدری نثار علی خان ن نے اپنا بے شمار نقصان کر دیا ہے لیکن اپنے موقف سے
پیچھے نہیں ہٹے ہیں موجودہ اقدام سے ان کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے
ان کے دلوں میں ان کی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی مشکوک بن گئی ہے اب ان کے
پاس عام لوگوں کو قائل کرنے کیلیئے کوئی جواز باقی نہیں بچا ہے چوھدری نثار
علی خان عام عوام کی حمایت کھو بیٹھے ہیں پی پی 10کے عوام نے تو ان کو
منتخب کیا تھا اب اگر اپنی ہی پارٹی کے ساتھ ان کے کوئی معاملات تھے تو اس
میں حلقے کے عوام کا کیا قصور تھا انہوں نے اپنی غلطیوں کا بدلہ عوام سے
کیوں لیا ہے ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ چوھدری نثار علی خان کیلیئے اب ایک
اور امتحان بھی آ گیا ہے عروج کے دور میں جب وہ لا تعداد ترقیاتی کاموں
کیلیئے فنڈز جاری کرتے تھے تو اس میں کچھ عوام یہ سمجھتے تھے کہ وہ تمام
فنڈز پارٹی پلیٹ سے دیتے ہیں لیکن کچھ عوام ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ
ترقیاتی فنڈز چوھدری نثار علی خان کی شخصیت کو سامنے رکھ کر دیئے جاتے ہیں
اب وہ وقت قریب آ گیا ہے جب ان کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ پہلے ترقیاتی فنڈز
ن لیگ دیتی تھی یا وہ ذاتی حوالے سے دیتے ہیں کیوں کہ اس وقت حلقہ ترقیاتی
کاموں کے حوالے سے بہت پیچھے جا چکا ہے حلقے کے عوام کسی معجزے کے منتظر
ہیں چوھدری نثار علی خان کو حلقے میں ترقیاتی کاموں کیلیئے بہت زیادہ
کاوشیں کرنا ہوں گیان کو دیر سے آئے درست آئے والی بات کو یقینی بنانا ہو
گا اور عوام کی پچھلے 3سالوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہو گا بصورت دیگر
عوام اس بات پر مکمل یقین کر لیں گئے کہ چوھدری نثار علی خان ن لیگ کے بغیر
کچھ بھی نہیں ہیں
|