حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی۰۰۰ لیکن مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور شیخ جرح کا مسئلہ جوں کا توں برقرار

رمضان المبارک میں جس مقصد کے حصول کے لئے فلسطینیوں نے غاصب اسرائیلیوں کے خلاف احتجاج کیا اورغزہ پٹی پر مضبوط گرفت رکھنے والی عسکریت پسندتنظیم حماس نے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کردی اور پھر بعد حالات نے جس طرح ڈھائی سو سے زائدغزہ پٹی کے معصوم ، بے قصور مردو خواتین اور بچوں کو شہیدکیا اورسینکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا اسے دنیا جانتی ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی تو ہوچکی ہے لیکن اصل جو مسئلہ تھا اسے دنیا نے نظرانداز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی کے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے پاس بسے فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی کے خلاف کم و بیش دوہفتہ تک مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ان جھڑپوں کی بنیادی وجہ اسرائیلی سپریم کورٹ کا وہ متوقع فیصلہ تھا جس میں فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم کے اس علاقے شیخ جرح سے بے دخلی کے بارے میں حکم جاری کرنا تھا۔بین الاقوامی قانون کے تحت یہ متنازعہ علاقہ جس پر اس وقت اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے دراصل فلسطین کے ان علاقوں کا ایک حصہ ہے جو اس وقت اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں ہے۔اسرائیلی ظالم فوجی و سیکیوریٹی دستوں نے عین اس وقت مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا جب فلسطینی لیلۃ القدر کی عبادات میں مسجد اقصیٰ میں مصروف تھے۔ ایک طرف شیخ جرح کامعاملہ اور دوسری جانب مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظالم دستوں کے دھاوے نے حماس کو اسرائیل پر راکٹ حملے کرنے پر مجبور کیا، جس کے جواب میں اسرائیلی حکومت نے غزہ پٹی کے معصوم بے قصور عام شہریوں کے مکانوں اور عمارتوں پرخطرناک فضائی حملے کرکے شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا اور آخر کار اپنی ظالمانہ کارروائیوں کا اختتام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جنگ بندی کے نام پر ختم کیا۔ عالمِ اسلام کا حکمراں طبقہ اور اقوام متحدہ و او آئی سی نے اسرائیل کی مذمت میں صرف بیان بازی کی اور جنگ بندی کے نام پر اسے اپنی کامیابی تصور کرتے ہوئے خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے۔لیکن رمضان المبارک میں جس مقصد کیلئے فلسطینیوں نے آواز اٹھائی اور احتجاج شروع کیا اور عین عبادت کے موقع پر ظالم اسرائیلی دستوں نے مسجداقصیٰ میں ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے اس کے تشخص کو پامال کیا اور سینکڑوں عبادت کرنے والے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کیا اس پر کسی قسم کا احتجاج یا بات اقوام متحدہ میں نہیں کی گئی۔ اسرائیلی کارروائی میں دو درجن کے قریب فلسطینی اُس وقت شہید ہوئے اور قریب تین سو زخمی ہوئے اس پر کسی مسلم وزیر خارجہ نے آواز نہیں اٹھائی صرف جنگ بندی کو ہی اہم سمجھا۔ جس وقت جنگ بندی کا معاملہ عمل میں آیا اس کے بعد بھی منظرعام پر آنے والی خبروں کے مطابق مسجد اقصیٰ میں ظالم اسرائیلی دستوں نے فلسطینیوں پر حملے کئے گئے۔واضح رہے کہ یہودی آباکاروں نے فلسطینی علاقوں پر جس طرح ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے قبضہ کرتے رہے اور فلسطینی عوام جب اپنے گھروں اور علاقوں سے ہٹنے کیلئے مزاحمت کرتے ہیں تو انکے خلاف بُری طرح کارروائیاں کرتے ہوئے انہیں وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے تحت اس مرتبہ بھی رمضان المبارک میں مشرقی یروشلم میں شیخ جرح علاقے کے فلسطینی مکینوں کو انکے گھروں سے بے دخل کرنے کی تھی۔ شیخ جرح محلہ دمشق دروازے کے قریب پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔اس علاقے میں ہوٹلوں، ریستوراں اور قونصل خانے کے علاوہ فلسطینیوں کے کئی مکانات اور رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں۔مشرقی یروشلم 1967 میں اسرائیل کے قبضہ کرنے سے قبل اردن کے ساتھ ملحق تھا اور اس کو عالمی برادری کے ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اردن نے 1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی رہائش کے لیے شیخ جرح کے پڑوس میں رہائش گاہ بنائی تھی اور لیز کے معاہدے اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہودی آباد کاروں نے اسرائیلی عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر محلے کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہاں رہنے والے یہودی خاندان 1948 کی جنگ کے دوران فرار ہو گئے تھے۔جبکہ اردن کی وزارت برائے امور خارجہ کے ذریعہ شائع شدہ دستاویزات کے مطابق یہ دستاویزات ان 28 خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو شیخ جرح کے پڑوس میں 1948 کی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ محلے کے رہائشی محمد الصباغ بتاتے ہیں کہ رہائشیوں کی مشکلات سنہ 1972 میں اس وقت شروع ہوئیں جب سی فارڈک یہودیوں کی کمیٹی اور اسرائیل کی کنیسیٹ کمیٹی (اشکنازی یہودیوں کے لیے بنائی گئی کمیٹی) نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس علاقے کے مالک ہیں جس پر 1885 میں مکانات بنائے گئے تھے۔جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے فریقین سے جنگ بندی کی درخواستیں کی گئیں اور آخر کار ڈھائی سو سے زائد فلسطینی شہیدوں اور دو ہزار کے قریب زخمیوں کے خون نے مزید خون خرابے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسلامی ممالک بشمول پاکستان نے جنگ بندی پراپنی کامیابی تصورکرتے ہوئے خوشیاں بھی منائے ، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فلسطین، اسرائیل تنازعہ پر ہونے والے خصوصی اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوئے تو ان کا پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ انہیں پاکستان تحریک انصاف کی خواتین اراکین قومی اسمبلی اور پارٹی کارکنوں نے پھولوں کے ہار پہنائے ،اور ان پر پھول برساتے ہوئے مبارکباد پیش کی جس کے ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی خوب وائرل ہوئے۔یہ پُرتپاک استقبال کرنے کا موقع نہیں تھا کیونکہ اگر جنگ بندی اہمیت بھی رکھتی ہے یا اس میں انہیں کامیابی محسوس ہوتی ہے تو بھی ان معصوم فلسطینیوں کے جانوں کی قربانی اور زخمیوں کے صبر اور آہ و بکا کا خیال بھی رکھنا چاہیے تھا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل پر یہ دباؤ ڈالنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے غاصبانہ ارادوں کو مزید آگے نہ بڑھائیں اور شیخ جرح کے علاقے سے ان فلسطینی مکینوں کا حق نہ چھینے۔ فلسطینی نائب صدر فواد اوکتائے نے جس طرح کہا تھا کہ ترکی اسرائیل کے فلسطینی سرزمین پر مظالم کے خلاف دنیا بھر میں صدا بلند کی جائینگی، انکا کہنا تھا کہ ’’فلسطین، غزہ، مسجدِ اقصیٰ ، شیخ جرح میں اسرائیلی جارحیت کے سامنے پوری دنیا نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ، ترکی آخری دم تک فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ،انہوں نے مزید کہا تھا کہ’’ ہمارے صدر ، ترک عوام فلسطینیوں پر مظالم کے سامنے ہمیشہ ڈٹ کر کھڑے رہیں گے، اور پوری کے سامنے اسرائیل کا پردہ چاک کرکے ہی رہیں گے‘‘۔ لیکن حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر اکتفا کیا گیا ، شیخ جرح کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی دستوں کی ظالمانہ کارروائیاں بھی جاری ہے۔ سینکڑوں فلسطینی بچوں، لڑکیوں اور نوجوانوں کو اسرائیل نے حراست میں لے لیا اس پر عالمِ اسلام کو آواز اٹھانی چاہیے اور ان دنوں حراست میں لئے گئے تمام فلسطینیوں کو آزاد کرانا چاہئے۔اگر فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد نہیں کیا گیا تو صرف جنگ بندی عالمِ اسلام کے لئے کوئی بڑی کامیابی نہیں ہوگی۰۰۰ اقوام متحدہ کے مطابق 10؍ مئی سے جاری گیارہ روزہ جنگ کے دوران 53 تعلیمی اداروں، چھ اسپتالوں اور 11 بنیادی ہیلتھ کیئر مراکز کو نقصان پہنچا ہے، ایک ہیلتھ کیئر مرکز کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ ایک ہسپتال بجلی کی کمی کی وجہ سے کام نہیں کر رہا ہے۔ غزہ میں ا سکول بند ہیں جس سے تقریباً چھ لاکھ بچے متاثر بتائے جاتے ہیں۔ غزہ میں تقریباً 8 لاکھ افراد کو صاف پانی کی فراہمی تک باقاعدگی سے رسائی حاصل نہیں ہے کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ لڑائی میں پانی کے تقریبا 50 فیصد نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا ہے۔اسی طرح سینکڑوں عمارتیں تباہ و برباد ہوگئیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ غزہ پٹی کے حالات سدھرنے کے لئے کئی ماہ و سال درکار ہونگے کیونکہ جس بُری طرح سے اسرائیلی فضائی حملوں میں جانی و مالی نقصان ہوا ہے اس اندازہ کرنا محال ہے۔

دین اسلام نہیں اسلام دشمنی عالمی خطرہ ۔رجب طیب اردغان
ترک صدر رجب طیب اردغان نے مغربی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اسلام دشمنی کے سلسلہ میں کہا ہیکہ سرطان کا مرض جس سرعت سے پھیلتا ہے اسی طرح اسلامی دشمنی پھیلتی جارہی ہے۔صدر ترک اردغان نے عالمی میڈیا و اسلام وفوبیا سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ امریکی انتظامیہ کی 9/11کے بعد سے شروع کردہ ’’مسلمانوں کو شیطان کا درجہ دینے ‘‘ کی حکمت عملی نے کئی ایک معاشروں میں پہلے سے ہی موجود ہونے والی اسلام دشمنی کے وائرس کو مزید شہہ دلائی ہے ۔ انکا کہنا ہیکہ اس سے قبل کچھ حد تک ہونے والی نسل پرست پالسیسیوں نے اب سیاست میں سرایت کرتے ہوئے اپنے قدم مضبوط کئے ہیں اور اس نے مغرب میں اس دلدل سے نکلنے کے بجائے اس کی مزید گہرائیوں میں پھنسنے کو ترجیح دی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودی نسل کشی پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرنے والے اب مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ حقیقت سے منہ پھیرنے والے دراصل اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اپنے مستقبل سے دشمنی مول لئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو مغرب میں اسلام وفوبیا کا نام دیتے ہوئے اس میں نرمی لانے کی کوشش کی ہے تو ہم اس عمل کے اسلام دشمنی ہونے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ صدر ترک نے مزید کہا کہ صدیوں بھر تک اپنی روشن خیال شخصیات کی بدولت نسل در نسل اپنے معاشروں کی دین اسلام سے ہم آہنگی قائم ہونے والے ترکوں کے خوف سے یورپ نے اسے سیاسی آلہ کار بنایا ہے۔ دنیا بھر کے ساڑھے سات ارب انسانوں کو دین اسلام نہیں بلکہ اسلامی دشمنی ایک عالمی خطرہ ہونے سے آگاہی کرائی جانی چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ بنی نو انسانوں کے امن و امان ، سلامتی کیلئے حیاتی اہمیت کی حامل، اسلام دشمنی کا سدباب کرنے کی کوششوں کو تشکیل دیے جانے والے کسی مشترکہ عقل میکانزم کے ساتھ جاری رکھا جانا چاہئے۔ اسلام و فوبیا کا نشانہ بننے والے تمام تر معاشروں اور ممالک کو یکجا ہوتے ہوئے عالمی سطح پر ایک مضبوط خبر رسانی نیٹ ورک کا قیام شرطیہ ہے۔غرضیکہ دین اسلام عالمی خطرہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی عالمی خطرہ ہے اور اس سے آگاہی بنی نو انسانوں کیلئے اشد ضروری ہے۔
ٌٌٌ***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.