یہ واضح رہے کہ پچھلے دنوں27جون
کو خورشیدمیموریل ہال کراچی میں ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے
ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹرفاروق
ستار نے موجودہ برسراقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ساڑھے تین سال تک
اپنا ہر لحاظ سے مفاہمتی عمل جاری رکھنے کے باوجود حکومت کی جانب سے مسلسل
کی جانے والی ذیاتیوں اوررویوں کے خلاف اَب اپنا مزیدمفاہمتی عمل جاری نہ
رکھنے کاواضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کردیاہے
جس کے بعد سے ملکی سیاست میں جو گرماگرمی پیداہوگئی ہے اِس سے یہ اندازہ
کیاجاسکتاہے کہ اَب اِسے ملک میں آئندہ ہونے والے انتخابات تک ٹھنڈاہونے کے
امکانات کچھ کم ہی نظر آتے ہیں مگر پھر بھی حکومت کی جانب سے آنے والی بعض
اطلاعات سے ایساضرور محسوس ہورہاہے کہ جیسے حکومت ایک مرتبہ پھر اپنے
علیحدہ ہونے والے اِن ساتھیوں کو منانے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہے جس طرح
یہ پہلے بھی اِنہیں مناتی رہی ہے اور وقفے وقفے سے اِس طرح سے گرم ہوتے
سیاسی ماحول کو یہ ٹھنڈاکرتی رہی ہے اور اِس بار بھی یہ ایساکرکے متحدہ کو
خود سے علیحدہ ہونے کے اعلان کے بعد پیداہوتی صورت حال کو سنبھالنے میں
کامیاب ہوجائے گی کیوں کہ حکومت یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اِس نے مسلم
لیگ (ق)کو اپنے ساتھ ملاتو لیاہے مگر پھر بھی ایم کیو ایم کے بغیر اِسے
اپنی مدت پوری کرنانہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوگا...
سو اِس بناپر آج بھی حکومتی ذمہ داران اوراراکین یہ دعوی ٰ ضرورکررہے ہیں
کہ ایم کیو ایم کی ناراضی صرف چندہی دنوں تک محیط ہوتی ہے ہم اپنے ناراض
ساتھیوں کو منانے میں ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوجائیں گے اور
اِسی طرح حکومتی اراکین نے تو اپناسینہ ٹھونک کر یہ دعویٰ بھی کرڈالاہے کہ
ایم کیو ایم کو مناتے مناتے عمر بیت گئی ہے ہم اِس سے اور یہ ہم سے خوب
واقف ہے ... ہم اِنہیں منالیں گے ۔
مگرہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس بار ایم کیو ایم کا فیصلہ اٹل ہے اور اَب اِسے
اپنے اِس فیصلے سے کوئی ٹس سے مس نہیں کرسکتاکیوں کہ متحدہ نے یہ فیصلہ
انتہائی سوچ اور سمجھ کے بعدکیاہے اور حکومت پر یہ واضح کردیاہے کہ قومی
اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن پر بیٹھیں گے (جبکہ خبر یہ ہے کہ 29جون کو
متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے اراکین سندھ اسمبلی نے اپوزیشن بنچوں
پر بیٹھنے کی درخواست سیکرٹری سندھ اسمبلی کے پاس جمع بھی کرادی ہے اور
کہاہے کہ اَب ہم حقیقی اپوزیشن کاکرداراداکریں گے اور حکومت کوغلط کاموں سے
روکیں گے)یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوگیاہے یہ فیصلہ کرنے
سے پہلے اُن تمام باتوں اور وعدوں کا بھی متحدہ نے ضرور جائزہ لیاہوگاجن کے
پورے نہ ہونے کی پاداش میں اِس صبروبرداشت کرنے اور فہم وفراست سے کام لینے
والی جماعت کو یہ قدم اٹھاناپڑا۔ کیونکہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جسے
آپ سمیت اور پاکستانیوں نے بھی یقینا محسوس کیاہوگاکہ حکمران جماعت ہر
مرتبہ متحدہ کے ساتھ وعدہ خلافی کرتی رہی ہے مگر متحدہ ہر بار اِس حکومتی
بے رخی کو اپنے برداشت اور ملک میں جمہوری عمل کوجاری رکھنے کے لئے ٹالتی
رہی ہے مگر کراچی میں کشمیریوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھ کر اِس نے جووعدہ
توڑاہے اِس سے حکمران جماعت کا اپنا قول وفعل کھل کر سامنے آگیاہے جو متحدہ
جیسی برداشت کرنے والی جماعت کے لئے بھی انتہاکی حد تھی جس کا نتیجہ متحدہ
کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کی شکل میں سامنے آیاہے۔
بہرحال ہماراخیال یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران اور اراکین کے تمام دعوے اور
اِن کی خوش فہمیاں کسی حد تک اپنی جگہہ ضرور درست ہوسکتی ہیں مگر یہ حقیقت
بھی تو اَب نہیں جھٹلائی جاسکتی ہے کہ 27جون کو ڈاکٹرفاروق ستار کی پریس
کانفرنس سے قبل 26جون کوایم کیوایم کے قائد الطاف حُسین نے کارکنوں سے خطاب
میں حکومتی رویوں کے برخلاف پہلی بار اپنے صبرو برداشت کا پیمانہ لبریزکرتے
ہوئے جس طرح کی سخت ترین زبان استعما ل کی تھی وہ اِس جانب واضح اشارہ تھی
کہ اِن کا یہ غصے سے بھر پور لب ولہجہ آئندہ چند ایک روز میںملک اور
بالخصوص سندہ کی سیاست کے حوالے سے کسی ہنگامہ خیز تبدیلی کا پیش خیمہ
ہوسکتاہے اور بالآخر اگلے ہی روز انتہائی سوچ بچار اور فہم فراست کی کسوٹی
میں اچھی طرح سے پرکھنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی
کنوینرڈاکٹرفاروق ستار اور انیس قائمخانی نے دیگر ارکان رابطہ کمیٹی
کنورخالدیونس، شعیب بخاری، بیگم نسرین جلیل ،مصطفی کمال، وسیم آفتاب ،واسع
جلیل ،قاسم علی رضا،کنورنوید جمیل اور گلفرارخٹک کے ہمراہ ایک ہنگامی پریس
کانفرنس میں متحدہ اور پی پی پی کا اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرکے حکومتی
اقتدار کی بساط سمٹے جانے کا واضح اشارہ دے دیا۔
اگرچہ اِس عمل میں جو بھی حکومتی منصوبہ کسی نیک نیتی یا بدنیتی کے حوالے
سے کارفرمارہاہومگر سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک اِس سارے معاملے کی ذمہ دار
موجودہ حکومت کا زیادہ تربدنیتی پر مبنی وہ رویہ ہے جو اِس نے آزادکشمیر
میں ہونے والے انتخاب کے حوالے سے اپنی بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے
ساتھ روارکھاتھا اور کراچی میں دونشستوں پر ہونے والی انتخاب کو بلاجواز
ملتوی کردیا۔
جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جسے حکومت کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرلیناچاہئے کہ
حکومت نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیوایم کو کبھی بھی اتنی اہمیت نہیں دی
جتنی آج اِس نے اپنی دوسری اتحادی جماعتوں کو دے رکھی ہے اور حکومت کا ایم
کیو ایم کے ساتھ روارکھے گئے روکھے پھیکے رویوں کا ایک بین ثبوت جو اِس نے
کراچی میں کشمیری مہاجرین کی نشستوںپر انتخاب ملتوی کرکے دیا اورجس کے بعد
ایم کیو ایم کے پاس کوئی جواز نہیں رہ جاتاتھا کہ وہ اپنا یہ انتہائی قدم
نہ اٹھاتی.... اوراَب جب کہ متحدہ نے حکومت سے علیحدگی اختیارکرنے کااپنا
یہ فیصلہ سُنادیا ہے اِس کے اِس حیران اور پریشان کن فیصلے کے بعدسے ملک کے
ایوانوں لے کر ملک کے طول وارض میں ہونے والے سیاسی اکھاڑے میں ایک
ایساطوفان برپاہوگیاہے جس سے متعلق آج یہ کہاجارہاہے کہ متحدہ کے اِس بروقت
اور مدبرانہ فیصلے نے حکمران جماعت کو دو تہائی اکثریت سے محروم کردیاہے
اور اَب متحدہ کے اِس فیصلے کے بعد حکومت کا زیادہ دیر تک قائم رہنامشکل
ہوگیاہے ۔ اُدھر دوسری جانب متحدہ کے اپنی نوعیت کے اِس اہم ترین فیصلے کے
بعد جو بات سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے
طویل ترین دورانئے (27دسمبر2002سے 27جون 2011 یعنی 8 سال 6ماہ )تک گورنر
رہنے اور سندھ کے سب سے نوجوان گورنرہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے سندھ کے
گورنر ڈاکٹرعشرت العباد خان بھی اپناا ستعفی دے کر اُسی روز لندن روانہ
ہوگئے جہاں پہنچتے ہی اُنہوں نے اپنے قائد الطاف حُسین سے ملک کی تمام
سیاسی صورت حل پر تبادلہ خیال کیااور آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق منصوبہ
بندی میں معاونت کی۔
یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم چونکہ ملک کے مڈل کلاس طبقے سے تعلق
رکھنے والی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے قیام کے پہلے روز سے ہی عملیت پسند
اور حقیقت پسند جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جمہوریت پسند جماعت بھی ہونے
کا شرف عظیم رکھتی ہے اور اِسی وجہ سے اِس کا اپناسب سے منفرداور علیحدہ
سیاسی اور سماجی مقام بھی ہے اِس لحاظ سے اِس کی تاریخ گواہ ہے کہ اِس نے
کوئی ایک کام بھی ایسانہیں کیاہے جو ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوامی فلاح
وبہبود سے ہٹ کر ہوں اور آج یہی وجہ ہے کہ یہ ملک کے مظلوم عوام میں بے
پناہ مقبولیت اختیارکرتی جارہی ہے جو اِس بات کی غماز ہے کہ ملک کی آئندہ
کی باگ ڈور اور نظم و نسق اِس کے ہاتھ میں ہوگا یہاں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ
یقینامتحدہ قومی موومنٹ نے آج پی پی پی کی حکومت سے جو علیحدہ ہونے کا
فیصلہ کیاہے اِس میں بھی ملک و قوم کی بہتری کا عنصر پوشیدہ ہوگا جس کے
ثمرات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے اور تب اُن لوگوں کی زبانیں اور منہ
بھی خود بخودبندہوجائیں گے جو آج یہ کہہ رہے ہیں کہ اِس سے پہلے بھی متحدہ
نے حکومتی اتحاد سے کئی بار علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیامگر پھر کچھ
دنوں بعد حکومت میں شامل ہوگئی اِس مرتبہ بھی ایساہی ہوگا تواِن لوگوں کے
لئے ہم یہ عرض کرناچاہیں گے کہ وہ وقت اور حالات ایسے نہیں تھے کہ متحدہ
حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے ملک میں اچھے بھلے جمہوری نظام کو ڈی ریل
کردیتی ۔
مگر آج جب اِسے اِس بات کا پوری طرح سے یہ محسوس ہوگیاہے کہ جس کا اظہار
متحدہ کے قائد الطاف حُسین نے 26جون کو کارکنان کے خطاب کے دوران کیاتھاکہ
موجودہ حکومت جمہوریت سے زیادہ آمرانہ طرز عمل اختیار کرچکی ہے تو پھر ترنت
ایم کیو ایم نے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیرحکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کا
اعلان کرکے یہ ثابت کردیاکہ ایم کیو ایم خالصتاایک عملیت پسند، حقیقت پسند
اورجمہوریت پسندجماعت ہے اِس لئے اَب وہ لوگ جو متحدہ کے اِس اچھے عمل کو
بھی دبے دبے الفاظ میں ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں وہ اپنی اصلاح کرلیں اور
متحدہ کے اِس اچھے عمل پر اِس کا ساتھ دیں ۔
اگرچہ آج ملک کی ہر بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعت کو یہ بات پوری طرح سے
تسلیم کرلینی چاہئے کہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ کے اربن علاقوں کے علاوہ ملک
کے بیشتر شہروں، گاؤں، دیہات اور اِسی طرح اضلاع میں بھی اپنا
بڑااچھااثررسوخ رکھنے والی ملک کے مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی وہ
واحد جماعت ہے جو ہرلحاظ سے ایک طاقتورترین جماعت کے معیار پر پورااترنے کی
نہ صرف اہلیت رکھی ہے بلکہ اِس نے اپنے قول وفعل اور عمل سے کئی مواقع پر
دوسوفیصد یہ بھی ثابت کردیاہے کہ ملک کے مظلوم عوام کے مسائل کا مداوا صرف
یہ ہی جماعت برسراقتدار آکرکرسکتی ہے۔
یہاں ہماراخیال یہ ہے کہ آج متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نہ صرف برصغیر پاک
وہند کی بلکہ دنیاکی ایک ایسی جماعت گردانی جانے لگی ہے جو ہر معاملے کو
انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹانے اور ملکی اُمور کو ہینڈل کرنے اور اِسے
چلانے کی بھی پوری طرح سے اہلیت رکھتی ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کی بنیاد
ملک کے اُن باشعور لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنے تعلق اور رکھ رکھاؤ اور ڈسپلن
کی وجہ سے نہ صرف کثیر ووٹ بینک رکھتے ہیں بلکہ دنیاکے بارہویںبین الاقوامی
شہرکراچی اور حیدرآباد اور اِسی طرح ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے
پڑھے لکھے لوگوںکی وجہ سے یہ جماعت ملکی اُمور کو بہترطور پرچلانے اور اپنی
بات منوانے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ یہ جماعت ملک کو ترقی اور خوشحالی اور
عوامی مسائل کے فوری حل کے لئے بھی ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے ۔
بہرکیف! اَب کچھ بھی ہے متحدہ کا حکومت سے علیحدہ ہوجانے کے بعد ملک کی
سیاسی فضا میں جو تیزی آگئی ہے اِس کو کم کرنے اور اِسے اِس کی 27جون سے
پہلے والی حالت میں دوبارہ لانے کی اَب ذمہ داری صرف اور صرف حکومت اور صدر
زرداری اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی پر عائد ہوتی ہے کہ اَب اگر وہ یہ
چاہتے ہیں کہ وہ اپنی مدت خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی سے پوری کرجائیں تو
ہمارااِن کو صائب مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد منڈلاتے اُن سازشی عناصر
کی ایک نہ سُنیں اور انتہائی نیک نیتی کے ساتھ متحدہ سے اَب ایک بار پھر
اپنے ہی مطلب کے غرض سے رابطہ کرکے متحدہ کے تما م تحفظات دورکرنے کے علاوہ
اِس کے وہ تمام مطالبات فی الفور مان لیں جن کو یہ دیدہ اور دانستہ طور پر
نظرانداز کرتے رہے ہیں ۔اوراِس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رکھ لیں کہ
اِس بار متحدہ کا اپنا یہ فیصلہ اٹل ہے یہ اِس بار خود سے کوئی مفاہمت نہیں
کرے گی ۔اَب اگرجو کچھ کرناہوگاوہ حکومت کو میڈیاکے سامنے آکرخودکرناہوگا۔ |