یہ مضمون ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
نے تحریر کیا
ازمت شہر کا اسٹیڈیم ترک عوام سے بھرا ہوا تھا۔ ان میں مرد، عورتیں ، بچے
بوڑھے سبھی شامل تھے اور نہایت پرجوش انداز میں نعرہ تکبیر اللہ اکبر،
اسرائیل مردہ باد ، امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ۔ جب ہماری بس
استنبول سے یہاں پہنچی تو اسٹیڈیم کے باہر بھی ایک جم غفیر موجود تھا ۔
کھانے پینے کے علاوہ چند اسٹال کتابوں کے بھی تھے ۔ ایک بہت بڑے بینرپر
فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کی گھوڑے پر بیٹھ کر تلوار لہراتی تصویر بھی
موجودتھی ۔ اسٹیڈیم میں ہم داخل ہوئے تو والہانہ استقبال کیا گیا اور خوش
آمدید کے کلمات ادا کرتے ہوئے اسٹیج سیکرٹری نے جب جماعت اسلامی پاکستان کا
نام پکارا تو فضانعروں اور تالیوں سے گونج اٹھی ۔ یہ ذکر ہے جماعت اسلامی
پاکستان کے وفد کے حالیہ دورہ ترکی کا ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید
منور حسن کی ہدایت پر جماعت اسلامی کے 2 رکنی وفد نے 26 مئی سے یکم جون(
2011 ئ)تک 7 روزہ دور ہ کیا۔ وفد میں میرے ساتھ ڈاکٹر مولاناعطاءالرحمن رکن
مرکزی مجلس شورٰی و سابق ایم این اے مردان شامل تھے ۔ ہم 26 مئی کی صبح
ترکش ایئر لائن کے ذریعے جب استنبول کے ہوائی اڈے پر اترے تو فضا میں خنکی
موجود تھی ۔ترکی میں اگرچہ موسم گرما اتر چکاہے لیکن ان کی گرمیاں بھی
ہمارے فروری اور نومبر کے مہینوں کی طرح خوشگوار ہیں ۔استنبول ایک انتہائی
خوبصورت شہر ہے بلکہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے منفرد شہر
ہے کہ آدھا شہر ایشیا میں ہے اور آدھا یورپ میں ۔ شہر کے 2 اطراف میں 2
سمندر یعنی بحر اسود اور بحر مرمرا ہیںجبکہ آبنائے باسفورس شہر کے بیچوں
بیچ گزرتی اور شہر کو حسن جاوداں عطا کرتی ہے ۔ 7سر سبز و شاداب پہاڑیوں پر
یہ شہر آباد ہے ۔ یہاں مشرق بھی اور مغرب بھی ،سمندر بھی ہے اور پہاڑ بھی ۔
جدید معاشرت بھی اور قدیم تہذیب بھی ۔ وسیع و عریض سبزہ زار بھی ہیں اور
دور تک پھیلی جھیلیں بھی ۔ رومی تہذیب کے آثار بھی ہیں اور قدم قدم پر
موجود اسلامی تاریخ بھی ۔ بلاشبہ یہ مسجدوں کا شہر ہے ۔ ہر موڑ پر ایک
خوبصورت مسجد آپ کی روح کو شاد کام کرتی ہے ۔ ہمارے اس دورے کا مقصد 2 بڑی
کانفرنسوں میں شرکت ہے ۔ ایک کانفرنس ہمارے فلسطینی بھائیوں نے منعقد کی ہے
اس کانفرنس کا مقصد مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں
کی کاوشوں کو مربوط و منظم کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ سال الائتلاف
العالمی لنصرة القدس و فلسطین(International coalition to sport Al-quds
and palestine) کے نام سے باقاعدہ تنظیم قائم کی گئی ۔ اس اجلاس میں امیر
جماعت اسلامی پاکستان محترم سید منور حسن صاحب کی ہدایت پر محترم ڈاکٹر
معراج الہدیٰ صاحب اور محترم مظفر ہاشمی صاحب نے جماعت اسلامی کی نمائندگی
کی تھی ۔ اس سال اس کونسل کا پہلا باقاعدہ اجلاس تھا جس میں جماعت اسلامی
کی نمائندگی کی ذمہ داری ہماری تھی ۔ کانفرنس میں فلسطین ، اردن ، لبنان ،
مصر ، عراق ، متحدہ عرب امارات ، سوڈان ، مراکش ،لیبیا ، بحرین ، ایران ،
ملائیشیا ، انڈونیشیا ، سینی گال ، کویت اور خود ترکی کی اسلامی تحریکوں کے
نمائندوں نے شرکت کی ۔ یہ 3 روزہ کانفرنس 27 تا29 مئی جاری رہی اور اس میں
مسئلہ فلسطین کے حل اور مظلوم فلسطینی بھائیوں سے یکجہتی و ہم آہنگی کے لیے
اہم فیصلے کیے گئے جن میں علمائے کرام ، نوجوانوں ، خواتین کی سرگرمیوں کو
عالمی سطح پر منظم کرنے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عالم اسلام کو4 زون
میں تقسیم کرکے سرگرمیوں کو زیادہ مضبوط ، مربوط اور منظم کرنے کی تجاویز
شامل ہیں۔ ہمارے دورے کا دوسرا مقصد ترکی کے مرد مجاہد استاد نجم الدین
اربکان مرحوم کی سعادت پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے یوم فتح
استنبول میں شرکت کرنا تھا۔ استاد نجم الدین اربکان عالم اسلام کی ایک
تاریخ ساز شخصیت اور ترکی میں احیائے اسلام کی تحریک کے انقلابی رہنما تھے
جو 3 ماہ قبل 27 فروری 2011 ءکو ہم سے جدا ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے
ہیں ۔ ترکی جو کبھی عالم اسلام کا مرکز و محور تھا جس کی خلافت عثمانیہ نے
پوری اسلامی دنیا اس کے جغرافیہ اور اس کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
جس ترکی میں خلافت کو ایک عالمی سازش کے تحت ختم کر کے اور کمال اتاترک کو
ایک نجات دہندہ بنا کر سیکولرزم کی بنیادیں گہری کر دی گئی تھیں اور ایسی
لادینی ریاست بنا دیا گیا جہاں عربی اذان ، عربی رسم الخط ، پردہ اور ہر
اسلامی شناخت کی ممانعت تھی ۔ اسی ترکی میں 1969 ءمیں استاد اربکان نے
نوجوانوں کی پہلی تنظیم ”ملی گورش “قائم کی اور پھر ایک طویل نظریاتی
جدوجہد کر کے بالآخر ترک قوم کے دلوں کو ایک مرتبہ پھر اسلام کی روح کے
ساتھ زندہ کر دیا ۔ سیکولر نظام اور فوجی حکمرانی نے بار بار ان کی جماعت
پر پابندیاں لگائیں خود انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پابند سلاسل کیا تھا ۔
ملی نظام پارٹی پر پابندی لگی تو ملی سلامت پارٹی بن گئی ۔ اس پر پابندی
عائد کی گئی تو رفاہ پارٹی نے جنم لیا پھر یہ جدوجہد کبھی فضیلت پارٹی اور
کبھی سعادت پارٹی کانام اختیار کرتی رہی ۔استنبول جس کا پرانااور معروف نام
قسطنطنیہ ہے ۔ اس کی فتح ایک عظیم الشان تاریخی واقع ہے ۔ یہ شہر رومی
اقتدار کا ایک ہزار سال تک پایہ تخت رہاہے ۔ اس کی فتح کے لیے حضرت عثمان ؓ
،حضرت امیر معاویہؓ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ ، اموی حکمران ہشام بن
عبدالملک اور عباسی حکمران ہارون الرشید کے زمانہ میں مہمات بھیجی گئیں
لیکن 3 اطراف میں سمندر اور شہر کے اردگرد مضبوط تین فصیلوں کی وجہ سے
مہمات کامیاب نہ ہو سکیں ۔ اللہ کریم نے یہ فتح سلطان محمد فاتح کے مقدر
میں لکھی تھی ۔ 29 مئی 1453 ءکو بالآخر استنبول فتح ہوا۔ اس فتح کی یاد کو
عوامی انداز میں منانے کا آغاز آج سے 5 سال پہلے کیا گیا تھا ۔ استاد
اربکان مرحوم کی زندگی میں اس عظیم الشان پروگرام میں جماعت اسلامی کی
قیادت محترم قاضی حسین احمد ، محترم پروفیسر خورشید احمد ، محترم عبدالغفار
عزیز و دیگر شامل ہو چکے ہیں ۔ استاد مرحوم کے بعد یہ پہلا جشن فتح استنبول
تھا اس لیے اس موقع پر عظیم مرد مجاہد استاد اربکان کو خصوصی طور پر یاد
کیا گیا ۔ جب ایک عالم دین نے خوبصورت تلاوت کے بعد ایک طویل دعا میں
اربکان مرحوم کی بلندی درجات کے لیے دعائیں کیں تو ان کی اپنی ہچکیاں بندھ
گئیں اور ہزاروں مردو خواتین پر رقت آمیز کیفیت طاری ہو گئی ۔ اس موقع پر
استاد اربکان کی ہزاروں مربع فٹ پر مشتمل تصویر کی اسکرین رول کی شکل میں
میدان میں لائی گئی اور پھر آہستہ آہستہ اسے کھولا گیا ۔ قریباً آدھا
اسٹیڈیم اس تصویر سے بھر گیا ۔ اسے دیکھ کر حاضرین نعرہ تکبیر بلند کرتے
ہوئے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے ۔ پورے اسٹیڈیم میں جوش و خروش کی ایک
ناقابل تصور صورتحال موجو دتھی ۔ فتح استنبول کو تمثیلی انداز میں بیان
کرنے کے لیے تلوار بردار دستے بھی موجود تھے اور فوجی بینڈ پر جہادی نغمے
بھی ۔ استاد اربکان کی قائم کردہ ملی گورش کے اب قائد پروفیسر اوغوس ہان
اصیل ترک ہیں جبکہ سعادت پارٹی کی قیادت پروفیسر مصطفی کمالک کے پاس ہے ۔
ان دونوں حضرات سے میری خصوصی ملاقات ہوئی اور ان تک جماعت اسلامی پاکستان
کی قیادت کا سلام پہنچایا ۔ ان دونوں حضرات کی تقاریر قدرے طویل تھیں اس کے
بعد مقبوضہ فلسطین کے رہنما استاد رائد عبدالعزیز کا پرجوش خطاب تھا ۔
اگرچہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے نمائندے موجو دتھے لیکن بیرونی
مہمانوں میں سے صرف 5 کے خطابات تھے ۔ استاد رائد کے بعد جماعت اسلامی
پاکستان کی نمائندگی کے لیے مجھے بلایا گیا ۔ میں نے عربی میں خطاب کیا جس
کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ خطاب میں پاکستان اور عالم اسلام کے حالات
اور جماعت اسلامی پاکستان کی کامیابیوں کاذکر کرتے ہوئے کہاگیا کہ سید
مودودیؒ ، حسن البنا ، احمد یاسین اور استاد اربکان کی جدوجہد رنگ لانے
والی ہے اور انشاءاللہ اکیسویں صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی ۔ تقریر کے
دوران اور بعد میں مسلسل تالیوں اور نعروں سے جماعت اسلامی کا خیر مقدم کیا
گیا۔ |