کسی نامور خاندان کا سپوت ہونا ، مال و دولت کا حامل
ہونا، امارت کا سزاوار ہونا ، کسی گدی کا جانشین ہونا، لعل و زرو جواہر کا
مالک ہونا یا صاحبِ ثروت ہونا کسی بھی انسان کے عظیم بن جانے کی ضمانت نہیں
ہوتا ۔ پدرم سلطان بود کے حاملین کو میں نے ہمیشہ رسوا ہوتے ہی دیکھا ہے۔جس
کو شک ہو وہ سری لنکا کے شہر رنگون میں مغلیہ خاندان کے شاہی افراد کو
سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھ لے ۔انگریزوں نے مغلیہ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو
ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ رنگون میں جلا وطن کیا توبے تو قیری اور بے بسی ان
کا مقدر بنی ۔ بد قسمتی سے آج اسی شہر میں مغلیہ خاندان کے کچھ افراد گلیوں
بازاروں میں ِعظمتِ رفتہ کے گیت گا کر اپنے پندارِ نفس کی تسکین کرنے کی جو
کوشش کرتے ہے وہ دوسروں کیلئے مقامِ عبرت ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا
واشگاف اعلان بھی ہے کہ محض خاندانی تفاخر سے اس کائنات میں کوئی اعلی و
ارفع مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ کسمپرسی ، بے چارگی اور بے کسی کا وہ
دور جو ااس شاہی خاندان پر گزرا تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو
چکاہے ۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی شاعری میں اس کیفیت کو بڑے الم انگیز انداز
میں بیان کیا ہے اور دل کے تاروں کو ایسا درد ناک پیراہن عطا کیا ہے جو ہر
حساس دل کو چھو لیتا ہے ۔اپنے اسلاف کے گن گانا اور ان سے ترقی کی راہیں
تراشنا باعث ندامت نہیں بلکہ باعث ِ فخر ہوتا ہے اور یہی سدا سے انسان کا
خاصہ رہا ہے۔اہلِ نظر اسی کو تاریخ کہتے ہیں۔ فردوسی شیرازی کا شاہنامہ
فردوسی اور علامہ اقبال کی آفاقی شاعری اس کی بین مثالیں ہیں ۔ ماضی کی
درخشندہ روایات ،ا سلاف کے عظیم کارناموں، ان کے مشاہدات ، ان کی دانش اور
ان کی بصیرت سے مستقبل کا محل تعمیر کرنے سے ہی قومیں مسنداِ مامت پر
سرفراز ہو تی ہیں۔لیکن یاد رہے کہ محض ماضی پرست ہونے اور پدرم سلطان بود
کی رٹ لگانے اور کاسہِ گدائی دراز کرنے سے قومیں عظیم نہیں بنتیں ۔عظمت و
رفعت اور مقام ِ بلند محض نعروں سے نہیں بلکہ خونِ جگر کے خراج سے تاریخ کے
پنوں پر رقم ہوتا ہے جبکہ عمل سے عاری افراد کا مقدر ناکامی و نامرادی
ہوتاہے ۔بہادر شاہ ظفرکے درد میں ڈوبے دو اشعار (لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے
دیار میں۔،۔کس کی بنی ہے عالمِ نا پائیدار میں ) ۔،۔ (کتنا ہے بد نصیب ظفر
کہ دفن کے لئے ۔،۔ دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں)۔
خاندانی وجاہت،امتیاز اور تفاخر کسی انسان میں معاشرتی آداب، عادات اور
اطوار کی رمق تو پیدا کر سکتاہے لیکن پیکرِ خاکی کو عظیم بننے کیلئے جس
جوہر کی تلاش ہوتی ہے وہ خاندانی تفاخر میں مفقود ہوتا ہے لہذا ایسے باکمال
جوہر کو جس نے انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا ہو انسان کو خود
اپنی ذات کے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے۔ایک ایسی روشنی جس نے صدیوں کا سفر طے
کرنا ہومن کے تیل سے روشن ہو تو تب کہیں جا کر خوشنما ، پر کشش اور دلپذیر
لگتی ہے ۔ دنیا کے عظیم انسان خود اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں بقولِ اقبال
(اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔،۔ سرِ آدم ہے ضمیر ِ ِ کن فکاں ہے
زندگی)عظمت ، دانائی ، دانش، بزرگی ، بصیر ت اور فہم و فراست کسی خاندانی
سلسلہ سے نہیں بلکہ خدا داد صلاحیتوں اور محنتِ شاقہ سے مقدر بنتی ہے۔مغرب
نے اس راز کو جلد پا لیا لہذا وہاں پر انسانوں کو نسلی تفاخر سے نہیں بلکہ
اس کے ذاتی جوہر کی میزان میں تولنے کا چلن عام ہوا تو امریکہ کے سیاہ فام
بارک حسین اوبامہ نے صدارتی مسند پر سرفراز ہونے کا اعزازپایا ۔بقولِ غالب
( آہ کو چائیے اک عمر اثر ہونے تک۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہو نے تک )
۔(ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔،۔ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر
ہونے تک)جس طرح سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے اسی طرح انسان مصائبِ زمانہ
کو سہہ کر ہی عظمت کی مسند کا سزا وار بنتا ہے۔ اس میں قریشی ،گیلانی، ترک
،ساسانی،سلجوقی ،تورانی،مغل،لودھی، غوری، غزنوی، اور ہندی کی کوئی تخصیص
نہیں ہے۔عظمت پر کسی کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے۔اسی لئے مالکِ کون و مکاں
نے آدمِ خاکی کی عظمت و تقدیس کا میدان سب کیلئے یکساں کھلارکھ کر خاندانی
اجارہ داری کی ساری راہیں مسدود کر ڈالیں ۔اسی بات کو ایک شاعر نے انتہائی
دلنشیں اسلوب میں بیان کیا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس شعرکے رومانوی پسِ منظر
کی وجہ سے اس کا پیغام اور گہرائی دھندلا گئی ہے حالانکہ اس شعر میں محنت ِ
شاقہ اور اس کی راہ میں آنے والی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے(انہی پتھروں پہ
چل کر اگر آ سکوتو آؤ۔،۔ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے)
کامیابی خود اپنی زبان سے اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ میری راہ کانٹوں سے
بھری پڑی ہے ، نوکیلے پتھرو ں اور خاردار جھاڑیوں سے اٹی پڑی ہے ،مشکلات سے
گری ہوئی ہے ، رکاوٹوں کے لا متناہی سلسلہ میں جکڑی ہوئی ہے لہذا جس کے
دماغ میں کامیابی کا سودا سما جائے اسے یاد رکھنا چائیے کہ کامیابی کی خاطر
اپنے سفلی جذبات، خواہشات اور احساسات کی قربانی دینی ہوتی ہے ، دوستوں کی
بے ہنگم اور بے مقصد محفلوں سے دستبردار ہو نا پڑتا ہے ،راتوں کی نیندیں
حرام کرنی پڑتی ہیں ،فضولیات زندگی کوترک کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر شبوں
کے گداز اور دنوں کی تپش سے ایک نئی صبح کا ہیولہ تراشا جاتا ہے ۔ ایک ایسی
صبح جس میں انسانی عظمت کا راز پنہاں ہو تا ہے۔یہ سنگِ مر مر سے سجائی گئی
کوئی دلکش ، ہموار اور اجلی راہ نہیں ہوتی جس سے انسان بغیر کسی درد،تکلیف،
کلفت، ایذا ء اورپریشانی سے گزر جائے بلکہ اس کیلئے ذکرِ نیم شبی، دلگیری،
جستجو،تحقیق اور عمل درکار ہوتا ہے۔جھنیں خاندانی تفاخرکا زعم دامن گیر ہو
جائے وہ وقت کے بے رحم پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں۔،۔
۔ ( بر تر از اندیشہ ِ ِ سود و زیاں ہے زندگی ۔،۔ہے کبھی جاں اور کبھی
تسلیمِ جاں ہے زندگی )۔،۔(تو اسے پیمانہِ امروز و فردا سے نہ ماپ۔،۔ جاوداں
پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی )۔
بڑے انسان خاندنی تفاخر سے نہیں بلکہ ذاتی جوہر سے عظیم بنتے ہیں اور پھر
ان کے نام کی عظمت کے باعث ان کا خاندان تاریخ میں تفاخر کی علامت بن کر
سدا زندہ رہتا ہے۔ گلیلیو، فیثا غورث آرشمیدس ، شیکسپیر ، سقراط ، افلاطون
، ارسطو ، امام غزالی، امام رازی،آئزک نیوٹن،آئن سٹائن،کوپر نیکس ،حافظ
شیرازی،سعدی شیرازی،نیطشے، دانتے، روسو، والٹئیر،مولانا روم اور اس طرح کے
انگنت نابغہ روزگار لوگ جو اپنی ذات میں انجمن تھے ان کی علمی و ادبی روشنی
رہتی دنیا تک مینارہ نور کی مانند دنیا کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی
رہے گی ۔ایسے افراد کو تاریخ کے اوراق سے کھرچ دینا یا ان کا نام مٹا دینا
کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ان کاذاتی جوہر ایسا کرنے کی راہ میں
آڑے آ جاتا ہے ۔ جب تک نسلی امتیاز و تفاخر سے جان نہیں چھڑائی جاتی عظمت
کے نشاں نہیں مل سکتے۔اسی لئے دیدہ ور نے کہا تھا کہ (غبار آلود رنگ و نسل
ہیں بال وپر تیرے۔۔ تو اے مرغ ِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا)۔
ایمانداری سے بتائیے کیا اقبال کو دنیائے ادب سے نکال باہر کیا جا سکتا ہے
؟ کیا غالب و میر کے بغیر ادب کا گلستان خوشبو اور مہک سے مالا مال کر سکتا
ہے ؟ ندرت ِ خیال اور حقائق و معارف کا جو جہاں ان کی شاعری میں سمویا ہوا
ہے وہ کسی خاندانی وجاہت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اس جوہر کی بدولت تھا
جو قدرت نے انھیں عنائیت کیاتھا ۔ ان کی عظمت مخصوص خاندانی تفاخر کی وجہ
سے ہوتی تو پھر ان کے خاندان میں بے شمار لوگ عظمت کی مسند کے سزاوار ہوتے
لیکن ایسا نہیں ہے ۔کسی مخصوص خاندان ،نسل ، شہر،علاقے، قبیلے ، ملک اور
مٹی سے نسبت رکھنے کے معنی یہ نہیں کہ وہاں سے نابغہ ہی جنم لیتے رہیں گے
۔یہ عطیہ خداوندی ہوتاہے لہذا وہ جسے چاہے عطا کر دے۔بادشاہ گدا گر اور گدا
گر بادشاہ بن جاتے ہیں۔عظمتِ انسانی کیلئے اقبال کے دو اشعارسنئیے اور وجد
میں آ جائیے۔(یہ پیام دے گئی ہے ،مجھے بادِ صبح گاہی۔،۔کہ خودی کے عارفوں
کا، ہے مقام پاد شاہی)۔،۔ (تیری زندگی اسی سے، تیری آبرو اسی سے۔،۔جو رہی
خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی )۔
|