آخری الفاظ

 بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے انسان چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن موت بر حق ہے، ایک نہ ایک دن اس کا مزہ ہر بشر کو چکھنا ہے۔ لیکن شاید مرنے والے کو مرنے سے قبل ا س کا ادراک ہو جاتا ہے یا پھر وہ قدرتی طور پر ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو اس کے گھر والوں، جان پہچان، عزیز و اقارب، دوست احباب یا پھر اگر وہ کوئی معروف شخصیت ہے تو اپنے مداحوں کے لیے کسی نصیحت یا مشعل راہ کا سامان کر جاتی ہیں۔ انہیں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتاتی یا پھر ان کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ آخری الفاظ کسی مشہور و معروف شخصیات کے ہوں تو یہ صرف اْس کے اہل خانہ کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے مداحوں کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کے چاہنے اور سراہنے والے اسی جستجو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح جان سکیں کہ جسے وہ آئیڈیلاز کرتے ہیں ان کی زندگی کے آخری لمحات کیسے تھے؟ انہوں نے کیا کہا، آخری پیغام کیا دیا؟۔ دنیا کی چندمعروف شخصیات کے آخری لمحات میں انہوں نے آخری الفاظ کیا ادا کئے یا مرنے سے قبل آخری پیغام کیا دیا؟ یہ آخری الفاظ عبرت کاایک نمونہ بھی ہیں کہ دنیا بھرکی آسائشیں مٹھی میں لئے راج کرنے والوں کی موت کے سامنے بے بسی کا انداز کیسا تھا؟

٭ پروفیسر ڈاکٹر لیفٹیننٹ کرنل الٰہی بخش، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل اور بانی پاکستان قائد اعظم کے خصوصی معالج تھے۔ وہ اپنی کتاب ' With the Quaid-i-Azam during his last days میں قائد کے آخری الفاظ سے متعلق تحریر کیا ہے کہ، جب 11 ستمبر 1948ء کو 1 بجکر 15 منٹ پر قائد کی نبض کمزور پڑ کر بے قاعدگی سے چلنے لگی اور جسم کے تمام حصوں پر ہلکا ہلکا پسینہ آنے لگا۔ کورامین (طاقت کا ٹیکہ) دینے کے بعد معالج نے قائد اعظم کو مخاطب کیا ’’ہم نے یہ طاقت کا ٹیکہ لگایا ہے، خدا کے فضل سے جلد اثر کرے گا اور آپ اچھا محسوس کریں گے‘‘۔ جواباً قائد اعظم نے موت سے آدھا گھنٹہ قبل بمشکل ’’میں اب نہیں‘‘ کہا، یہ ان کے مرنے سے قبل آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد کمزوری محسوس ہونے کے باعث آدھے گھنٹے تک خواب میں رہے، بعدازاں ان کا انتقال ہو گیا۔ جب کہ فزیشن ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے مطابق قائد کے آخری الفاظ ’’اﷲ پاکستان‘‘ تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق کمزور آواز میں آخری الفاظ یوں تھے ’’فاطمہٰ خدا حافظ، لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘۔ واضح رہے کہ، قائد اعظم ؒکے آخری لمحات میں ان کے پاس پانچ افراد تھے۔ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ، ڈاکٹر ایس ایم عالم کے علاوہ محترمہ مس فاطمہ جناح اور اسٹاف نرس موجود تھیں۔ ٭ معروف ماہر نفسیات اور تجزیاتی نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے زندگی کے آخری لمحوں میں کہا، ’’واہیات ہے یہ کیا واہیات ہے ‘‘اس کا اشارہ موت کی تکلیف کی طرف تھا۔٭ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنے قتل سے تھوڑی دیر پہلے سکیوریٹی اہل کاروں سے کہا، ’’پریشان مت ہو، ریلیکس……‘‘ ان الفاظ کی ادائیگی کے کچھ ہی دیر بعد وہ خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے۔٭ ایلوس پرسیلے کو، کنگ آف راک این رول کہا جاتا ہے، بلاشبہ اپنے عہد کے مقبول ترین گلوکار تھے، ان کی موت 42 برس کی عمر میں 16 اگست 1977 کو ہوئی، آخری لمحات میں انہوں نے کہا " ٹھیک ہے، میں نہیں کرتا"٭ معروف ہسپانوی مصور پکاسو کے آخری کلمات تھے، ’’پلاؤ……‘‘

٭ شاعر مشرق علامہ اقبال کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوا۔ ان کے آخری وقت کے متعلق تذکرہ نگاروں نے اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش کے بیان کو نقل کیا ہے جس کے مطابق علی الصبح علامہ اقبال کے سینے میں درد اٹھا، علی بخش نے اقبال کو سہارا دیا، ’’اﷲ! میرے یہاں درد ہو رہا……‘‘ کہتے ہوئے اقبال کا سر پیچھے کو ڈھلک گیا اور مشرق کا بلند ستارہ وقت سحر غروب ہو گیا۔٭ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ان کے لبوں پر دم آخرت یہ الفاظ تھے، ’’اﷲ ۔۔پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘

٭ انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، ذوالفقار علی بھٹو سے پھانسی سے قبل وصیت تحریر کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تھا، جس پر انہوں نے مدھم آواز میں جواب دیا کہ، " میں نے کوشش تو کی تھی مگر خیالات بہت زیادہ منتشر تھے، اس لیے ایسا نہیں کرسکا اور کاغذات کو جلا دیا"، یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد وہ پھانسی تک خاموش رہے۔ جب کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا، جب ذوالفقا علی بھٹو کو جیل سے تختہ دار تک لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے نہایت مدھم آواز میں’’ I am sorry for my county, she will be left alone without its leader. ‘‘کے الفاظ ادا کیے تھے۔ چوں کہ یہ انتہائی مدھم آواز میں تھے اس لیے صرف وہ افسر جو ان کے اسٹریچر کے پاس تھے، انہوں نے یہ جملہ سنا اور سمجھا کہ، بھٹو اپنی اہلیہ کے لیے کہہ رہے ہی کہ وہ اکیلی رہ جائیں گی۔ بعدازاں پھانسی کے تختہ پر پہنچ کر ان سے پوچھا گیا کہ، کیا وہ خود پھانسی کا چبوترا چڑھ سکیں گے؟، وہ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ چبوترے کے زینے چڑھ گئے۔ انہوں نے آخری چبوترے پر پہنچ کر اپنا پاؤں زور سے چبوترے پر مارا جیسے یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ یہ واقعی تختہ ہے یا کسی ڈرامے کا حصہ۔ پھر تارا مسیح نے ان کے چہرے پر نقاب چڑھایا اور گلے میں رسی ڈال کر گرہ لگا دی۔ ابھی پھانسی کا لیور کھینچا نہیں گیا تھا کہ انہوں نے تقریباً چیخنے کے انداز میں کہا ’’Finish‘‘ یہ آخری الفاظ تھے، جو ان کے منہ سے نکلے تھے۔ اس وقت دو بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے اشارہ کیا اور پھانسی کا لیور گرا دیا گیا، تختے نیچے گر گئے اور پاکستان کا بہت بڑا لیڈر 11 فٹ گہرے گڑھے میں معلق ہو گیا۔٭ 1965 کی جنگ کے دوران شہید میجر عزیز بھٹی کو مسلسل چھ یوم تک دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بعد کرنل قریشی نے کچھ دیر کے لئے آرام کرنے، کانفرنس کے بہانے سے ہیڈ کوارٹر بلوایا۔ جب میجر عزیز بھٹی پر انکشاف ہوا کہ انہیں کسی گڑبڑ کااحساس ہو اتو انہوں نے کرنل قریشی سے کہا کہ، ’’ سر جس احساس اور جذبے کے تحت مجھے آپ نے بلایا ہے ، اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن مجھے اگر محاذ سے واپس بلا لیا جائے، تو میرے لئے یہ ایک روحانی عذاب ہو گا۔ میرے لئے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ میں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جاؤں۔ میں پچھلے مورچوں پر نہیں جاؤں گا، بلکہ وطن پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کروں گا‘‘۔کرنل قریشی کے بیحد اصرار پر میجر عزیز بھٹی صرف ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد محاذ پر یہ کہہ کر لوٹ آئے کہ، ’’مجھے اب دوبارہ نہیں بلوائیے گا، میں اپنے خون کاآخری قطرہ تک وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر قربان کر دوں گا‘‘۔یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔جس کے بعد 12 ستمبر 1965 کو انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔

٭ سقوط ڈھاکہ سے چند ماہ قبل 20 اگست 1971 کو جب بنگال سے تعلق رکھنے والے فلائٹ لیفٹیننٹ متاالرحمٰن نے شہید راشد منہاس کے تربیتی طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کی تو شہید راشد منہاس نے دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنادیا اور جام شہادت نوش کیا۔ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے سے قبل دوران تربیت فلائٹ لیفٹینیٹ مطیع الرحمٰن ،راشد منہاس کو بے ہوش کر کے ان کا طیارہ بھارتی علاقے میں لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستانی حدود ختم ہونے سے 40 میل دور راشد منہاس ہوش میں آگے اور طیارے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ انہوں نے کنٹرول روم سے رابطہ کرکے انہیں آگاہ کیا کہ، ’’مجھے اغوا کیا جا رہا ہے‘‘۔ یہ شہید راشد منہاس کے آخری الفاظ تھے، جو کنٹرول روم میں ریکارڈ ہوئے۔ جس کے بعد وہ پاکستانی سرحد سے 32 میل کے فاصلے پر سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں طیارہ گر کر تباہ ہوگیا راشد منہاس نے جام شہادت نوش کیا۔

٭ 24 نومبر 2015 کو شہید ہونے والی مریم مختار پاکستان کی پہلی خاتون فاٹر پائلٹ تھی، جنہوں نے شہادت حاصل کی، موت کی آغوش میں جانے سے ایک روز قبل اہل خانہ سے ہونے والی آخری گفتگو میں انہوں نے اپنے والد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’’جب ایک پائلٹ اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر شہادت کو گلے لگاتا ہے تو آپ کو اس کا جسد ِخاکی نہیں بلکہ اس کی راکھ ملے گی‘‘۔٭ 1984 میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی حیثیت سے پولیس فورس کا حصہ بننے والے چوہدری اسلم کا نام شہری پولیس کے لئے نیا نہیں، سٹی پولیس میں 30 سالہ ملازمت کے بعد ایس پی چوہدری اسلم بہت سے لوگوں کے لیے فتح اور کچھ کے لیے نفرت کی علامت تھے۔ بیشتر شہریوں کے لیے وہ حفاظت کا ذریعہ تو کچھ کے لیے مستقل دہشت کی حیثیت رکھتے تھے، تنازعات ان کی زندگی کا اہم جزو رہے لیکن یہ چیزیں بھی مجرموں کو منہ توڑ جواب دینے کے اصول کی راہ میں حائل نہ کرسکیں۔ 1990 کی دہائی میں ہونے والے کراچی آپریشن سے لے کر 2009 میں عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیٹ کے قتل تک، گینگ وار کے ملزموں کے خلاف اپریل 2012 لیاری میں کئی روز ا?پریشن سے لے کر اپنی ہلاکت سے کچھ گھنٹے قبل منگھو پیر میں مطلوبہ دہشت گردوں کے مارے جانے تک ، ایس پی خان میڈیا، پولیس حکام اور سیاسی جماعتوں میں کیب حوالوں سے جانے جاتے تھے۔ کالعدم تنظیم کے ارکان کی گرفتاری کے کامیاب آپریشن کے بعد آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کی جانب سے شہر کے خطرناک ترین افسران میں سے ایک قرار دیئے جانے والے ایس پی خان کرائم سندھ پولیس انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ(سی آئی ڈی) کے انسداد انتہا پسندی سیل کے سربراہ تھے۔ انہیں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں بھرپور عزائم کی کئی بار قیمت چکانا پڑی۔ 2011 میں ان کے گھر پر بارود بھر گاڑی سے دھماکہ کیا گیا، تاہم وہ اور اہل خانہ اس دھماکے میں محفوظ رہے۔ لیکن 9 جنوری 2014 کو لیاری ایکسپرس سے گزرتے ہوئے ان کی گاڑی پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں خوف کی علامت سمجھے جانے والے چوہدری اسلم جاں بحق ہوگئے۔ ان کے آخری کلمات کیبارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، مگر ان کی اہلیہ کے مطابق چوہدری اسلم اپنی آخری گفتگو میں بار بار ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ، ’’میں شہید ہونے والا ہوں‘‘۔

٭ ماہر امور خانہ اور معروف شیف زبیدہ طارق عرف زبیدہ آپا طویل علالت کے بعد رواں برس کے آغاز میں 4 جنوری کو انتقال کر گئیں۔ انتقال سے چند روز قبل اپنے مداحوں کے لییبنائی گئی وڈیو وائرل ہوئی ،جس میں انہوں نے سب کونئے سال کی مبارک بادکے ساتھ اہلِ کراچی کو شہرقائد صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی اور پیغام بھی دیا کہ، ’’جتنا ہو سکے کراچی کو صاف رکھیں تاکہ آنے والے لوگ کہیں کہ کراچی کتنا خوبصورت ہے، ہمیں تعلیم پر توجہ دینے اور گورنمنٹ اسکولز کو ٹھیک کروانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکے ‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ کاش 2018 اتنا خوبصورت آئے کہ ہماری ساری تکالیف دور ہو جائیں۔.

٭ 1999 سے 2013 تک وینزویلا کے صدر رہنے والے ہیوگو شاویز 59 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرنے سے قبل ان کے آخری الفاظ تھے ’’میں مرنا نہیں چاہتا، پلیز مجھے مرنے نہ دو ، مرنے سے بچاؤ‘‘ تھے۔٭ معروف ڈرامانگار جارج برناڈشاہ نے بستر مرگ پر آخری الفاظ کہے ’’مرنا آسان ہے مگر مزاح لکھنا مشکل۔‘‘

٭ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن جنہوں نے امریکی انقلاب میں فوج کی قیادت کی تھی، ان کی موت 1799 میں 67 برس کی عمر میں ہوئی۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جارج واشنگٹن شدید علیل تھے اور جانتے تھے کہ وہ بچ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے اپنی سیکرٹری، ٹوبائیس لیئر سے کہا کہ ’’میں اب جا رہا ہوں، مجھے باعزت طریقے سے دفنایا جائے اور میرے مرنے کے بعد میری لاش کو تین دن سے زیادہ کفنایا نہ جائے، کیا تم سمجھ گئیں، میری موت تکلیف دہ ہے لیکن مجھے جانے کا غم نہیں‘‘۔

٭ ایڈگر پولن انیسویں صدی کے مقبول ترین امریکی مصنفین میں سے ایک ہیں۔ وہ صرف 40 برس جی سکے۔ ان کے آخری الفاظ ’’خدا میری روح کی مدد کرنا‘‘ تھے۔

٭ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ نے مرتے دم کہا ’’ میں خودکو بیمار محسوس کر رہا ہوں ، ڈاکٹر کو بلاؤ……‘‘.

٭ معروف سیاح مار کو پولو کے سفر زندگی کا اختتام یہ کلمات کہتے ہوئے ہوا ’’میں نے جو کچھ دیکھا اس کا نصف بھی بیان نہیں کیا‘‘۔

٭سماجی کارکن مدر ٹریسا کے آخری الفاظ تھے ’’مسیح مجھے آپ سے محبت ہے، مسیح مجھے آپ سے محبت ہے‘‘۔

٭ فرانس کے معروف حریت پسند ادیب والٹئیر کے قریب کھڑا پادری اسے شیطان پر لعنت بھیجنے کی ترغیب دے رہا تھا اس نے پادری کو دم نکلتے نکلتے جواب دیا ’’اے نیک آدمی! یہ وقت نئے دشمن بنانے کا نہیں‘‘۔

٭ 1972 سے 1975ء تک شطرنج کا عالمی چیمپئین رہنے والے بوبی فشر کے آخری کلمات تھے، ’’کوئی بھی شے درد کو کم کرنے میں انسانی لمس سے زیادہ کارگر نہیں۔‘‘

٭ امریکا میں سیاہ فاموں کے شہری حقوق کی تحریک چلانے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو اپریل 1968 میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا آخری لمحات میں انہوں نے کہا، ’’اپنے کھیل کو یقینی بنائیں، میرا ہاتھ پکڑ لو ، بہت اچھا کھیلنا‘‘۔ ٭معروف روسی ناول نگار لیون ٹالسٹائی کے آخری کلمات تھے ’’کسانو! ایک کسان کیسے مرتا ہے؟‘‘۔

٭ لیڈی ڈیانا برطانوی شہزادے چارلس کی پہلی اہلیہ تھیں۔ انہیں پرنسز آف ویلز کی شہزادی ہونے کے علاوہ سماجی و فلاحی کاموں کے حوالے سیبھی جانا جاتا ہے۔ شہزادی ڈیانا اور چارلس کے درمیان علیحد گی کے بعد 31 اگست 1997ء کو جب وہ پیرس میں تھیں تو ان کی کار کا پیچھا پاپارازی کا فوٹو گرافر کر رہا تھا، کار تیز رفتاری کے باعث ہولناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ حادثے کے مقام پر سب سے پہلے پہنچنے والے فائر فائٹر نے بتایا کہ آخری لمحات میں جب ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں تو وہ ’’میرے خدا! یہ کیا ہو گیا؟‘‘ کہتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئیں۔

٭ ’’بیٹ مین‘‘ کے مداح ’’دی ڈارک نائٹ‘‘ کے جوکر کو کبھی کوئی نہیں بھول سکتا، جس کا کردار ہیتھ لیجر نے ادا کیا تھا۔ خودکشی سے قبل اپنی بہن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کیٹی، کیٹی، دیکھو…، سب کچھ ٹھیک ہے، تم جانتی ہو، مجھے بس کچھ نیند کی ضرورت ہے‘‘۔ اس کے بعد ایسی گہری نیند سوئے کہ پھر اْٹھ نہ سکے۔

٭مغربی فلسفے کے بابا آدم قدیم یونانی فلسفی سقراط نے زہر کا پیالہ پینے سے قبل اپنے شاگردوں سے آخری کلمات کہے، ’’کریٹو! ہمیں ایسکلی پئیس کی نذر ایک مرغا کرنا چاہیے، دیکھو! یہ بھول نہ جانا ’’ ایسکلی پئیس علاج اور نجات کے یونانی دیوتا کا نام تھا۔ ان کلمات سے لگتا ہے کہ سقراط روح کے جسم میں قید ہونے کو زندگی سمجھتا تھا اور موت کو روح کی نجات اور آزادی سے تعبیر کرتا تھا، جب ہی اس نے اپنی موت پر شکر بجالانے کیلئے نجات کے دیونا کو نذر چڑھانے کی وصیت کی۔

٭ فلسفے اور تفکر کی بات کی جائے تو چند ایسے نام ہے جو ذہن میں کوند جاتے ہیں۔ ان ناموں میں سے ایک ارسطو کا نام بھی شامل ہے۔ ارسطو کے آخری کلمات اس کے مشاہدے اور طرز فکر کو عیاں کرتے ہیں اس نے دم آخر کہا ’’قدرت نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔‘‘

٭ نابغہ روزگار سائنس داں آئزک نیوٹن نے اس کائنات پر غور و خوض ذریعے جو کارنامے انجام دیئے وہ ناقابل فراموش ہیں، لیکن وہ آخری لمحات میں اپنی ساری جدوجہد کو ان لفظوں میں بیان کرتا ہے ’’مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کے بارے میں مجھ پر کیا کچھ ظاہر ہوا لیکن میں نے تو سمندر کے کنارے کھیلنے والے اس لڑکے کی طرح اس دنیا کو دیکھا جس کے سامنے حقیقت اور سچائی کا سمندر تھا اور وہ ساحل پرسیپیاں اور خوش نما پتھر تلاش کرتا رہا‘‘۔

٭ اسٹیو ارون جنگلی حیات کے ماہر تھے۔ ان کے کیمرہ مین کے مطابق مگرمچھوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے والے نڈر کروکوڈائل ہنٹر یا اسٹیو ،مرنے سے پہلے اپنی بیٹی کے شو کے لئے ایک سیگمنٹ تیار کر رہے تھے اور اس وقت ان کے سینے میں اسٹینگرسے مچھلی کے کانٹے نے چھید کیا تو انہوں نے کہا، ’’میں مر رہا ہوں‘‘ اور پھر مر گئے۔

٭ وولف گینگ موزارٹ عہد قدیم کے مشہور اور ایک با اثر کلاسیکل موسیقار تھے۔ ان کی موت مختصر علالت کے بعد 1791ء میں 35 برس کی عمر میں ہوئی۔ موت سے دو گھنٹے پہلے مکمل طور پر بے ہوش تھے۔ انہوں نے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کہا، ’’موت کا ذائقہ میرے ہونٹوں پر ہے، میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ اس زمین کا نہیں ہے‘‘ یہ ان کے اخری الفاظ تھے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 332669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.