آزاد صحافت کے ’’ہیرو‘‘۔۔؟

گذشتہ چند برسوں میں صحافیوں کو ملنے والی تحریر و تقریر کی آزادی کی مثال ماضی میں کسی بھی آمرانہ یا جمہوریت پسند حکومت میں نہیں ملتی ۔صحافیوں کو ملنے والی اس آزادی کا کریڈٹ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی پہلی تقریر میں ہی آزادی صحافت کی نوید سنائی ۔اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نواز دور میں جیو سمیت جن پرائیوٹ ٹی وی چینلزکو پاکستان سے اپنی نشریات شروع کرنے کی اجازت نہ دی گئی تھیں ،انہیں اجازت دے دی گئی ۔اس فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ ’’جیو‘‘ کو حاصل ہوا ،کیونکہ نواز شریف اور جنگ گروپ کے مابین پیدا شدہ چپقلش کی بنیاد ہی ’’جیو‘‘کی پاکستان سے نشریات کی اجازت نہ دینا تھی ۔اور یہ بات بھی جنرل پرویز مشرف بارہا یہی کہتے کہ ہم تو حکومت میں کبھی ہوں گے یا نہیں ،ہماری طرف سے میڈیا کو دی جانے والی آزادی بہت سے قومی مسائل کو جنم دے گی جس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی ۔بلاشبہ انہی کے دور میں مادّر پدر آزاد صحافت کو فروغ ملا ۔آج ایک کمانڈو جنرل پرویز مشرف کی باتیں رفتہ رفتہ سچ ثابت ہو رہی ہیں ۔

آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ میڈیا سے وابستہ افراد کا جو چاہئے ’’آن ایئر‘‘کردیں اور جو چاہئے اخبارمیں چھاپ دیں ۔صحافت پر قدغن کی باتیں کرنے والے’’ مجاہدین‘‘ اگر ماضی پر نظر دوہرائیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ انہیں اب کس قدر آزادی حاصل ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں حشرات الارض کی طرح نجی سیٹلائٹ ٹی وی چینلز،یو ٹیوب ویب چینلز اور اخبارات پھل پھول رہے ہیں ،جبکہ ماضی میں اس کا کوئی تصور نہ تھا ۔لیکن ایک بات قابل تعریف ہے کہ ماضی کے صحافی قلم کی حرمت سے آشنا تھے ،خبر کے حوالے سے ازخود اخلاقی حدود و قیود کے پابند تھے ۔قلم کی حرمت کو اپنی ماں کی عصمت سے زیادہ پاک سمجھتے تھے ۔لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔المیہ یہ ہے کہ کسی بھی خبر کے حقائق جانے بناء ہی حکومت اور اداروں پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔سچ ہو یا جھوٹ ۔جو دل چاہتا ہے آن ایئر کر دیتے ہیں یا اخبارمیں شہ سرخیوں کے ساتھ چھاپ دیا جاتا ہے۔ناخواندہ لوگ بھی شعبہ ء صحافت سے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے میں پیش پیش ہیں۔صحافت کی ابجد سے ناواقف لوگ ٹی وی چینلز پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا نے میں لگے ہیں۔’’سینہ گزٹ‘‘کے طور پرایسی ایسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ دکھائی جا رہی ہیں کہ انسانی عقل و دانش حیران و ششندر ہے ۔’’بریکنگ نیوز‘‘کیلئے بوگس کہانیاں گھڑی جارہی ہیں اور ’’نیوز فوٹو‘‘ کے لیے از خود لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ اس طرح کیجیے تاکہ نیوز فوٹو بن سکے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاصحافت کا یہی معیار رہ گیا ہے ۔کہ ہم جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کریں اورلوگوں سے داد پائیں کہ بھائی ! کیاکمال کی سٹوری نکالی ہے ۔؟

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک بھر میں صحافیوں اور قلم کاروں کی ایک بڑی تعدادقومی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ہی میدان صحافت میں اپنا نام پیدا کرتی ہے ۔حتیٰ کہ’’ انکشافات بھری رپورٹنگ‘‘ اور’’ ٹی وی ٹاک شو‘‘ بھی انہیں اداروں کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ انہی اداروں کی سرپرستی میں کام کرنے والے بعد ازاں خود کو کوئی خلائی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں ۔اور انہیں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے میں تمام اخلاقی حدود پار کر جاتے ہیں ۔صحافیوں پر تشدد کے پس پردہ کہانی کوئی اور بھی ہو تو یہ لوگ بلا جھجک سارا ملبہ اداروں پر ڈال کر ساری قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے لیے ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔اب تک کئی صحافی حالات کی ستم ظریفی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔سلیم شہزاد،مطیع اﷲ جان ،ابصار عالم کے بعدصحافی برادری کی طرف سے اب اسد طور کو تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے ایک طوفان کھڑ ا کیا گیا ہے ۔حامدمیر سنیئر اینکر ہیں ،وہ اس ایشو پر جس قسم کے بھاشن میڈیا کے ذریعے دے رہے ہیں ۔وہ کسی طور لائق ستائش نہیں ہیں۔بات اسد طور پر تشدد کی ہوئی توموصوف نے نہ جانے کیوں کسی جنرل کو ان کی بیوی کی طرف سے گولی مارنے والے واقعے کو اچھالا ۔کسی بھی تعلیم یافتہ شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے الزامات لگا کر اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرے ۔کسی گھریلو جھگڑے کا تعلق اسد طور کے واقعہ سے جوڑنا سراسر حماقت ہے ۔جبکہ کہاجا رہا ہے کہ اسد طور کو لڑکی کے معاملے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔حامد میرسمیت دیگر صحافی برادری ایک لمحے کو یہ سوچے کہ اگر کوئی بندہ یا ادارہ ان کی فیملیز کی کہانیاں سامنے لانے میں لگ گیا تو انہیں کیسا محسوس ہوگا ۔

حقوق کی جنگ لڑنا انسان کا بنیادی حق ہے لیکن عورتوں کی طرح طعنے مارنا اور بے مقصد الزامات کو ہوا دینا قطعاً نامناسب ہے ۔گوکہ ہماری باتیں بھی صحافی برداری کو ناگوار گذریں گی ۔لیکن صحافیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حقوق کی جنگ میں حقائق کا ادراک کریں ۔حامد میر کی الزامات پر مبنی ساری تقریر سے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ان کی ساری گفتگو بھارت سمیت تمام پاکستان دشمن ممالک کیلئے’’ ہاٹ ایشو‘‘ بن چکی ہے ۔حامد میر ایک لمحے کو سوچیں کہ ان کا طرز عمل ملک وملت کے مفاد میں ہے یا نہیں ۔؟دیکھا جائے تو اداروں کی سرپرستی کے بغیر ان کی اوقات ہی کیا ہے ۔آج اس مقام پر انہیں لانے والے بھی یہی ادارے ہیں ورنہ بڑا بڑا ٹیلنٹ سڑکوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہے کیونکہ یہ لوگ اداروں کے لیے کام کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔مخبر تو مخبر ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں کو مخصوص مقاصد کے حصول تک استعمال کیا جاتا ہے اس کے بعد ’’ٹشوپیپر‘‘کی طرح ضائع کر دیا جاتا ہے ۔ ساری زندگی ان کے لیے کام کرنے والے کوآخری ایام میں یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش!وہ مخبر نہ ہوتا ۔لیکن اس لمحہ پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ۔میلہ اجڑتا ہے تو چند روز لوگ افسوس کرتے ہیں ۔بعد میں سب بھول جاتے ہیں ۔اپنے ضمیر کا سودا کرنے سے پہلے ماضی میں ضمیر فروشوں کے عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے ۔انسان دولت اور زندگی کی آسائشوں کے لیے اپنا آپ بیچتا ہے لیکن اس کی جمع کردہ دولت اس کے ساتھ نہیں جاتی ۔تمام دولت سانپ اور بچھو بن کر ورثاء کی زندگیوں میں زہر گھول رہی ہوتی ہے ۔مرنے والے’’ مردِ مجاہد‘‘ اندھیری قبر سے نکل کر حق اور سچ کی آواز بلند کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا ۔آزادی اظہار رائے ہر انسان کا پیدائشی حق ہے لیکن ہمیں حقوق کی جنگ میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چایئے ۔اسد طور کو انصاف ملنا چایئے لیکن ضرورت اس امر کی ہے ہم صحافیوں کی عزت و وقار کی بحالی کیلئے آگے آئیں ۔قلم کی حرمت کی پاسداری ہمارا مطمع نظر ہونا چایئے ۔ہماری زبان اور قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کی سچائی پر لوگ آنکھیں بند کرکے یقین کریں اور ہمارا کردار و عمل ہماری عزت و توقیر میں اضافے کا سبب بنے ۔اسی میں ہماری بڑائی ہے۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130496 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.