حالیہ عرصے میں چین کی تیز رفتار معاشی ترقی نے جہاں بے
شمار شعبہ جات میں ملکی ترقی کے نئے امکانات سامنے لائے ہیں وہاں سائنس و
ٹیکنالوجی ،انفارمیشن و ٹیلی کمیونیکیشن اور خلائی شعبے میں بھی چین دنیا
کے صف اول کے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ابھی حال ہی میں چین نےچار مزید
سیٹلائٹس خلا میں بھیجے ہیں۔ بیجنگ ۔تھری ، ایچ آئی ایس ای اے۔ ٹو ، یانگ
وانگ۔ ون اور تیانجیان سیٹلائٹس لانگ مارچ۔ ٹو ڈی راکٹ کے ذریعے لانچ کیے
گئے ہیں۔چائنا اسپیس سیٹ کمپنی کے ذریعے تیار کردہ تجارتی ریموٹ سینسنگ
سیٹلائٹ بیجنگ ، وسائل کے سروے ، شہری انتظام ، ماحولیاتی نگرانی اور آفات
سے بچاو کے شعبوں میں خدمات فراہم کرسکتا ہے۔ایچ ایس سیٹلائٹ سمندری
ماحولیات کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ یانگ وانگ مصنوعی سیارہ
وسائل کی تلاش اور تحقیق کے لئے استعمال ہوگا۔ تیانجیان سیٹلائٹ کا استعمال
جامعات میں خلائی شعبے کی تحقیق سے وابستہ طلباء کی تعلیم اور تربیت کے لئے
کیا جائے گا۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین کی لانگ مارچ راکٹ سیریز کا یہ 373
واں مشن تھا۔
اس کے علاوہ چین کے مریخ تحقیقی مشن کے حوالے سے بھی اہم تاریخی پیش رفت
ہوئی ہے ۔چین کا مریخ کے حوالے سے"تھیان وین۔ون" مشن خلائی شعبے میں چین کی
خود انحصاری اور جدت پر مبنی اہم کامیابی ہے۔چین کی خلائی ترقی کی تاریخ
میں "تھیان وین۔ون" مشن کی بدولت پہلی مرتبہ چھ اہم کامیابیاں حاصل کی گئی
ہیں جن میں زمین سے مریخ کی جانب ڈیٹیکٹر کی لانچنگ ، بین سیاراتی پرواز کی
تکمیل ،بیرون ارض کسی سیارے پر ہموار لینڈنگ ، بیرون ارض کسی سیارے کی سطح
پر ایکسپلوریشن ،پہلی مرتبہ 400 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے مشاہداتی و
کنٹرول کمیونیکیشن کی تکمیل اور مریخ سے متعلق براہ راست سائنسی ڈیٹا کا
حصول شامل ہیں۔
عالمی خلائی تاریخ میں "تھیان وین۔ون" نہ صرف چین کی ایک بڑی کامیابی ہے
بلکہ اس مشن کی بدولت پہلی مرتبہ مریخ کے مدار میں داخلہ،لینڈنگ اور آربٹنگ
کے تین اہداف کامیابی سے مکمل کیے گئے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ
سیاروں کے تحقیقی میدان میں چین دنیا کی صف اول میں شامل ہو چکا ہے۔چین کی
جانب سے"تھیان وین۔ون" ڈیٹیکٹر کی مریخ کی سطح پر اتر نے کی سائنسی تصاویر
بھی جاری کی گئی ہیں ۔یہ تصاویر لینڈنگ سائٹ کے نظارے اور مریخ کی
جغرافیائی حالت سمیت دیگر تصاویر پر مشتمل ہیں ۔ ماہرین کے نزدیک سائنسی
تصاویر کی پہلی کھیپ کا موصول ہونا چین کے پہلے مریخ تحقیقی مشن کی کامیابی
کو ظاہر کرتا ہے ۔ مریخ پر لینڈنگ بھی کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے ۔انیس سو
ساٹھ کی دہائی سے اب تک انسانوں نے مریخ سے متعلق کھوج اور تحقیق کے لیے
چوالیس مرتبہ کوشش کی ہے لیکن ان میں سے تقریباً نصف کوششیں ناکامی سے
دوچار ہوئی ہیں۔اس دوران چالیس سے زائد خلائی جہاز لانچ کیے گئے مگر اب تک
ان میں سے صرف آٹھ خلائی جہاز ہی مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوئے
ہیں۔
مریخ مشن کے اہم چیلنج کی راہ میں ایک سات منٹ کا خوفناک مرحلہ بھی درپیش
ہے ۔مریخ کی جانب لاکھوں کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سیارے کی سطح پر
اترنے ،داخلے اور لینڈنگ کے دوران صرف سات منٹ میں رفتار کو بیس ہزار
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتا سے زیرو درجے تک لانا ہوتا ہے۔ ہماری زمین کی
نسبت مریخ کا ماحول کافی باریک ہے جو لینڈنگ کے دوران زیادہ مددگار ثابت
نہیں ہوتا ہے جبکہ مریخ کا شدید موسم بھی اس مرحلے کو کافی دشوار بنا دیتا
ہے۔مریخ سیارے پر ریتلے طوفانوں کی بہتات بھی ایک بڑامسئلہ ہے۔ چین کی جانب
سے اس ضمن میں گزشتہ برس نومبر میں کئی کامیاب تجربات کیے گئے تھے جس میں
رفتار کو کم کرنے سمیت لینڈنگ کے لیے سازگار حالات شامل ہیں۔
چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ خلائی شعبے کی تحقیقی جستجو میں کھلے
اشتراک ،باہمی مفاد اور تعاون کے تحت سائنسی ڈیٹا جاری کرے گا تاکہ تمام
بنی نوع انسان چین کی خلابازی کی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھاسکیں۔ چین نے
یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ مستقبل میں بڑے ایرو اسپیس پروجیکٹس احتیاط
کے ساتھ عمل میں لائے گا، خلابازی کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھائے گا
تاکہ چین کو ایرو اسپیس اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایک طاقتور ملک
بنانے میں خدمات سرانجام دی جاسکیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ اس وقت چین اور
پاکستان کے درمیان بھی خلائی شعبے میں تعاون جاری ہے جس سے مستقبل میں
پاکستان بھی وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھا سکے گا۔
|