وہ پنجابی کے محاورے ہیں:۔
ا۔ آگ لینے آئی اور گھر کی مالکن بن بیٹھی۔
۲۔بیٹھے کی جگہ دو سونے کی ہم خود بن لیں گے۔
صیہونی اسرئیل نے ان محاوروں پر بھر پور عمل اور استفادہ کیا ۔
اپنے محسن اور میزبان فلسطینیوں کی زمینوں پر نہ صرف قبضہ جمایا بلکہ وقت
کے ساتھ ساتھ اپنے قبضے کو مضبوط کیا ۔ اپنے دفاع اور عسکری قوت کو استحکام
دیا۔ دنیا جہاں میں بکھرے بے گھر اور بے سروسامان یہودیوں کو یہاں لا کر
بسایا اور حسب ضرورت مار ڈھار اور چھینا جھپٹی کے ذریعے جب جب جتنی زمین
اور مزید رقبہ چاھا وہ ساتھ ملایا۔
اب اگر مجودہ جنگ بندی ہوئی ہے تو امت مسلمہ کی طرف سے یہ شرائط ہونا چاہیں
تھیں:۔
ا۔ بجر سے نہر تک کل زمیں فلسطین کی ہے۔ اس پر صہونیوں کے کوئی مالکانہ
حقوق نہیں۔
۲۔ یہودی بطور پناہ گزین آئے تھے ان کا وہی سٹیٹس رہے گا۔
۳۔اسرائیل فلسطین سے نکل جائے اور جب تک اس کا کوئی حتمی حل نہیں نکلتا اس
وقت تک وہ 1948 والی حیثیت پر محدود رہے۔
۴۔ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقے خالی کرےاور جن فلسطینوں کو بے دخل کیا گیا
تھا انکی زمینیں انکو واپس دی جائیں۔
۵۔ علاقہ میں UN امن فوج کو تعینات کیا جائے۔ جو غیر جانبداری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے امن و سلامتی کو یقنی بنائے۔
۶۔ بین الاقوامی ترقیاتی فنڈ سے غزہ اور تمام جنگی متاثرہ علاقہ میں
انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر کا آغاز کیا جائے یہاں تک کی پورا علاقہ
اپنی پہلی حالت اور شناخت پر واپس آجائے۔
۷۔ بین الاقوامی عدالت انصاف ICJ اور ICC میں اسرائیل پر جنگی جرائم کے
مقدمات قائم کئے جائیں اور OIC اس کی پیروی کو یقینی بنائے۔
۸۔ پہلی ترجیح میں متاثرہ علاقہ میں ہسپتالوں اور مرکزِ صحت کو آباد کیا
جائے زخمیوں کو ریڈ کراس اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے فوری طبی
امداد اور ممکنہ سہولیات پہنچائی جائیں۔
۹۔ تمام شہٰدا معذوروں اور زخمیوں کو معاوضہ ادا کیا جائے اور یہ سارے
اخرجات اسرائیل بطور جنگی تاوان برداشت کرے۔
اگر پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشن جرمنی کو وارسلیز معاہدہ کے تحت اس
کو غیرمسلح کر سکتی ہے اس سے مفتوحہ و مقبوضہ علاقے واپس کے سکتی ہے۔ جنگی
تاوان کے سکتی ہے تو آج کی UNO عالمی دہشت گرد اسرائیل کو عدل کے کٹہرے میں
کیوں نہیں لا سکتی؟
مگر افسوس یہ سب دل کی ارمان ہیں جو صرف اس صورت میں ممکن تھا اور ہے جب:۔
۱۔تمام مسلم ممالک بطور قوم متحد ہوتے۔انکی ایک پہچان اور آواز ہوتی۔
۲۔ ترکی مصر عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم نہ کیا ہوتا۔
۳۔ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تجارتی اقتصادی اور دفاعی تعلقات
اور معاہدات نہ ہوٹے۔
۴۔ سعود و یہود گٹھ جوڑ نہ ہوتا۔
۵۔ مسلمان ممالک خصوصاً عرب اپنی رنجشیں کینہ اور دشمنیاں نبھانے کے لئے
اسرائیل کے تلوے نہ چاٹ رہے ہوتے۔
اب بھی موقع ہے ہمیں یہ طوق غلامی اتار پھینکنا ہو گا ۔ آپس کی رنجشیں بھلا
کر حکم قرآنی کی بجا آوری میں امت واحدہ بننا ہو گا۔ قبلہ اول کو وہ عزت
دینا ہو گی۔ بات بڑی دور تک نکل جائے گی ہمیں تاریخ سے سبق لینا ہو گا۔ اگر
مسجد نبوی ﷺ میں گھوڑے نہ باندھے گئے ہوتے تو آج مسجد اقصیٰ کا احترام
ہوتا۔ اور اگر غلاف کعبہ اور چھت نہ جلائی ہوتی تو کس کی جرآت تھی کہ ماضی
میں قبلہ اول کو آگ لگائی جاتی۔
مگر افسوس اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
مسلمانان عالم نے اب بھی اگر ذاتی مفادات کواجتماعی قومی مفادات پر ترجیع
نہ دی اور ہوش کے ناخن نہ لیئے اور زبانی جمع خرچ اور صرف لچھے دار تقاریر
کے نجائے عملی اقدامات نہ کئے تو یاد رکھیں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
آئیے مل کر عہد کریں کر ہم نے ہر سو "عظیم تر اسرائیل " کا خواب چکنا چور
کرنا ہے۔ یاد رہے یہ وہ دہشت گرد ملک ہے جس ے قومی ترانے سے لے کر پارلیمنٹ
کی دیوار تک دہشتگردی اور توسیع پسندی کے پیغامات سے لبریز ہے۔ اور مجھے
حیرت ہے جن مسلم ممالک بشمول مصر اپنے ممالک میں اس قومی ترانے کی سر ساز
کو کیسے برداشت کرتے ہیں۔شائد یہ موسیقی انہیں کچھ زیادہ ہی مست و مدہوش کر
گئ ہے۔
|