سوشل میڈیا گروپ’کراچی عروس البلاد‘ کی ادبی بیٹھک
28مارچ2021 ء اتوارکی شب زاہد علی خان صاحب کی رہائش گاہ واقع گلستان جوہر
میں منعقد ہوئی۔ علم و ادب کے روشن ستاروں کی یہ تیسری ہنستی مسکراتی،
خوشیاں بکھیرتی، ایک دوسرے پر خلوص و محبت کے پھول نچھاور کرتی محفل تھی جس
میں مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ تقریب کا اختتامی کتابوں کے تحائف
دینے کی رسم تھی جس میں مخصوص مہمانوں کو کتابوں کے تحائف بھی دئے گئے۔
تحائف وصول کرنے والوں میں خوش قسمت ہم بھی تھے۔شہر کراچی کی ایک علمی
وادبی جوڑی اویس ادیب انصاری اور ان کی بیگم شگفتہ فرحت صاحبہ کی تصنیف
”تذکرہ شخصیاتِ بھوپال“ سے ہمیں نوازا گیا۔اس تذکرہ پر بھی ہم اپنی بساط
بھر تحریر قارئین کی نذر کر چکے ہیں۔ ایک کتاب ایک نوجوان صحافی فیض اللہ
خان کی تھی۔ ”ڈیورنڈلائن کا قیدی“۔ یہ مصنف کے افغانستان کی ننگر ہار جیل
میں گزارے پُر ابتلا ء ایام کی کہانی ہے۔اس پر بھی اظہاریہ لکھا جاچکا۔
محمد مرتضیٰ مجید صاحب جو تقریب میں بھی شریک تھے، چلتے چلتے اپنی والدہ
محترمہ نور جہاں بیگم نورؔ کا شعری مجموعہ ”لمحات نور“ عنایت فرمایا۔ انہوں
نے یہ بھی فرمایا کہ ان کی والدہ مرحومہ اپنی ڈائری میں اپنے کہے ہوئے
اشعار لکھ لیا کرتی تھیں، انہوں نے اپنی زندگی میں اپنا کلام طبع کرانے کی
خواہش کااظہار نہیں کیا۔ 2000ء میں ان کے انتقال کے بعد سعادت مند بیٹے نے
اس ڈائری کا مطالعہ کیا جس میں ان کی والدہ کا نعتیہ کلام، ساتھ ہی سلام،
منقبت، قطعات اور غزلیں بھی تھیں۔ ڈائری میں محفوظ کلام کو کتابی صورت میں
منظر عام پر لانے کی خواہش پیدا ہوئی، 2019 میں مرتضیٰ صاحب کی یہ خواہش
پوری ہوئی اور محترمہ نور جہاں بیگم جو نورؔ تخلص کیا کرتی تھیں کا مجموعہ
’لمحات ِ نُور‘منظر عام پر آگیا اور اس وقت میرے پیش نظر ہے۔
نور جہاں بیگم نورؔ کے کلام کا مطالعہ سے آشکار ہوتا ہے کہ شاعرہ موصوفہ
اصناف ِشاعری کے من جملہ رموز اوقاف، تفہیم و تعبیر سے مکمل طور پر آگاہ
تھیں۔ وہ ولیم ورڈس ورتھ کی طرح شاعری کو تمام علوم کی خوشبو تصور کرتی
تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کہے ہوئے اشعار میں ان کے جذبات و احساسات کی
خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ پُر اثر کلام ہی شاعری کہلاتا ہے،محترمہ نور ؔ صاحبہ
کا کلام پُر اثر ہے۔ دیکھئے ان کی ایک غزل کا یہ شعر ؎
اب تو رونا میری عادت ہوگئی
روتے روتے کم بصارت ہوگئی
دہلی، لکھنؤ کے بعد برصغیر علاقے ایسے تھے جہاں کی شخصیات نے شعر و ادب کے
میدان میں کمال مہارت سے قابل ذکر ادب تخلیق کیا اور شاعری و نثر کے معیاری
مجموعے سامنے آئے۔ ان میں ریاست راجستھان کے راجپوت، حیدرآباد دکن، رائے
بریلی، یوپی کا ضلع مظفر نگر، آگرہ، الہٰ آباد، علی گڑھ، بہار شریف، ملیح
آباد، مرادآباد، گورکھپور، امروہہ، اکبر آباد، موھان، بھوپال، سلطان پور کے
علاوہ کا ضلع بدایوں ایک ایسا مردم خیز سرزمین تھی کہ جس نے متعدد اہل دانش
کو جنم دیا جنہوں نے دنیا میں شاعری کی دنیا میں نام کمایا، مقبول اور
محترم جانے گئے۔ نورجہاں بیگم نورؔ نے ضلع بدایوں کی مردم خیز تحصیل داتا
گنج میں جنم لیا۔ یہی وہ معروف سرزمن ہے جہاں فانیؔ بدایونی، بیخودؔ
بدایونی، محشر بدایونی، شکیل بدایونی جیسے قادر الکلام شاعروں کو نسبت ہے۔
شاعری کو جذبات کی زبان اور افکار کی ترجمان کہا گیا ہے۔ شعر گوئی خداداد
صلاحیت ہے جو ہر کس نہ کس کو نصیب نہیں ہوتی۔ بے شمار شعراء اپنی مہارت
اورصلاحیت کو بروئے کار لاکر شعر کہہ لیتے ہیں لیکن جن میں خدادا صلاحیت
کارفرماہوتی ہے ان کے اشعار میں مختلف شاعرانہ حسن اور فنی خوبصورتی الگ ہی
سے جھلکتی نظر آتی ہے۔ ان کا رجحان سر کار انبیا ء رسول مقبول ﷺ کی شان
اقدس میں عقیدت کے پھول پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ شاعرہ موصوفہ نے حمد باری
تعالیٰ سے آغاز کیا ہے، رسول مقبول ﷺ کی شان میں نعت مقبول ﷺ کا نذرانہ پیش
کرنا لازمی امر ہے نور جہاں بیگم نورؔ شاعری کے رموز اوقاف اور علمِ عروض
سے بَہرہَ مَند اور صاحب اقبال ہیں۔ ان کے اشعار کے بارے میں حسرتؔ کا یہ
شعر منطبق آتا ہے۔
شعر در اصل ہیں وہی حسرتؔ
دل میں سنتے ہی جو اُتر جائیں
نور جہاں بیگم نورؔکے اشعار پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتے ہیں۔پیش نظر
مجموعہ جیسا کہ پہلے کہا کہ حمد، نعت رسول مقبولﷺ، منقبت، سلام حضرت امام
حسین ؓ، نوحہ مفتی احمد یار خان، نذرانہ عقیدت، مناجات، قطعات، غزلیات اور
دیگر کلام شامل ہے۔پروفیسر منظر ایوبی نے اپنے پیش لفظ میں لکھا کہ ”سچی
بات یہ ہے کہ‘لمحات نور‘ موضوعاتی اعتبار سے ایک ایسا شعری گلدستہ ہے جس
میں رنگ رنگ کے پھول اپنی بہاریں دکھارہے ہیں۔ موضوعات کی رنگا رنگی ہمہ
گیری اور لوقلمونی کی ایسی مثالیں بہت کم شاعرات کے مجموعوں میں میری نظر
سے گزررہی ہیں“۔ نور جہاں بیگم نورؔ کے مجموعہ کلاسے منتخب اشعار:
مناجات:
خدا وندا طاہر یہ سینہ ہو میرا
شریعت پہ چلتا قرینہ ہو میرا
سلام:
رنج و غم کافور کردو
ہجر کے دن دور کردو
دل کو رشکِ طور کردو
نورؔ کو پُرنور کردو
نعت رسول مقبول ﷺ
اگر حضوری میں اپنی آقا کنیز کو باریاب کردو
فزوں ہو رتبہ جہاں میں اس کا زمانے میں انتخاب کردو
داغ الفت نورؔ دل میں ماہ کامل ہوگیا
اب ترا نام تخلص تیرے قابل ہوگیا
الہٰی نورؔ کا دونوں جہاں میں پار کر بیٹرا
زباں پر نام ہو اس کے محمد ؑ کا م تو دم نکلے
قطعہ
رات کو دیکھے تھے میں نے دوستارے پاس پاس
ایک روشن تھا سراسر ایک مدھم اور اداس
ایک ہی آغوش میں دونوں پلے قدرت تیری
ایک کو شوکت ہو حاصل ایک کی قسمت ہو یاس
نور جہاں بیگم نورؔ نے اپنے والداور والدہ کے لیے، بیٹے عبدا لرشید خان
محمد میاں کے انتقال پر اپنے دلی دکھ و غم کا اظہار کیا، راشد منہاس شہید
کی یاد میں‘فرزند وطن‘ کے عنوان سے نظم کہی، دیکھئے ایک شعر ؎
اے شہید ملک وملت! مرحبا صد مرحبا
نازشِ اہلِ وطن جانِ حیا! کانِ وفا
سازشوں کے بالمقابل اے مرے عالی دماغ
شاہراہ زندگی پر تو بنا روشن چراغ
نور جہاں بیگم نورؔ کی غزلیات سے اقتباس ؎
عمر بھر دنیا میں گم ساتھی رہا
رنج کی خوگر طبیعت ہوگئی
کوئی تو بات ہے اے نورؔ ورنہ
ترے اشعار میں درد و اثر کیوں
نور جہاں بیگم نورؔ نے گلدستہ تہنیت، ہدیہئ تہنیت اور نگمہ تہنیت کے عنوان
سے سہرے بھی کہے۔ بتقریب شادی خانہ آبادی فضل مجیب کے لیے کہا گی سہرے کا
ایک شعر ؎
پیام راح دلیل شادی
نشانِ فضل مجیب سہرا
نور جہاں بیگم نورؔ کے مجموعہ پر لکھنے میں تاخیر ہوئی،کوئی تین ماہ
گزرگئے، وجوہات نامعلوم، لکھنے والے کبھی کبھی عجیب سے مشکل میں گرفتار
ہوجاتے ہیں، کہ کوشش اور ارادے کے باوجود لکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور وقت
گزرتا رہتا، تاہم تاخیر پر شاعرہ مرحومہ کے صاحبزادے مرتضیٰ مجید خان صاحب
سے معزرت خواہ ہوں۔ (16جون 2021ء)
|