سپریم کورٹ کے فیصلے کے خطرناک مضمرات ۱

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام*

ڈالردینے والے ممالک اور ادارے اپنی پالتو این جی او، ان کے خوشہ چینوں اور دیگر چہیتے ’ریاستی افراد‘ کو گھیرگھار کر اس نقطے پر لے آئے ہیں جس کا نتیجہ رہی سہی، مذہبی ہم آہنگی کے انہدام کی شکل میں نکل سکتا ہے جسے کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔ کیا محترم جسٹس گلزاراحمد صاحب یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ معصوم اقلیتی آبادیوں کے جان ومال کو داؤ پر لگانے کی تیاریاں مکمل ہیں؟

سپریم کورٹ کا گزشتہ فیصلہ اور موجودہ صورتِ حال
پہلے یہ وضاحت بشکل معذرت کہ گزشتہ مضمون میں شعیب سڈل کمیشن کی تشکیل ۲۰۱۴ء کے فیصلے میں مذکور ہوگئی۔ یہ کمیشن ۲۰۱۸ء میں قائم ہوا تھا۔ رمضان میں وقت کی کمی کے باعث مضمون کے مشتملات میں نے اپنے ایک محترم ساتھی کی مدد سے جوڑے تھے جس پر آخری نظر نہ ڈالی جاسکی۔ میں اسلام آباد اور ساتھی لاہور میں تھے اس لیے چوک ہوگئی۔ معذرت قبول ہو۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اپنے فیصلے کے ذریعے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی راہ میں جوکانٹے بوگئے ہیں وہ تو ہمیں اپنی پلکوں سے چننا پڑیں گے لیکن دل سے دُعائیں موجودہ جسٹس صاحب لیے نکلتی ہیں جنھوں نے مسلمانوں اور اقلیتی آبادی دونوں کے لیے کوئی قابلِ قبول راہ نکالنا ہے ۔ یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اس مضمون سے انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ جو یک طرفہ منظرکشی ۲۰۱۴ء کے فیصلے میں ملتی ہے ، حقائق سے اس کا معمولی سا تعلق نہیں ہے ۔ جسٹس جیلانی اَزخودنوٹس کے تمام فریقوں کو دل جمعی سے سن لیتے تو آج موجودہ محترم چیف جسٹس کو وہ افراتفری نہ دیکھناپڑتی اورنہ ان کے لیے وہ مشکلات کھڑی ہوتیں جوآج چندسماعتوں کے بعد ملک بھرمیں نظرآرہی ہیں۔

۲۰۱۴ء کے فیصلے نے ریاستی اداروں میں بغاوت کی سی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ سڈل کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کے متعلقہ ادارے کو بھیجی کہ نصاب سے ’اسلام ‘ نکالا جائے تو پنجاب ہی نہیں ملک بھر میں کھلبلی مچ گئی۔یہ ’حکم نامہ‘ ریاستی اندازِ کار سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ نصاب میں تبدیلی کی منظوری کابینہ دے سکتی ہے جس کی مددکے لیے علما کا بورڈ ہے ۔ ادھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سڈل کمیشن کو یکسر مسترد کردیا۔ سماجی رابطے پر تو الامان والحفیظ۔ ایک وڈیو کلپ دیکھا۔ مقرر فن خطابت سے سامعین کو مسحورکرکے کہتا ہے : ’’سوچئے کہ اب ہم ۹۹ فی صدمسلمانوں کی زندگی کے فیصلے ایک فی صد اقلیتیں کریں گی؟‘‘علیٰ ہذاالقیاس، ملک بھر میں آگ سی لگی ہوئی ہے ۔

سپریم کورٹ کے کرنے کا پہلاکام
لیکن عنوان کے مفہوم میں درخواست پنہاں ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تعلیم جیسے اہم موضوع پرجسٹس جیلانی نے وہ فیصلہ دیا جس میں مسلمانوں کاکوئی ماہرتعلیم یا مذہبی راہنماشریک نہیں تھا۔ فیصلے کا محاکمہ توآیندہ سطورمیں ہے لیکن اولیں درخواست یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب اس گزشتہ فیصلے پرنظرثانی کے لیے دوتین ججوں پر مشتمل بنچ نہ بنائیں بلکہ کم از کم دس ججوں پر مشتمل بنچ اس ہولناک فیصلے کو بغور دیکھے ۔ یہ کوئی ایسا معمولی فیصلہ نہیں ہے جسے مسلمان ٹھنڈے پیٹوں سہ لیں گے ، ہرگز نہیں۔

نصاب میں کیا رکھا جاتا ہے اور کیا نکالاجائے گا،یہ اہم نہیں۔ سپریم کورٹ محترم و مقدس ادارہ ہے جس کا فیصلہ تمام ملک کے لیے واجب الاطاعت ہے ۔ درخواست یہ ہے کہ سپریم کورٹ تعلیم اور مذہب سے متعلق تمام متعلقہ فریقوں کو بلاکر سن لے ۔ کیا یہ کام ۲۰۱۴ء میں ہوا تھا؟ نہیں چیف صاحب یہ کام نہیں ہوا ،لہٰذا آپ بنچ بنا کر اخبارات،ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی اور بذریعہ اشتہار تعلیم سے متعلق افراد اوراداروں کواپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کو کہاجائے ۔ ان میں ایچ ای سی،جامعات کے وائس چانسلر، اساتذہ تنظیمیں، والدین کی انجمنیں، صوبائی اور وفاقی تعلیمی محکمے اور دیگرمتعلقین شامل ہیں۔ اقلیتوں کے ٰ نمایندہ افراد بھی اپنا موقف پیش کریں، پھرفیصلہ ہو۔

آیندہ سطور میں وہ شواہد پیش خدمت ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ نصاب میں اسلام کاوجود یاعدم وجود کوئی مسئلہ نہیں تھا،نہ ہے ۔ اقلیتی نمایندوں کا نقطۂ نظر پڑھنے کے بعد آپ پرواضح ہوجائے گا کہ انہیں نصاب پر اعتراض نہیں بلکہ اس مہم کی پشت پر غیرملکی سرمایے سے چلنے والے ادارے اور ان کے افرادِکار ہیں جو ملک میں افراتفری کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کوشاں رہتے ہیں۔ یہ عالم فاضل لوگ اپنی ان لامحدود نفسانی خواہشات کے اسیر ہیں، جنھیں مضبوط کرنسی ڈالر پورا کرسکتی ہے ، لاغر پاکستانی روپے میں اتنی جان نہیں کہ وہ ان کی خواہشات کا ساتھ دے سکے ۔ لیکن پہلے جسٹس جیلانی کے فیصلے کا محاکمہ!

جسٹس جیلانی کے فیصلے کے اہم نکات
جسٹس جیلانی کے اس فیصلے کے نمایاں فریقوں اور ان کی استدعا کا مختصر بیان یوں ہے ۔ نمایاں افراد میں ہندو، مسیحی اور سکھ مذاہب کے سائلان اور نمایندہ افراد، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل،یا ان کے نمایندے تھے ۔ مسلمانوں کے کسی نمایندے کا ذکر فیصلے میں نہیں ملتا۔ قضیے کا آغاز پشاور میں مسیحی چرچ پر حملے سے ہوا۔ جسٹس ہیلپ لائن نامی این جی او نے چیف جسٹس سے اَزخود نوٹس کی اپیل کی، جولیا گیا۔ کچھ ہندو درخواستوں کو بھی شامل کیاگیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جائے ۔ ڈان کے اداریے کی بنیاد پر کیلاش کا ذکر ہوا کہ انھیں مذہب بدلنے پر مجبورکیاجارہا ہے ۔ ہندوشادیوں کی رجسٹریشن کا مسئلہ تھا۔ اقلیتی آبادیوں کے لیے ملازمتوں میں کوٹے کا ذکر بھی آیا۔

چند اُمور انتظامی افسران کی وضاحتوں سے نمٹا دیئے گئے ۔ اس اَزخود نوٹس میں نہ تو نصابِ تعلیم کا ذکر تھا، نہ محکمہ تعلیم کاکوئی نمایندہ پیش ہوا۔ یہ امر باعث ِتعجب ہے کہ فیصلے میں جسٹس جیلانی اقلیتی آبادیوں یامسلمانوں سے اندھا انصاف کرنے کے بجائے این جی او اور ان کے نمایندوں کے وکیل کاکردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ لہذا لازم ہے کہ فیصلے میں سے ایک ایک نکتہ لے کرفیصلے کامحاکمہ کیاجائے ۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کی نسلوں کی بربادی کاسامان ہے ۔

اقلیتی عبادت گاہوں کاتحفظ
فاضل جسٹس جیلانی اس سلسلے میں اتنا آگے نکل گئے کہ پی پی سی کے سیکشن ۲۹۵- بی یا ۲۹۵-سی کو تو ایک طرف رکھیں، انگریزی عہد کے سیکشن ۲۹۵ پر بھی انھیں اطمینان نہیں تھا۔ ملاحظہ ہو: ’’عدالت کو حیرانی ہوئی جب فاضل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ اقلیتی عبادت گاہوں کی بے حُرمتی تعزیراتِ پاکستان کے تحت نہ تو بے حُرمتی ہے اور نہ جرم۔جب دفعہ ۲۹۵ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ نہ تھا کہ عبادت گاہوں کی بے حُرمتی چاہے غیرمسلموں کی کیوں نہ ہو، جرم ہے ‘‘۔ سوال کسی اور تناظر میں پوچھا جارہا تھا لیکن آگے چل کر اسی تناظر میں حکم نامہ ملاحظہ ہو: ’’ایک مخصوص پولیس فورس تشکیل دی جائے جسے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی پیشہ ورانہ تربیت دی گئی ہو‘‘۔

یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ پولیس فورس قائم کرنا وفاق کے ذمے ہے یا صوبوں کے ۔ اور سیکشن ۲۹۵ میں کیا خرابی ہے جو بلاتفریق مذہب تمام عبادت گاہوں کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے ۔ کیا چیف جسٹس جیلانی کو وہ سیکڑوں ہزاروں مساجد نظر نہیں آتیں جو اس جنگ میں برباد ہوئیں تو ان کے لیے کیوں نہ ایک الگ فورس بنائی جائے ؟ خواتین کے خلاف بڑھتا ہوا مبینہ گھریلو تشدد کس کے علم میں نہیں ہے ، اس کے لیے الگ فورس کیوں نہ بنائی جائے ؟ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج میں ذرا غفلت ہوجائے تو لواحقین طبّی عملے کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں تو ہسپتالوں کے لیے کیوں الگ فورس نہ بنائی جائے ۔یہاں تمام عبادت گاہوں کے لیے عدالت کا اتنا حکم کافی تھا کہ صوبے اس پرگہری نظررکھیں۔ معلوم نہیں اقلیتوں کے قرب کی خاطر مظلوم مسلمانوں کو چھوڑ کر جسٹس جیلانی عدالتی حدود سے نکل کر انتظامی حدود میں کیوں داخل ہوئے ؟ اُمید ہے کسی جامعہ کا کوئی محقق اس نکتے کو موضوع تحقیق بنائے گا۔

اقلیتوں کا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق
جسٹس جیلانی اقلیتوں کو تبلیغ کا مطلق حق دیتے ہیں، ملاحظہ ہو: ’’یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ تبلیغ کا حق صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کہ وہی اپنے مذہب کی تبلیغ کریں بلکہ یہ حق دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کو اس کی تبلیغ کریں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تبلیغ کریں‘‘۔

دوسری طرف آئین کا آرٹیکل ۲۰ اس بارے میں واضح ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:
Subject to law, public order and morality every citizen shall have the right to profess, practice and propogate his religion.
قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے اندر رہ کر ہرشہری کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے ، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

کیا جسٹس جیلانی واقعی اپنے اس فیصلے کے مضمرات سے واقف نہیں تھے ۔ آبِ زر میں لکھنے کے لائق اس فیصلے پر اگر اقلیتوں نے عمل شروع کر دیا تو انھیں یاد دلانا بے محل نہ ہوگا کہ آئین کے انھی الفاظ کے ساتھ ۱۹۷۴ء میں ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں نے اسی تبلیغی حق کے استعمال میں جب اپنے کتابچے تقسیم کیے تھے تو ملک میں کیا آگ لگی تھی؟ کتنے لوگ جان سے گئے تھے ؟ اور آئین میں پاکستانی قوم نے کیا متفقہ ترمیم کی تھی؟

جسٹس جیلانی! دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جواپنی بنیاد کے خلاف تبلیغ کی اجازت دیتا ہو اور پاکستان کی بنیاد اسلام ہے ۔ مذہب، بنیاد، نظریے کو تو ایک طرف رکھیں، ہٹلرکے ہاتھوں، یہودیوں کی اجتماعی نسل کشی (Holocaust) کے انکار کی تبلیغ پر اسرائیل ہی نہیں، ڈیڑھ درجن دیگرممالک میں بالفاظِ صراحت سزائیں دی جاتی ہیں۔ متعدد ممالک میں ڈراوے والے دیگر قوانین موجود ہیں۔ ۱۹۸۷ء تا ۲۰۱۵ء کے عرصے میں چوٹی کے سیاست دانوں، محققین اور پروفیسروں کوہولوکاسٹ کے خلاف صرف تحقیق (تبلیغ نہیں) کرنے کے جرم میں کڑی سزائیں دی گئیں۔ یہ سزائیں چھے ماہ سے چھے سال تک قید اور کروڑوں روپے جرمانے تھے ۔

فرانس کے چوٹی کے سیاست دان جین میری لی پین کو اس ایک جرم میں دو دفعہ فرانس اور جرمنی میں سزا سنائی گئی۔حد تو یہ ہے کہ جرمن نژاد آسٹریلوی محقق فریڈرک ٹوبان کو ہولوکاسٹ پرمحض سوال کرنے پر جرمنی، برطانیہ،پھرجرمنی اور آسٹریلیا میں متعدد بار عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا کہ وہ ہولوکاسٹ کے اصل حقائق کی تبلیغ کر رہے تھے جو مذہبی نہیں تحقیقی عمل تھا۔ تحقیقی دنیا میں اتنی دہشت پھیلائی گئی کہ ۲۰۱۵ء سے اب تک کسی نے اس کوچے میں قدم نہیں رکھا۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1097231 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More