عمران خان حکومت نے جمعرات کو حزب اختلاف کے شدید احتجاج
و بائیکاٹ کے باوجود قومی اسمبلی کی کارروائی کے اصول معطل کئے اور 21
قوانین کی منظوری دی ،جس میں متنازع انتخابی (ترمیمی) بل 2020 بھی شامل ہے۔
مزید برآں ،پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث بھارتی جاسوس 51سالہ کلبھوشن
جادیو کو اپیل کا حق فراہم کردیا گیا۔جسے پاکستان کی فوجی عدالت نے2017میں
سزائے موت دی تھی۔ مگر عدالت کے فیصلے پر عمل نہ کیا گیا۔ اب اسے بھارتی
وکیل یا یا کسی تیسرے ملک کے وکیل کی خدمات حاصل ہو سکیں گی۔کیا بھارت میں
کبھی کسی پاکستانی قیدی کو اپنے وکیل کی خدمات فراہم کی گئی ہیں۔ اپوزیشن
کا اس قانون کے خلاف واک آؤٹ بجا ہے۔اس نے تین بار کورم کی نشاندہی کی۔مگر
چیئرمین نے ایوان کی کارروائی کو درست قرار دیا اور کارروائی جاری رکھی۔
اپوزیشن کا شور شرابہ اور احتجاج رنگ نہ لایا۔اپوزیشن کے اراکین اسپیکر کی
ڈائس کے سامنے بھی جمع ہوئے۔’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘‘اور’’کلبھوشن کو
پھانسی دو‘‘جیسے نعرے بھی لگائے۔مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اب سوالات پیدا
ہوئی ہیں کہ کیا عمران خان حکومت نے بھارتی جاسوس کو ریلیف دینے کے لیے
قانون سازی کے ایجنڈے میں اس بل کو شامل کیا ہے۔ رولز کو معطل کرنے کے کیا
مقاصد تھے۔ بل کو ایجنڈے پر لانے کا حکومتی اقدام کیسا تھا۔اس سے پاکستان
کے مفادات کا دفاع ہوا یا بھارتی مفادات کو تقویت ملی۔ وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی اپوزیشن پر حملہ آور ہوئے۔ یہی نہیں انھوں نے اپوزیشن جماعتوں
کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان پر الزام لگایا کہ انھوں نے ہی بھارتی جاسوس
کلبھوشن جادیو کی کہانی بگاڑی ۔ مگر اس سب میں قریشی صاحب کا یہ کہنا کہ’’
مجھے اپوزیشن بینچوں سے پاکستان کی نہیں، ہندوستان کا مؤقف سنائی دے رہا ہے۔‘‘،
حیران کن الزام ہے۔ یعنی ان کے الزام کے مطابق نصف ملک بھارت کا موقف رکھتا
ہے۔
حکومت کہتی ہے کہ اس نے ’’دی ہیگ ‘‘کی عالمی عدالت انصاف کے 2019کے فیصلے
پر عمل در آمد کیا ہے۔جس میں پاکستان کی قومی اسمبلی کوہدایت کی گئی کہ وہ
فوجی عدالت کے سزائے موت کے فیصلے پر ’’موثر جائزہ اور نظر ثانی
کرے‘‘۔عالمی عدالت میں کیس کی سماعت 15جون 2021کو ہو رہی ہے۔ اس سے قبل
پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایوان میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو مؤثر
بنانے کے لیے نظر ثانی کا بل آرڈیننس 2020 منظور کیاگیاجو وفاقی وزیر قانون
فروغ نسیم نے پیش کیا ۔اس بل کی منظوری کے بعد بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو
سمیت تمام غیر ملکیوں کو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہو
جائے گا۔ فروغ نسیم اس بل کا یوں دفاع کررہے ہیں کہ یہ بل بھارت کے عزائم
کے خلاف ہے، کلبھوشن کو قونصلر رسائی مسلم لیگ(ن) کے دور میں نہیں ملی اور
اگر عمران خان یہ قانون نہ لاتے تو بھارت سلامتی کونسل میں چلا جاتا۔وہ
کہتے ہیں کہ عالمی عدالت انصاف نے واضح طور پر اپیل کا قانون لانے کا حکم
دیا تھا اور اگر ہم یہ بل نہ لاتے تو بھارت ہمارے خلاف عالمی عدالت کی
توہین کا مقدمہ درج کرواتا۔
وزیر خارجہ نے الیکٹرانک ووٹنگ پر بھی بھارت کا حوالہ دیا کہ پڑوسی ملک
ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کئی سالوں سے رائج ہے، امریکا سمیت کئی ممالک
میں رائج ہے، کیا وہاں جمہوریت نہیں ہے، کیا وہاں جمہوری اقدار نہیں ہیں،
کیا ان کے الیکشن دنیا تسلیم نہیں کرتی؟، کرتی ہے، اگر وہاں کرتی ہے تو
یہاں مضائقہ کیا ہے۔مگر بھارت میں ووٹنگ کا جو حال ہے، وہ دنیا جانتی ہے۔
بھارت کی جمہوریت بھی دنیا پر آشکار ہو چکی ہے۔ مگر ہم بھارت کی جمہوریت کا
پرچار کر رہے ہیں۔ بھارت میں جمہوریت نہیں بلکہ فاشزم اور اقلیتوں کے خلاف
ریاست متحرک ہے۔
پاکستان اگر عالمی عدالت کی سفارشات پر عملدرآمدکرتا ہے اور بھار تی سرکاری
دہشتگردکو قونصلر تک رسائی دیتا ہے تواس پر بھارت کا ردعمل کیا ہو گا۔
بھارت مزید رعایتوں کا مطالبہ کرے گا۔ شاہ محمود قریشی اپوزیشن بینچوں پر
ہندوستان کی بولی بولنے کا سنگین الزام لگا رہے ہیں۔ سابق وزیرا عظم اور
پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا شدید احتجاج برملا ہے۔ ان کا
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا عمران خان حکومت بھارت کو یہ پیغام دینا چاہتی
ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی بھارت کے ساتھ ہے۔مگر وزیر خارجہ نے اپنا الزام
واپس نہ لیا۔ اپوزیشن ممبران نے اگر چہ اجلاس کے بیشتر حصے کی صدارت کرنے
والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف این اے سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد
جمع کرائی ہے کہ اسمبلی رولز کو مبینہ طور پر نظرانداز کیا ، حکومتی ممبران
کے ساتھ غیر قانونی طور پر تعاون کیا اور اپوزیشن کے کورم کی نشاندہی پر
عمل نہیں کیا۔ کلبھوشن یادیو کیس میں آئی سی جے کے فیصلے کے فوراً بعد ہی
حکومت نے مئی 2020میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون نافذ کردیا تھا۔اپوزیشن
کی جماعتوں کی سخت مزاحمت کے باوجود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے
قانون و انصاف نے گزشتہ سال 21 اکتوبر کو اس بل کو منظوری دے دی۔
کلبھوشن جادیو اب ملک کے کسی بھی ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔ مگر
بھارت اب اپنے جاسوس کو بھارتی وکیل فراہم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ وہ غیر
جانبدارانہ قانونی امداد کی فراہمی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔یعنی کسی تیسرے
ملک کا وکیل بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ایک دہشتگرد جس نے لا تعداد معصوم
اور نہتے افراد کا قتل کیا۔ ملک میں دہشتگردی کا نیٹ ورک چلایا۔ اسے سزائے
موت دینے کے بجائے کیس کو کمزور کیا گیا۔ ٹھوس شواہد عالمی عدالت انصاف کو
پیش کئے جاتے تا کہ وہاں پر بھارت کا دفاع کمزور پڑتا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔
بھارت تسلیم کرتا ہے کہ جادیو بھارتی بحریہ کا آفیسر ہے۔ مگر بھارتی موقف
یہ کہ وہ کسی کاروباری ڈیل کے لئے ایران گیا تھاجہاں سے اسے اغواء کیا گیا
اور پاکستان لایا گیا۔ ایک حاضر سروس نیوی آفیسر کا یہی کاروبار تھا کہ وہ
پاکستان میں معصوم افراد کو قتل عام کرائے اور بھارتی ریاستی دہشتگردی کو
فروغ دے۔ جادیو کیس کس نے کمزور کیا۔ اس کے محرکات کیا ہیں۔ حقائق پر سے کب
اور کیسے پردہ اٹھے گا۔ یہ سب ہمیں شاید مستقبل میں معلوم ہو جائے گا۔
|