65معصوموں کا قاتل کون؟

ڈھرکی میں ایک ہفتہ قبل ہونے والے ٹرین حادثے میں 65افراد شہید اور 100سے زیادہ معذور ہوئے۔زخمیوں کو سکھر، حیدر آباد اور رحیم یار خان میں طبی امدا دی گئی۔ مگر متاثرین کے بارے میں ان کے عزیزو اقارب کو ایک دن بعد تک بھی معلومات فراہم نہ ہو سکیں۔ ابھی تک حادثہ کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا سکی ہے۔ ملت ایکسپریس700مسافروں کو لے کر کراچی سے سرگودھا جا رہی تھی جب وہ پٹری سے اتر گئی۔ اس کی بوگیاں اور سامان اس ٹریک پر جا گرا جس پرسر سید ایکسپریس راولپنڈی سے آ رہی تھی۔ وزیر ریلوے نے اعتراف کیا کہ جب ملت ایکسپریس کراچی سے چلی ، اس پر لدا سامان ڈگمگا رہا تھا۔مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ اگر حادثہ کے وقت لاہر جانے والی جناح ایکسپریس کو قراقرم ایکسپریس اور لاہور جانے والی کراچی ایکسپریس کو شاہ حسین ایکسپریس سے نہ جوڑا جاتا تو مزید سانحات رونما ہو سکتے تھے۔ راولپنڈی جانے والی سر سید ایکسپریس اور اسلام آباد جانے والی گرین لائن، کراچی اور ملتان کے درمیان چلنے والی بہاؤلدین ذکریا ایکسپریس کو منسوخ کرنے سے اس پر سفر کرنے والے اور ان کے عزیز و اقارب پریشانی سے بچ گئے۔

ڈی ایس سکھر کا اب حادثے سے قبل ریلوے کے اعلیٰ حکام کولکھا گیا خط سامنے آ گیا ہے۔جس میں انہوں نے سکھر ڈویژن کے ریلوے ٹریک کو خستہ حال قرار دیا ۔ڈی ایس سکھر میاں طارق لطیف نے 7جون کو ہونے والے حادثے سے قبل سی ای او ریلوے کو خط لکھا ۔ اس کی ایک کاپی وزارت ریلوے کو بھی ارسال کی ۔مگر خستہ حال ٹریک کی تسلی بخش مرمت کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ ریلوے وزیر مستعفی ہونے کے بجائے ریلوے کا نظام درست کرنے کے لئے 620ارب روپے کے اخراجات کی آڑ میں چھپ رہے ہیں۔خط کے متن کے مطابق ڈی ایس ریلوے سکھر ڈویژن نے حکام کو آگاہ کیا کہ سکھر ڈویژن کا ٹریک خستہ حالت میں ہے، پورے ٹریک میں ہر جگہ ڈھیلے اور کمزور جوڑ، جھٹکے دار ٹریک، بڑے بڑے گیپ، فش پلیٹ اور جوائنٹ بولٹ غائب پائے گئے اور مین لائن کے تقریباً 6000 جوڑ خطرناک ہوچکے ہیں۔خط میں کہا گیا کہ سکھر ڈویژن میں اس وقت ایک ہی ویلڈنگ کی ٹیم ہے جو یومیہ 6 جوڑ ویلڈ کرسکتی ہے، مزید 5 ویلڈنگ ٹیمیں درکار ہیں۔خط میں شکایت کی گئی کہ ڈویژن کے ریلوے ٹریک کو قوانین اور معیار کے عین مطابق مینٹین رکھا نہیں گیا اور ریلوے ٹریک کی ایسی خستہ حالت کسی بھی بڑے ممکنہ حادثے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ خط میں ریلوے سٹاف کے خلاف سنگین شکایات کی گئیں کہ ریلوے کا پی وے لوئر اسٹاف کسی صورت بھی ٹریک کی حالت زار پر توجہ نہیں دے رہا۔ سٹاف میں عملہ ناتجربہ کار اور گریڈ 4 سے پروموشن دے کر لگایا گیا ہے اور پی وے عملے کو کئی بار شوکاز دیئے گئے مگر نہ تو عملہ ان شکایات کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی اپنے سینیئرز کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔خط میں اعلیٰ حکام سے درخواست کی گئی کہ ٹریک کی مرمت اور حفاظت کے لیے اس طرح کے سٹاف کی جگہ تجربہ کار سٹاف رکھا جائے۔ ریلوے ٹریک کی حفاظت اور بہتری کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔یہ خط حادثے سے قبل 28 مئی کو لکھا گیا اور 29 مئی کو پاکستان پوسٹ کی مہر کے مطابق ریلوے ہیڈ کوارٹر میں وصول ہوا ۔ اس خط کے ایک ہفتہ بعد ڈھرکی کے قریب ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس کا حادثہ رونما ہوا ۔ 7 مارچ کو اسی ٹریک پر سانگی کے قریب کراچی ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر کر ٹریک سے 25 فٹ نیچے جاگری تھیں۔جب ایک خاتون جاں بحق ہوگئی اور متعدد افرادزخمی ہوئے ۔ اعلی حکام اس خط کے برعکس کراچی ایکسپریس حادثے کا ذمہ دار ڈی ایس ریلوے کی غفلت کو ٹھہرایا رہے ہیں کہ ڈی ایس ریلوے اپنے ڈویژن پر توجہ نہیں دے رہے اور ان کی نااہلی کے باعث حادثات ہو رہے ہیں۔

غفلت کے مرتکب 9افسران کو معطل کیا گیاہے تا ہم وزیر، سیکریٹری ریلوے یا کسی اعلیٰ افسر کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ چند افسران کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ۔ معطل افسران کچھ عرصہ بعد بحال کر دیئے جاتے ہیں۔ انہیں معطلی کے عرصہ کی تنخواہ بھی یک مشت دی جاتی ہے اور ترقیابی بھی کی جاتی ہے۔ اگر چہ حکومت نے شہداء کے ورثاء کو فی کس 15لاکھ روپے اور زخمیوں کو 50ہزار تا 3لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے مگر ذمہ داروں کے خلاف ایکشن نہ لینا سوالیہ نشان ہے۔ وزیر صاحب کہتے ہیں کہ 2014سے ریلوے ٹریک کو اپ گریڈ کرنے کے لئے کچھ خرچ نہ کیا گیا۔وہ ساری زمہ داری سابق حکومت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ اعتراف نہیں کرتے کہ ان کی حکومت بھی گزشتہ تین سال سے قائم ہے، انھوں نے بھی ٹریک اپ گریڈ یامرمت کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوئے۔ اکتوبر 2019میں کراچی سے راولپنڈی جانے والی ٹرین کو آگ لگی اور 75افراد شہید ہو ئے۔ موت کا ایک وقت متعین ہے مگر یہاں لوگ غفلت اور کوتاہی سے بے موت مر رہے ہیں۔ ذمہ داران ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود بچنا چاہتے ہیں۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے تو سچ سامنے آ سکتا ہے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ 65معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قاتل کون ہے اور اس کی سزا کیا ہو گی۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484784 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More