آدھا تیتر آدھا بٹیر

 شیخ سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ خراسان کے رہنے والے دو درویش اکٹھے سفر کر رہے تھے ان میں سے ایک دبلا پتلا اور کم خوراک تھا اور دوسرا موٹا تازہ بسیار خور تھا اتفاق سے دونوں ایک شہر میں جاسوسی کے الزام میں پکڑے گے اور ایک ہی جگہ قید کر دئے گے چند روز بعد معلوم ہوا کہ دونوں بے گناہ ہیں اور انہیں رہا کرنے کےلئے قید خانے کا دروازہ کھولا گیا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو گے کہ موٹا درویش مر چکا ہے اور دبلا و پتلا درویش زندہ و سلامت موجود ہے اس پر ایک دانا نے کہا کہ یہ تو عین قانون فطرت کے مطابق ہوا ہاں اگر اسے برعکس ہوتا تو حیرت کی بات تھی موٹا بہت کھانے والا تھا فاقہ کی مصیبت برداشت نہ کر سکا اور ہلاک ہو گیا ۔ دوسرا کم خوراک تھا اور اپنی عادت کے مطابق اس نے صبر کیا اور زندہ بچ نکلا اگر کسی شخص کو کم کھانے کی عادت ہو تو جب سختی پیش آتی ہے تو وہ اسے سہہ لیتا ہے اور اگر آسودہ حالی میں تنگ پرور اور آرام طلب ہو تو تنگ دستی کی مصیبت نہیں سہہ سکتا اور ہلاک ہو جاتا ہے ۔

قارئین شیخ سعدی ؒ کی اس حکایت کو جب ہم افغانستان اور پاکستان پر لاگو کر کے دیکھتے ہیں تو بہت مزے دار قسم کے انکشافات ہوتے ہیں طالبان کے دور حکومت میں طالبان کے پاس وسائل کی شدید ترین کمی تھی ، اشیاءخوردونوش سے لیکر تمام وسائل ندارد تھے ، امریکہ اور یورپ سے لیکر پوری دنیا کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک ان کا معاشی بائیکاٹ کر چکے تھے اور شدید ترین قحط جیسا ماحول تھا اس کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ طالبان نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا کہ جہاں پر عدل و انصاف اور شریعت کی حکمرانی تھی اور یہ طالبان چونکہ شیخ سعدی ؒ کی بیان کردہ حکایت کے دبلے درویش کی مانند تھے اس لئے تمام قحط اور سختیوں کو انتہائی آرام سے جھیل گئے اور پوری دنیا خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گئی کہ شدید ترین غربت ہونے کے باوجود طالبان نے لاءاینڈ آرڈر کا وہ ماحول قائم کیا کہ جرم اور مجرم افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ۔

دوسری جانب جب ہم شیخ سعدی ؒ کی حکایت میں بیان کردہ موٹے درویش یعنی پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے مالک ، قدرتی وسائل سے مالا مال ، دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل ، پورے کرہ ارض کے ڈیڑھ سو ممالک میں سے ساتویں بڑی فوجی طاقت ، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہمارا یہ موٹا درویش پاکستان جب بھی زرا سے کٹھن حالات سے گزرتا ہے تو ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ انکل سام نے طبلے والی سرکار کو جناب مشرف کو زرا سی دھمکی دی تو ہتھیار ڈال دیئے گئے اور ہمسایہ ملک افغانستان میں ہمارے محسنوں طالبان کو کچلنے کےلئے لاجسٹک سپورٹ دے دی گئی ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا ، ہزاروں پاکستانیوں کو اسلام پسندی اور دین پر عمل کرنے کی پاداش میں ، آواز حریت بلند کرنے پر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا اور بے غیرتی کی کمائی ڈالر لئے گئے، 63سال سے جاری جہاد آزادی کشمیر کی تحریک پر یو ٹرن مارتے ہوئے بیک ڈور ڈپلومیسی اختیار کی گئی اور ان سب بے غیرتیوں کے صلے کے طور پر کشکول لے کر پوری دنیا میں ہمارے حکمران چل نکلے تاکہ بھیک حاصل کی جائے ۔۔۔

قارئین وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی جو کشکول نہیں توڑ سکتی ہم نے اپنے معاشرے میں بھی دیکھا ہے کہ جس فرد یا گھرانے کو مانگنے کی عادت پر جائے تو وہ کمانا بھول جاتے ہیں اور ان کی زندگی کشکول کے سہارے ہی بسر ہوتی ہے ہمسایہ ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کل کے نشئی اور افیمی جب کشکول توڑ کر خود انحصاری کی طرف آئے تو آج دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن چکے ہیں اور یورپ اور امریکہ بھی چین کی معاشی ترقی سے بری طرح پریشان ہیں اور شکست پر شکست کھا رہے ہیں ۔

جب تک پاکستان کشکول توڑ کر نا اپنے وسائل کو دریافت نہیں کرتا اس وقت تک پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ ہمیں نیک نیتی کے ساتھ ایک پاکستانی بن کر محنت کرنا ہو گی اور کام کرنا ہو گا ۔

حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے پیغام کو ایک نئے سرے سے پڑھنے ، سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے ، خود ی میں ڈوبنے اور خرد اور جنوں کی گتھیاں سلجھانے کی ضرورت ہے اگر ہم اپنے من میںڈوب کر سراغ زندگی تلاش کرنا چاہیں گے تو اللہ بزرگ و برتر کا قانون تو ازل سے لیکر ابد تک ایک ہی ہے کہ وہ ڈھونڈنے والوں کو ایک نئی دنیا بھی دیتا ہے اور محنت کرنے والوں کی محنت کوضائع بھی نہیں کرتا ۔

تجھے کیوں فکر ہے اے گل ! دل صد چاک بلبل کی
تواپنے پیر ہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے !
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی ہو کر لے !
نہیں یہ شان ِ خود داری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے ،کوئی زیب گلو کر لے!

اس وقت پاکستان جس طریقے سے بھیک اور کشکول کے سہارے اقوام عالم میں زندہ ہے وہ موت سے بدتر ہے ، 18کروڑ سے زائد پاکستانی عزت و آبر و کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور پوری دنیا کے مختلف ممالک میں آباد لاکھوںپاکستانی جب ان ممالک میں رائج عدل وانصاف ، احترام آدمیت اور دیگر سہولیات کو دیکھتے ہیں تو انہیں اپنا دیس یاد آتا ہے کہ جو اسلام کے نام پر وجود میں آیاتھا اور جس کے لئے کروڑوں مسلمانوں نے یہ خواب دیکھے تھے کہ اس ملک میں نظام مصطفیﷺ اور خلافت راشدہ کے ذریں اصول نافذ کیے جائیں گے ، آج وہی پاکستان ” آدھا تیتر اور آدھا بٹیر“ بن چکا ہے جنت اور دوزخ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں جو ممالک فطرت کے اصولوں کے مطابق چلتے ہیں وہ دنیا میں ہی جنت ہیں اور جو بد فطرتی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے حصے کی دوزخ اسی دنیا میں تخلیق کر لیتے ہیں ۔

اسی حوالہ سے حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔۔۔
امریکہ میں آباد ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ تمہاری اور رچرڈ کی دوستی کو پانچ سال گزر چکے ہیں آخر اب تم اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتیں ۔۔۔
بیٹی نے جواب دیا
” ماما بات یہ ہے کہ رچرڈ ’دہریہ ‘ہے وہ جہنم پر یقین نہیں رکھتا ،آخر میں اس نے شادی کیسے کر لوں “
ماں نے کہا
”بیٹی تم اس سے شادی کر لو جلد ہی اسے’جہنم‘ پر یقین آجائے گا “

قارئین اہل فکر و نظر کےلئے ہر لمحہ عبرت کا لمحہ ہے اور ساعت میں سبق موجود ہیں ارض پاکستان پر جنت بھی ہے اور جہنم بھی ، فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم جنت تخلیق کرنا چاہتے ہیں یا جہنم ۔۔۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374495 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More