اتر پردیش کا کوئی کانگریسی رہنما اگر بی جے پی میں آتا
ہے تو اس کا وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے ذریعہ لکھنو میں استقبال ہونا
چاہیے لیکن جتن پرساد کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ دہلی کے اندرمودی کے منظور
نظر مرکزی وزیر پیوش گوئل نے ان کو پارٹی میں شامل کیا۔ اگلے ہی دن یوگی
ادیتیہ ناتھ کو دہلی آنا تھا۔ یہ کام اگر دہلی کے اندر ان کی موجودگی میں
ہوتا تو عزت افزائی ہوجاتی لیکن انہیں تو ذلیل کرنے کی خاطر بلایا جارہا
تھا اس لیے اسے روز پہلے نمٹا کر یہ پیغام دیا گیا کہ اترپردیش کے اہم
فیصلے لکھنو میں نہیں دہلی میں ہوتے ہیں اور ان کے لیے یوگی کو اعتماد میں
لینا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یوگی جی کے لیے یہ پہلا جھٹکا تھا ۔ جدید مذبح
خانوں میں مویشی کو پہلے بجلی کا جھٹکا دے کرنیم جاں کیا جاتا اور پھر اس
پر چھری چلائی جاتی ہے۔ یوگی کے ساتھ یہی طریقہ اپنایا گیا ۔ سنگھ کے رہنما
اپنے پسندیدہ بکرے کی بلی کا منظر دیکھ کر حیرت زدہ تھے۔
یوگی جی نے پچھلے دنوں بڑے ناٹک کیے ۔ ایک دن تو انہوں نے اپنے آپ کو سب
سے کاٹ کر گویا مون برت رکھ لیا ۔ کسی سے بات نہیں کی کسی کا فون نہیں لیا
۔ دہلی سے انہیں سمجھانے کے لیے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاترے
ہوسابلے آئے لیکن وہ نہیں مانے ۔ بی جے پی اتر پردیش کے نگراں رادھا موہن
سنگھ کو انہوں نے گھاس نہیں ڈالی وہ بیچارے گورنر سے ذاتی ملاقات کرکے لوٹ
گئے ۔ پارٹی جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش ارکان اسمبلی سے ملتے رہے لیکن یوگی
نے انہیں منہ نہیں لگایا ۔ وزیر اعظم کے چہیتے اے کے شرما کو وزارت دینے پر
کسی صورت راضی نہیں ہوئے ۔ دہلی ہرگز نہیں جاوں گا زبردستی کی گئی تو گورکھ
پور چلا جاوں گا والی ڈینگ ذرائع ابلاغ میں گونجتی رہی لیکن دہلی میں جھولا
اٹھاکر نکل جانے والے بابا بیٹھے ہیں۔ وہ ان سیاسی جملوں کا مطلب اچھی طرح
جانتے ہیں اس لیے دہلی کا مہورت نکلا تو وہی ان شاء اللہ خاں انشاء کے شعر
کیفیت ہوگئی؎
جذبۂ عشق سلامت ہے تو ان شا اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
وزیر اعلیٰ جب دہلی کی جانب چلے تو ان کے ساتھ نہ کوئی منتری تھااور نہ
سنتری ۔ دو عدد نائب وزرائے اعلیٰ میں سے کم ازکم کسی ایک کو ساتھ لے لیتے
لیکن دوسروں کے سامنے ڈانٹ سننے سے عزت جو گھٹتی ہے اس لیے اکیلے چل دئیے ۔
ویسے بھی انہوں نے اچھے دنوں میں کسی ساتھ نہیں رکھا اس لیے برے وقت میں
کون کام آتا؟ دیگر وزراء کا کہنا تھا ’چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے
گا ‘، کسی رام بھکت کے لیے اس سےبڑا آشیرواد کون سا ہوسکتاہے؟ یوگی جی
چاہتے تھے کہ ایک ہی دن میں وزیر داخلہ اور وزیر اعظم سے نمٹ کر لوٹ جائیں
لیکن مودی جی نے پہلے دن ملنے کا وقت نہیں دیا تاکہ شاہ جی کی سرزنش کے بعد
رات بھر میں دماغ درست یعنی ’’ری فورمیٹ‘‘ ہوجائے تو دوسرے دن اطمینان سے
ملاقات ہو۔ ’مرتا کیا نہ کرتا ‘ یوگی میں مجال تو تھی نہیں کہ کہتے اگر وقت
نہیں ہے تو ایسی تیسی میں رات میں لوٹ جاوں گا۔ اقتدار کا خوف اچھے اچھوں
کو ٹھیک کردیتا ہے۔
یوگی جی نے دہلی میں رین بسیرا کرنے کا فیصلہ بادلِ ناخواستہ کیا ہوگا
کیونکہ اجنبی شہر میں وہ ایک بھیانک رات تھی ۔ لکھنو میں تو غم غلط کرنے
والے وزراء نہ سہی افسران موجود ہوتے ہیں لیکن یہاں تو دلاسہ دینے والا بھی
کوئی نہیں تھا۔ شاہ جی نے یوگی کو ناراض کرنے کے لیے وہ سارے جتن کیے جو ان
سے ممکن تھے۔ مثال کے طور پر یوگی جہاں بیٹھتے ہیں ان کے آسن پر نارنگی
چادر بچھائی جاتی ہے۔ شاہ نے اس کا اہتمام نہیں کیا ۔ یوگی جی کو سبز رنگ
سے نفرت ہے جس کا اظہار بھی وہ کرتے رہے ہیں ۔ شاہ جی نے سبز رنگ کا کرتا
زیب تن کرکے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا ۔ یوگی بیچارے کمرے کے اندر بھی
دومیٹر کا فاصلہ رکھنے کے باوجود ماسک ہٹانے کی جرأت نہ کرسکے لیکن شاہ جی
اس سے بے نیاز اپنے صوفے پر بڑے آرام سے پسرے مسکراتے رہےجبکہ یوگی جی
ہاتھ باندھے اٹینشن کی حالت میں اس طرح بیٹھے تھے کہ اب روئے کہ تب روئے۔
یہ ساری کیفیت ان تصاویر میں عیاں ہے جو جان بوجھ کرذرائع ابلاغ کوا شاعت
کی ٖرض سے فراہم کی گئیں تاکہ اندر کہانی بن بولے بیان ہوجائے ۔
یوگی نے شاہ جی کو ایک کتاب تحفہ دی جس کا عنوان خود ان کی حالت پر منطبق
ہوگیا۔ کتاب کا نام تھا’پرواسی سنکٹ کا سمادھان ‘ (نقل مکانی کی مشکلات کا
حل)۔ خود یوگی بھی دہلی میں اپرواسی جیسی تھی ۔ ان کا سنکٹ بہت گہرا تھا
اور وہ اس کا سمادھان چاہتے تھے۔ اس کتاب کے نام میں یہ پیغام بھی پوشیدہ
تھاکہ انہیں لکھنو سے دہلی نہ منتقل کیا جائے ورنہ بہت سارے مسائل پیدا
ہوجائیں گے۔ یوگی اور شاہ کے درمیان کیا کھچڑی پکی یہ تو کوئی نہیں جانتا
لیکن اس کی خوشبو جو باہر آئی اس کو سونگھ کر اندازہ ہوگیا۔ وزیر داخلہ سے
ملاقات کے بعد یوگی جی نے اپنے من کی بات ٹوئٹر چڑیا کی زبانی اس طرح سنائی
کہ ’’آج عزت مآب وزیرداخلہ امیت شاہ جی سے نئی دہلی میںرسمی ملاقات کرکے
ان کی رہنمائی حاصل کی۔ ملاقات کے لیے اپنا قیمتی وقت نوازنے کے لیے محترم
جناب وزیر داخلہ کا دل سے شکریہ۔
اس عقیدتمندی کا امیت شاہ نے ٹکا سا جواب دے دیا’’اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ
جناب یوگی ادیتیہ ناتھ سے ملاقات کی‘‘۔تضحیک کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔
یوگی کے فوراً بعد امیت شاہ نے اترپردیش کی حلیف جماعت اپنا دل (ایس) کی
قومی صدر انوپریہ پٹیل سے ملاقات کی اور اس کے بعد بھی نام بدل کر من و عن
وہی الفاظ لکھ دئیے ۔ اس جماعت کے دو رکن پارلیمان تھے۔ بی جے پی کی خاطر
بیٹی اپنی ماں کو چھوڑ کر الگ ہوگئی ہے اور اس کی واحد رکن پارلیمان ہے۔
امیت شاہ کو چونکہ ملک و قوم کے فلاح و بہبود میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس
لیے وہ بلاتوقف سیاستدانوں سے ملتے رہتے ہیں حالانکہ یہ پارٹی کے صدر جے پی
نڈا کی ذمہ داری ہے لیکن کوئی سیاستداں انہیں گھاس نہیں ڈالتا کیونکہ سب
جانتے ہیں مودی کی آنکھ اور کان شاہ ہیں۔ نڈا کی حیثیت تو صرف زبان کی
ہے’اپنے آقا کی آواز‘۔ امیت شاہ نے پٹیل کے بعد ہریانہ کے نائب وزیر
اعلیٰ دشینت چوٹالا سے ملاقات کی اور من و عن نام بدل کر وہی پیغام ٹویٹ کر
دیا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ شاہ جی کے نزدیک یوگی ادیتیہ ناتھ کی اہمیت و
وقعت انوپریہ یا دشینت سے زیادہ نہیں ہے۔
سیاست کی بساط پر لوگوں کو اسی طرح ان کی حیثیت سے واقف کرایا جاتا ہے ۔ اس
سے اچھا پیغام کو ایک دن قبل امیت شاہ نے جتن پرساد کے لیے لکھا تھا : ’’
جناب جتن پرساد کا بھارتیہ جنتا پارٹی میں خیر مقدم ہے۔ مجھے پورا یقین ہے
کہ ان کے پارٹی میں شامل ہونے سے اترپردیش کے اندر بی جے پی کے عوامی خدمت
کی کوششوں کو مضبوطی ملے گی ‘‘۔ اس طرح کے میٹھے بول یوگی جی کے لیے بھی
لکھے جاسکتے تھے لیکن ایسا کرنے سے وزیر اعظم کی ملاقات سے قبل یوگی جی کی
مالش کے جو اثرات مطلوب تھے وہ زائل ہوجاتے۔ شاہ جی نے جتن پرساد کے ذریعہ
یوگی ادیتیہ ناتھ کو ویکسین کا پہلا ڈوس دے دیا۔ جمعہ کے دن یوگی جی جب
ملنے کے لیے گئے تو وزیر اعظم سے بالکل بگلا بھگت کی مانند سراپا سفید تھے
۔ گلے میں پڑے سفید پٹے پر بھی زعفرانی نقش و نگار تھا ۔ وزیر اعظم کے
سامنے بھگوا دھاری یوگی نہایت ادب سے ہاتھ باندھ کر چہرے پر ماسک لگائے
بیٹھے رہے۔ مودی جی نے بھی ماسک نہیں ہٹایا ۔ ملاقات کے بعد یوگی نے لکھا
’’ آج (جمعہ) کو مجھے محترم المقام پی ایم مودی سے ملنے اور ان سے رہنمائی
حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ اپنے مصروف معمولات سے وقت نکال کر ملاقات
و رہنمائی کرنے کے لیے میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں‘‘ ۔
وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئٹر پر یہ اطلاع دی کہ یوگی سے ملاقات ہوئی لیکن
مودی کے نجی ٹوئٹر ہینڈل پر اس کا ذکر نہیں ہوا حالانکہ ایک روز قبل مغربی
بنگال میں حزب اختلاف کے رہنما شبھیندو ادھیکاری سے ملاقات کی اطلاع مودی
جی بذاتِ خود اپنے اکاونٹ سے ملاقات کی تصویر اور خبردی تھی۔ یوگی جی اس
سعادت سے محروم رہے۔ اس کے بعد یوگی جی جب پوری طرح ڈھیلے پڑ گئے تو ان کو
پارٹی صدر جے پی نڈا کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ یہ بالکل وہی معاملہ ہے جو
آپریشن کے دوران کسی مریض کے ساتھ پیش آتا ہے۔ پہلے( anesthesia) دے کر
مریض کو بے ہوش کیا جاتا ہے یہ کام شاہ جی نے کردیا ۔ اس کے بعد بڑا مودی
جیسا سرجن آپریشن کرتا ہے اور پھر ٹانکے لگانے کا کام نڈا جیسے کسی جونیر
ڈاکٹر کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ یوگی نے لکھنو واپس جاکر کورونا سے نمٹنے
کے لیے مودی کی ہدایت ’سراغ ، تشخیص اور علاج ‘‘ کی تعریف کی ۔ یہی تو
اترپردیش میں ہوا ۔ پہلے یہ سراغ لگایا گیا کہ پنچایتی انتخاب کا نتیجہ کیا
نکلا؟ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو یوگی جی کی تشخیص ہوئی۔ بالآخر
دہلی بلا کران کا علاج کردیا گیا ۔ یہ یوگی جی کے دہلی سفر کی دلچسپ داستان
الم ہے ۔
|