رام کے نام پر مچی لوٹ کا بھانڈا چوراہے کے بیچ پھوٹ گیا
اور نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا کا نعرہ لگانے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔
اتوار 13؍ جون کو رام مندرشیتر ٹرسٹ کی اہم میٹنگ ایودھیا میں ہورہی تھی جس
میں سارے 15 ٹرسٹی موجودتھے ۔ 9 تو بہ نفسِ نفیس آئے اور 6 لوگوں کی شرکت
کو آن لائن یقینی بنایا گیا۔ اس نشست میں ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے
نے بتایا کہ 11نومبر کی گزشتہ میٹنگ کے بعد عوامی رابطے کی مہم چلائی گئی
جس میں 5 لاکھ 37ہزار لوگوں نے 11کروڈ لوگوں سے رابطہ کرکے 3ہزار دو سو
کروڈ روپیہ جمع کیا ۔ مہم کے خاتمے پرتو 5 ہزار کروڈ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
درمیان میں 18سو کروڈ کہاں غائب ہوگئے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد مئی تک
مزید 80کروڈ جمع ہوئے اور ایک مہینے کے اندر مندر کی تجوری میں 60 لاکھ
چندہ جمع ہوا ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ دولت کی یہ ریل پیل اس زمانے میں
تھی جب ملک کورونا کے قہر میں مبتلا تھا ۔ سڑکوں پر لاشوں کو جلایا جارہا
تھا اس لیے کہ شمشان گھاٹ میں جگہ نہیں تھی اور گنگا میں بہا یا جارہا تھا
کیونکہ لکڑی کے پیسے نہیں تھے۔ لوگ ندی کے کنارے تین فٹ کے گڈھوں میں لاشوں
کو سمادھی دینےپر مجبور ہوگئے تھے لیکن چونکہ 2024 سے قبل مندر بناکر
انتخاب جیتنا ہے اس لیے یہ کام ضروری تھا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ اسی نشست کے دن اچانک عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان
سنجے سنگھ اور ایودھیا کے سابق رکن اسمبلی پون پانڈے نے پریس کانفرنس کرکے
ایسی بے بدعنوانی بے نقاب کر دی ۔ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی یوں
ہوا کہ سنگھ پریوار کے پاس چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا موقع بھی نہیں
رہا۔ سنجے سنگھ کے مطابق ٹرسٹ نے 2کروڈ کی زمین 18.5کروڈ میں خریدی اور یہ
لین دین پانچ منٹ کے وقفہ میں ہوگیا۔ سنجے سنگھ نے اس کا الزام ٹرسٹ کے
سکریٹری چمپت رائے پرلگاکر تفتیش کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح کا الزام سماجوادی
پارٹی کے سابق رکن اسمبلی پون پانڈے نے بھی لگایا اور دونوں نے ثبوت کے طور
دستاویز میڈیا کے حوالے کیں ۔ اس کے بعد جب نامہ نگاروں نے ٹرسٹ کے
اہلکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ سارے گدھے کے سر سے سینگ کی مانند
غائب تھے۔ دباو بڑھا تو چمپت رائے نامہ نگاروں سے کہا کہ ہم اس کا مطالعہ
کرکے اپنی رائے دیں گے ۔ ہم پر سو سالوں سے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ گاندھی
جی کے قتل کا الزام بھی لگا ۔ گاندھی جی کے قتل میں تو گوڈسے کو سزا بھی
ہوئی یعنی وہ الزام درست تھا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ کروڈوں روپئے چمپت
کرنے کا یہ الزام بھی درست نکلے گا ۔
دنیا بھر میں گھپلے ہوتے ہیں لیکن یہ بدعنوانی اس بھونڈے طریقے پر کی گئی
کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ 18 مارچ 2021کو صدر تحصیل کے باغ
بجوسی میں واقع 12ہزار 80 مربع میٹررقبہ کے خطۂ زمین کاسودا ہوا۔ اس کی
سرکاری قیمت 5 لاکھ روپئے بنتی ہے مگر اسے روی موہن تیواری نامی سادھو اور
سلطان انصاری نے 2کروڈ میں خرید لی یعنی زمین کے مالکان کا حق مار کر تین
کروڈ بچالیے ۔ اس خرید کے دس منٹ بعدیہی زمین ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کو
18.5کروڈ میں فروخت کردی گئی۔ لطف کی بات یہ ہےکہ خریداو رفروخت کے دونوں
دستاویزات پر گواہ مشترک ہیں اور وہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں ۔ ان میں سے
ایک گواہ ٹرسٹ کا رکن انل مشرا ہے اور دوسرا میونسپل کارپوریشن کا میئر رشی
کیش اپادھیائے ہے ۔ لین دین کے ساتھ ہی ۱۷ کروڈ کی پیشگی رقم فوراً آر ٹی
جی سی سے ادا کردی گئی۔ اس جلد بازی میں یہ گڑ بڑ ہوگئی کہ زمین خریدنے کے
کاغذ پر لگائے جانے والے اسٹامپ کی خرید کا وقت 5بج کر 22 منٹ اور بیچنے کے
کاغذات پر لگائے جانے والے اسٹامپ کا وقت 5 بج کر 11منٹ تھا۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ بیچنے کی تیاری پہلے ہوگئی تھی اور سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق
تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ درمیانہ رقم کس کی جیب میں گئی؟ اور
پانچ منٹ کے اندر ٹرسٹ نے اس خریدی کو منظوری کیسے دے دی؟
رام مندر کے نام پر دھوکے بازی نئی نہیں ہے ۔ چمپت رائے نے جس چندے کی مہم
ذکر کیا اس میں 22 کروڈ روپئے کے 15 ہزار چیک باونس ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ
تھی کہ لوگوں نے ایسے کھاتوں سے چیک دیئے جو خالی تھے یا کوئی تکنیکی خرابی
مثلاً غلط دستخط وغیر ہ کا سہارا لیا۔ اس کا سبب ممکن ہے سنگھ کے غنڈوں کی
زبردستی سے پیچھا چھڑانا رہا ہو لیکن دھوکہ تو ہوا۔ یہ کوئی فیک نیوز نہیں
ہے بلکہ خود آڈٹ رپورٹ کے بعد خود ٹرسٹ کے رکن ڈاکٹر انل مشرا نے اس کا
انکشاف کیا تھا۔ امسال جنوری میں مہاراشٹر ریاستی کانگریس کے جنرل سکریٹری
وترجمان سچن ساونت نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی و آر ایس ایس کے پس منظر
کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ وہ لوگ عوام کو لوٹ رہے ہیں اور یہ
رقم بی جے پی کے پارٹی فنڈ میں استعمال ہورہی ہو۔ اتر پردیش میں آئندہ سال
ہونے والے انتخاب کے تناظر میں اس الزام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ رام
مندر کا نام استعمال کرنا بی جے پی کا کاروبار ہے۔ رام مندر کی سیاست کرکے
اقتدار میں آنے والوں کا مندر کی تعمیر کے نام پر عوام کو لوٹنا خارج از
امکان نہیں ہے۔
سنگھ پریوار پر اس طرح کے الزامات صرف کانگریس کی جانب سے نہیں لگائے گئے
بلکہ رام مندر کے لیے برسوں تک لڑنے والے نرموہی اکھاڑے نے بھی
وشوہندوپریشد پر رام مندر کے لیے جمع کیے گئے 1400؍کروڑ روپئے نگلنے کا
الزام عائد کیا تھا۔ آل انڈیا ہندومہاسبھا نے 2015 میں وی ایچ پی پر
1400؍کروڑ روپئے کے علاوہ کئی کوئنٹل سونا ہڑپ کرجانے کا الزام بھی عائد
کیا تھا۔اس ضمن میں آل انڈیا ہندومہاسبھا نے وزیراعظم کے دفتر میں 4 ؍اگست
2017 کو تحریری شکایت بھی کی تھی۔4 جنوری 2021 کو بھی آل انڈیا ہندو
مہاسبھا نے رام مندر کی تعمیر کے لئے بی جے پی کے چندہ جمع کرنے کی مخالفت
کی تھی ۔ اس کے مطابق بی جے پی کبھی بھی ایودھیا میں رام مندر نہیں چاہتی ۔
اس کے لئے تو یہ صرف پیسے کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔ہندو مہاسبھا کے ترجمان
پرمود پنڈت جوشی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں بی جے
پی نے رام مندر کے نام پر جو پیسے جمع کیے ہیں، ان کا ابھی تک کوئی حساب
نہیں دیا ہے۔ پرمود پنڈت جوشی کے مطابق رام مندر کے لیے بی جے پی کی شکل
میں راون پیسے جمع کررہے ہیں۔
رام مندر کی تعمیر کے نام پر غبن کے بے شمار معاملات سامنے آئے ہیں ۔ مثلاً
10؍ستمبر 2020 کو رام مندر ٹرسٹ اکاوٴنٹ سے 6لاکھ روپئے کلون چیک کے ذریعے
نکالے گئے تھے۔ 12؍اپریل 2020 کو ایودھیا میں رام مندر پولیس اسٹیشن کے
اندر جھوٹے ٹرسٹ کے نام پر جھوٹی ویب سائٹ بناکر پیسے اینٹھنے کی شکایت
دہلی کے ایک نوجوان پر کی گئی تھی۔شری رام مندر تعمیر سمرپن فنڈ کمیٹی کے
چیرمین نے مرادآباد میں جھوٹی رسیدوں کے ذریعے رام مندر کی تعمیر کے لیے
چندہ وصول کرنے والے 4 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ پیلی بھیت
میں بھی جھوٹے ٹرسٹ کے ذریعے چندے وصول کرنے کی بات بھی سامنے آچکی ہے۔
سورت پولیس نے بھی کارروائی کرتے ہوئے 16؍جنوری کو رام مندر کے نام پر پیسہ
جمع کرنےوالے ایک نوجوان کو گرفتار کیا تھا۔ رام مندر کے ٹرسٹ کے جنرل
سکریٹری چمت رائے بھی دہلی میں رام مندر کے نام پر جعلی ٹویٹر اور ویب
سائیٹ بنانے کی شکایت کرچکے ہیں اور اب تو خود ان پر غبن کا الزام عائد
ہوگیا ہے ۔
آخری سوال یہ ہے کہ ایک گھپلا تو سامنے آگیا لیکن اور ایسی کتنی
بدعنوانیاں ہیں جنہیں سنگھ پریوار نے سو سالوں سے عقیدت کی چادر میں ڈھانپ
رکھا ہے۔ اس کی وجوہات پر غور کیا جائے تو ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ
زعفرانی لٹیروں کے دل سے انتظامیہ اور عدلیہ کا خوف نکل چکا ہے۔ بابری مسجد
کے متنازع ظالمانہ فیصلے سے اس کی بڑئ پیمانے پر ابتداء ہوئی جب عقیدت کے
نام عدل و انصاف کو بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد بابری مسجد کو شہید کرنے
والے ان سارے مجرمین کو رہا کردیا گیا جو اس کا کھلے عام اعتراف کرچکے تھے
۔ اس لیے اب یہ لوگ سوچتے ہیں کہ وہ جو مرضی آئے کریں نہ پولس ان پر اقدام
کرے گی اور نہ سی بی آئی آئے گی۔ عدالت کا فیصلہ بھی لازماًان کے ہی حق
میں آئے گا لیکن مسئلہ ان بھگتوں کا ہے جنہوں نے بڑی عقیدت اعتماد کرکے سے
چندا دیا تھا اور جن کو بیوقوف بناکر ووٹ لینے کے لیے مندر بنایا جارہا ہے۔
کیا وہ اس طرح کی کھلی بدعنوانی دیکھ کر بھی کچھ نہیں سوچیں گے اور اپنی
رائے نہیں بدلیں گے یا پھربار بار دھوکہ کھا تے رہیں گے۔
|