عوام ' حکومت اور اپوزیشن ' دونوں سے مایوس

سوشل میڈیا ذرائع کیمطابق : مولانا فضل الرحمان کا اچانک بیمار ھو جانا اور کراچی کے ھسپتال میں داخل ھو جانا کسی نئی سیاسی بدلاوے کیجانب واضح اشارہ معلوم ھوتا ھے اور یہ نئی متوقع سیاسی کروٹ کہلائی جارھی ھے جس میں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان نئی سیاسی انڈرسٹینڈنگ نظر آتی ھے اور چونکہ مولانا کی عیادت کیلئے پیپلزپارٹی کا ایک بڑا وفد ان سے عیادت کے کیلئے مل چکا ھے جس میں آئندہ کی سیاسی حکمت عملی بارے مشاورت کی گئی ھے اور چونکہ اس نئی پیدا صورتحال سے قبل پیپلزپارٹی PDM سے الگ بھی ھو چکی ھے اور اب 4 جولائی کے دن PDM کے پلیٹ فارم پر مانسہرہ میں جلسے کا انعقاد بھی طے شدہ ھے مگر چونکہ مولانا فضل الرحمان بیمار ھیں یوں قیاس ھے کہ مولانا جلسے میں ازخود شریک نہیں ھونگے اور چونکہ ابھی تک ن لیگ میں سے بھی کسی نے بھی مولانا کی عیادت نہیں کی بلکہ شہبازشریف کے دست راست سردار ایاز صادق نے صرف ایک فون کال کرکے عیادت کی خانہ پری مکمل کی ھے۔

سوشل میڈیا ذرائع کیمطابق مولانا کی بیماری کی خبروں کے بعد مریم نواز کے مانسہرہ جلسے میں شرکت کے حوالے سے بھی کوئی واضح بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ھے یوں امکان ھے کہ مانسہرہ کا یہ جلسہ سیکنڈ کلاس لیڈر شپ کے ذریعے ھوگا اور اس بات کا بھی امکان ھے کہ جلسے کا انعقاد مولانا کی بیماری کے بہانے یا کسی اور جواز پر آئندہ کا کہہ کر موخر کر دیا جائے۔ اگر مانسہرہ جلسے کا انعقاد نہ ھوا تو PDM کی جو کمزور پوزیشن پیپلزپارٹی اور اے این پی کی علیحدگی سے پیدا ھوئی۔ اب مانسہرہ جلسے کے انعقاد نہ ھونے کیوجہ سے PDM کا وجود حقیقت میں اپنے اختتام کو پہنچ جائیگا۔

اندرون ملک اپوزیشن جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ھونا اور کامیاب عوامی جلسہ جات کا انعقاد کرنا اور اسکے بعد PDM سے پیپلزپارٹی اور اے این پی کا الگ ھوجانے کے پیچھے کئی اھم معاملات موضوع بحث ھیں جن میں اپوزیشن کے اھم لیڈران کے اوپر میگا کیسز کا حوالہ بھی دیا جارھا ھے اور برسراقتدار حکومت کیجانب سے مسلسل دعوا کیا جارھا ھے کہ یہ کیسز منطقی انجام کو پہنچیں گے، مختلف نوعیت کے کیسز کے شواھد، وعدہ معاف گواھان کے علاوہ مدعا علیہان کے پے در پے بیانات میں اپنے اوپر کیسز کی بنیادی نوعیت سے لاتعلقی کا اظہار بھی ھر فورم پر موضوع بحث ھے۔ حکمران طبقہ اس بات کا دعویدار مسلسل ھے کہ وہ بڑے اپوزیشن لیڈران کو عوام کے سامنے ثبوتوں کیساتھ بے نقاب کریں گے اور انہیں قانون کے آگے سرنڈر کرنا ھوگا۔

سوشل میڈیا سیاسی مبصرین کا کہنا ھے کہ ہر دور میں برسراقتدار حکومت نے ھمیشہ اپوزیشن کو دبانے کیلئے ایسے ھی الزامات لگائے جو موجودہ حکومت بھی دھرا رھی ھے مگر 3 سال گزر جانے کے باوجود کچھ بھی ثابت نہیں کرسکی اور نہ ھی کوئی ریکوری کی گئی یوں ان معاملات کو پاکستانی عوام حکومت کیجانب سے دباو ھی قرار دیتی ھے اور چونکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اب ایک نیا دعوا کررھے ھیں کہ نوازشریف بیمار نہیں اور جان بوجھ کر پاکستان نہیں آنا چاہتے اور مریم نواز کے حالیہ بیان کو بھی جوڑا جارھا ھے جس میں انکا کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کی جان کو خطرہ ھے ورنہ وہ آج ھی انہیں وطن واپس بلا لیتیں۔ اس بیان کی بنیاد پر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ نوازشریف بیمار نہیں ھیں اور یہ کہ حکومت ' برطانیہ سے نوازشریف کی پاکستان حوالگی کے سلسلےمیں بات جو رکی ھوئی تھی اب دوبارہ چلنا شروع ھے اور ایک بار پھر دعوا کیا جارھا ھے کہ حکومت نوازشریف کو وطن واپس لے آئیگی۔

حکومتی دعوے اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ھے کہ پہلے کیطرح اب بھی پبلک میں یہی تاثر پایا جاتا ھے کہ نوازشریف کیخلاف موجودہ مہم سیاسی بنیادوں پر چلائی جارھی ھے جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کہ ماضی میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو بھی پاکستان واپس لائے جانے کے دعوے کئے جاتے رھے مگر ساری قوم نے دیکھا کہ انہیں واپس نہیں لایا جاسکا اور انکے بعد آج میاں نوازشریف بارے بھی اسی طرح کے دعوے کئے جا رھے ھیں اور ساری قوم نے دیکھا کہ میاں نوازشریف کو پانامہ الزامات پر نہیں بلکہ اقامہ کی بنیاد پر نااھل کیا گیا اور کرپشن جیسا کوئی ایک الزام بھی ابھی تک ثابت نہیں کیاجاسکا۔

موجودہ حکومت اپنی حکومتی مدت کے تین سال گزار چکی۔ اس دوران نہ تو اپوزیشن لیڈران پر قائم کرپشن کیسز انجام کو پہنچے اور نہ تحریک انصاف عوام کو اپنے منشور کیمطابق کوئی ریلیف مہیا کرسکی بلکہ ھوشرباء مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ھے اور حکومت صرف زبانی و کاغذات میں ترقی کے دعوے کرتی نظر آتی ھے جسے پاکستانی عوام خاطر میں نہیں لاتی۔ عوامی اکثریت میں مضبوط یہ تاثر قائم ھے کہ موجودہ حکومت اپنے دعوے کے برعکس ناتجربہ کار ثابت ھوئی ھے اور پچھلے 3 برس میں اپنا کوئی ایک بھی وعدہ پورا کرنےمیں کامیاب نظر نہیں آئی البتہ اپوزیشن راہنماوں کیخلاف تواتر سے پراپیگنڈہ کرنے میں انکے درجن سے زائد ترجمان ھر روز پریس کانفرنس و بیانات سے ھی کام چلا تےنظر آتے ھیں اور چونکہ یہ بھی ایک المیہ ھے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی ایک پیج پر جمع ھوجانے اور PDM کے پلیٹ فارم پر کامیاب عوامی اجتماعات کے باوجود اسکا تسلسل قائم نہیں رکھ پائیں۔ حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام نظر آئیں اور اپوزیشن کے اس بڑے اتحاد کے شیرازہ بکھرنے کے عمل سے عوام میں یہ تاثر پایا گیا کہ اس بڑے اتحاد سے اہوزیشن کی ھر جماعت اپنے لئے ریلیف کا موقع چاھتی تھی مگر اس اتحاد کی باھم نااتفاقی سے حکومت کو فائدہ اٹھانے کا بھرپور موقع مل گیا جو تاحال برقرار ھے اور چونکہ بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اندر بھی تنظیمی ڈھانچے ادھورے ھیں اور انکے فعال کئے جانے کی بجائے شارٹ کٹ فارمولے اپنائے گئے اور نتیجے میں حکومت کیخلاف مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکامی ھوئی۔

اپوزیشن جماعتوں نے نجی میڈیا چینلز و ان سے منسلک افراد کے ذریعے سے مقاصد حاصل کرنے کی بھی مکمل کوشش کی مگر تاحال اس کوشش کے نتیجے میں وہ پبلک کو باھر لانے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے اور اسکی بنیادی وجوھات میں ان جماعتوں کے اندر ھرسطح پر نامکمل تنظیمی ڈھانچے و تنظیم سازی کا فقدان سمیت اپوزیشن بڑی جماعتوں کا اپنی اپنی پارٹی کے متحرک کارکنان سے رابطوں کا مکمل فقدان بھی شامل حال نظر آتا ھے۔۔

اسوقت پاکستانی عوام اپوزیشن جماعتوں سے مایوس اسلئے بھی کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور پبلک کو ریلیف مہیا کرانے میں مکمل ناکام ھے۔ گزشتہ عوامی جلسہ جات کی کامیابی کو آگے بڑھانے کی بجائے اسکا رخ اداروں کیخلاف موڑ کر اپنے ذاتی مفادات و مشکلات سے نکلنے کے راستے اپنانے اور مقاصد کے حصول کیطرف فوکس کرنے سے عوام میں مایوسی پھیلی اور یوں حکومت کو بھی عوام پر مزید مہنگائی بم گرانے کا موقع ملا۔

موجودہ حالات میں عوامی تاثر یہی ھے کہ حکومت و اپوزیشن دونوں ھی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ھیں اور یہی وجہ ھے کہ برسراقتدار حکومت عوام کو کوئی ریلیف دیئے بغیر قائم و دائم ھے اور اپنی مدت مکمل کرتی نظر آتی ھے۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334596 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More