چینی کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک
جدید چین کو دنیا کے سامنے متعارف کروایا ہے۔ایک ایسا چین جو اقتصادی
،سماجی ،سائنسی غرضیکہ ہر اعتبار سے دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔
گزشتہ100برسوں کے دوران پارٹی کی دوراندیش قیادت اور مضبوط فیصلہ سازی نے
چین کے لیے تعمیر و ترقی کا ایسا باب رقم کیا ہے جس کی آج کی دنیا میں دیگر
کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ آج چینی کمیونسٹ پارٹی ایک ایسے وقت میں اپنے
قیام کی 100ویں سالگرہ منا رہی ہےجب دنیا کو وبائی بحران کا سامنا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی حکمران سیاسی جماعت کی حیثیت سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا
(سی پی سی) کے لئے عالمی وبائی مرض ایک نیا امتحان ہے ۔پارٹی کے تقریباً 92
ملین ارکان صد سالہ تقریبات منانے کے لیے اس باعث بھی پرجوش ہیں کہ سی پی
سی کی قیادت میں چین نے وبا پر قابو پاتے ہوئے معاشی بحالی میں بھی دیگر
ممالک پر سبقت حاصل کی ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سی پی سی نے کسی آزمائش کا اس طرح ڈٹ کر مقابلہ
کیا ہے بلکہ پارٹی کی تاریخ ایسے کئی کارناموں سے بھری پڑی ہے جن میں چینی
قوم کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے کٹھن محازوں پر کامیابی حاصل
کی گئی ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعدسی پی سی نے ملک میں حب الوطنی
کے فروغ اور مختلف نسلی گروہوں کے درمیان قومیتی اتحاد کی بدولت داخلی اور
خارجی چیلنجز سے احسن طور پر نمٹتے ہوئے شاندار تاریخی کارنامے سر انجام
دیے ہیں اور ملک کو ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رکھا ہے۔
دنیا چین کی انتہائی تیز رفتارمعاشی ترقی اور طویل المدتی سماجی استحکام کو
دو "معجزات" کے طور پر بیان کرتی نظر آتی ہے جسے گذشتہ سات دہائیوں کے
دوران سی پی سی نے عملی جامہ پہنایا ہے۔لیکن یہ طویل سفر اتنا آسان ہرگز
نہیں رہا ہے۔ چین نے 40 سال قبل اصلاحات اور کھلے پن کی شروعات کی تھیں
جبکہ آنے والے دور میں اسے1997میں ایشیائی مالیاتی بحران ، 1998 میں دریائے
یانگسی کے سیلاب ، 2003 میں سارس وبا اور 2008 میں عالمی مالیاتی بحران کے
علاوہ دیگر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
چین نے سی پی سی کی مضبوط قیادت میں اپنے ترقیاتی سفر کے دوران ان تمام
مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کیا۔ملک سے غربت کے مکمل خاتمے کے علاوہ ایسی
پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں جن سے حالیہ برسوں میں روزگار کو مستقل فروغ ملا
ہے۔صدر شی جن پھنگ کی قیادت میں صرف 2016 تا 2020 تک ملک میں مجموعی طور پر
60 ملین سے زائد ملازمتیں پیدا کی گئی ہیں۔
بلا شبہ چین کے طویل المدتی سماجی استحکام کی ضمانت چینی خصوصیات کے حامل
سوشلزم میں مضمر ہے ، جس میں سی پی سی کی قیادت ایک متعین خصوصیت اور سب سے
بڑی طاقت ہے۔چین میں سیاسی اور معاشرتی استحکام ، معاشی ترقی اور نسلی
اتحاد کی بنیادی وجہ عوام دوست پالیسیاں اور عوامی مفادات کی اولیت ہے۔چین
کا یہ نظام ایسے ممالک کے برعکس ہے جہاں اپنے سیاسی مفادات کو عوامی مفادات
سے بالا رکھا جاتا ہے۔اسی باعث سماجی بگاڑ اور معاشرتی ناہمواری جیسے مسائل
سامنے آتے ہیں۔
سی پی سی نے دل و جان سے خود کو عوام کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے ، سی
پی سی نے ہمیشہ عوام کے مفادات کو اولین ترجیح دی ، معیشت کی ترقی کے ساتھ
ساتھ عوام کے معاش کو بہتر بنایا ، غربت اور وبائی امراض کا مقابلہ کیا اور
سب کی یکساں خوشحالی کے مقصد پر قائم رہی ہے۔سی پی سی نے اپنا ہدف طے کیا
کہ ملک کو ہر اعتبار سے ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے میں ڈھالا جائے گا
۔اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے آج چینی شہری نہ صرف آمدنی میں زبردست اضافے سے
لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ شہری ترقی کے دیگر ثمرات بھی انہیں حاصل ہیں۔ آج
چینی شہریوں کو بہتر تعلیم تک رسائی ،جامع طبی نگہداشت اور محفوظ ماحول
میسر ہے۔
سی پی سی نے ہمیشہ اصلاحات ، ترقی اور استحکام کے مابین ربط کو اہمیت دی ہے
یہی وجہ ہے کہ آج ہر چینی شہری کے دل میں اطمینان ، خوشی اور سلامتی کا ایک
مضبوط احساس موجود ہے۔ قانون کے تابع گورننس کو آگے بڑھانے اور "محفوظ چین"
کی تعمیر جیسی کوششوں کے ذریعے چین کو دنیا بھر میں محفوظ ترین ممالک میں
سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔دریں اثنا ، باہمی تعاون ، شراکت اور
باہمی مفادات کے اصول پر مبنی ملک کی بہتر سماجی گورننس نے بھی معاشرتی
استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
عہد حاضر میں دنیا میں ایک صدی کی ان دیکھی تبدیلیاں رونما ہو رہی
ہیں۔کووڈ۔19 کی عالمی وبانے اس ارتقا کو مزید تیز کیا ہے۔ آج کی پیچیدہ اور
غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں سی پی سی کی کوشش رہے گی کہ ایک جدید
سوشلسٹ ملک کی جامع طور پر تعمیر کے لئے اصلاحات ، ترقی اور استحکام کو
مزید آگے بڑھایا جائے۔سی پی سی کی یہ خوبی رہی ہے کہ اس نے چینی سوشلزم کو
نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اسے بہتر بناتے ہوئے گورننس کے نظام میں جدت
لائی ہےجس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ چین طویل مدتی معاشرتی استحکام کا
اپنا معجزہ جاری رکھے گا ، جو عالمی ترقی میں بھی نمایاں شراکت ہے۔
|