نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہوگیا ہے جس کا حجم 8487 ارب
روپے ہے ،بجٹ سے پہلے کے کالم میں میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اب جب کہ
معیشت کی مثبت سمت کا تعین ہوچکاہے تو یہ ایک ایسا بجٹ ہوگاجس میں سب کے
لیے کچھ نہ کچھ ہوگا،اس پر ملک کے ممتازماہر معاشیات جناب اشفاق حسن صاحب
نے میرے گزشتہ آرٹیکل پر یہ کہہ کر مہر ثبت کردی ہے کہ واقعی اس تاریخی بجٹ
میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ہے ،کراچی اور لاہور چیمبرزنے بھی اعتراف کیا کہ
ملکی تاریخی میں یہ پہلی حکومت ایسی آئی ہے جس نے ملک کے چھوٹے بڑے تاجروں
کی تجاویز کو اس قدر اہمیت دی اور انہیں اس بجٹ کا حصہ بنایا،ملک بھر کی
تاجر تنظیموں کی جانب سے اس بات کا اقرارکرنا ایک اچھی روایت ہے کہ ہر دور
میں سرپکڑ کر رونے والا تاجر جب یہ کہے کہ اس بجٹ میں عام آدمی اور
کاروباری شخص کو ریلیف اور مراعات فراہم کی گئی ہیں جس سے ملک میں معاشی سر
گرمیوں کو فروغ دینے میں مدد ملے گی تو میں سمجھتاہوں کہ یہ سب خوشی کا
باعث ہے، دوسری جانب بجٹ کسی بھی حکومت کا ہو اچھا ہو یا برا ہو جب حکومت
اسے پیش کرتی ہے تو اسے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کہنا ستر سالوں سے ایک
محاورے کی شکل اختیار کرچکاہے، مگر ہم نے دیکھا کہ مسلم لیگ کے صدر اور
سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے وزیرخزانہ شوکت ترین کی بجٹ تقریرکو
سادہ اور مثبت قراردیااور کہاکہ اس تقریر میں کہیں بھی اعدادوشمار کا گورکھ
دھندہ دکھائی نہیں دیا،بلکہ عوامی مسائل کی آگاہی اوران کاحل نکالنے کے لیے
مثبت تجاویز پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ مفتاح
اسماعیل نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومتی کوششوں سے زر ِ مبادلہ
ذخائر بڑھے ہیں جو خوش آئند بات ہے ،اس بجٹ کی کامیابی پر جہاں ملک بھر کے
تاجر اور عام لوگوں میں خوشی کی لہر دیکھی گئی وہاں ہمیں اپوزیشن کی جانب
سے شدید مایوسی بھی دیکھنے کو ملی ہے ،اور یہ مایوسی کی انتہا تھی کہ جب
احسن اقبال صاحب کو اس بجٹ میں کچھ نہ مل سکا تو فوج کے بجٹ نہ بڑھنے کا
ایسا بیان داغ دیا کہ ان کے اپنے حمایتی بھی ان پرتنقید کرنے لگے بلکہ ان
کے اپنے قائد میاں نوازشریف پاک فوج کے سب سے بڑے ناقد ہیں،اور سب سے حیرت
انگیز بات تو یہ ہے کہ میاں شہبازشریف ،بلاول بھٹواور شاہد خاقان عباسی
صاحب نے تو بجٹ آنے سے پہلے ہی اسے ناکام قراردیدیا جو کہ بغض عمرانی کی
ایک بدترین مثال ہے اور اپوزیشن کی اس قسم کی حرکت کے بعد بجٹ کے بعدجب ان
رہنماؤں کا بجٹ مخالف بیان آیا تو عوام نے ان کے اس بیانیے کو کوئی اہمیت
نہ بخشی،اپوزیشن ان دنوں سخت جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے میاں شہباز شریف اور
بلاول بھٹو کی مشترکہ قیادت میں حکومتی بجٹ کے خلاف ایک مرتبہ پھر اکٹھی
دکھائی دی یہ دونوں رہنما مل کر ایوان داخل ہوئے،بلاول بھٹو نے یہاں تک کہہ
ڈالا میں نے اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی کے ووٹ شہبازشریف کے حوالے کر
دیئے ہیں وہ بجٹ کو ناکام بنانے کے لیے جیسے چاہیں انہیں استعمال کر سکتے
ہیں ، اب ہم زرااس بجٹ کی جانب آتے ہیں کہ اس میں عوام کی بہتری کے لیے کیا
کچھ ایسا ہے جسے بیان کیا جاسکے ، اسی میں کوئی شک نہیں ہے کہ وفاقی بجٹ
22-2021 ، مشکل حالات کے باوجود متوازن بجٹ ثابت ہواہے،بجٹ انتہائی
دانشمندی کے ساتھ ملکی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جس کے
اثرات کچھ عرصے کے بعد سامنے آئیں گے،بڑے کے عرصے بعد ملک میں ڈیم کیلئے
پیسے رکھے گئے ہیں ماضی کی حکومتوں میں ڈیم بنانے کی جانب کس قدرسنجیدگی
دکھائی اسے سب ہی جانتے ہیں ،جب ڈیم بنیں گے تو ملک میں پانی کی کمی کا
خاتمہ ہوگا اور اس سے زراعت کو بھی فائدہ ہوگا ۔اس کے علاوہ پہلی مرتبہ
مختلف طریقوں سے بجلی بنانے کیلئے پیسے مختص کئے گئے ہیں، تعمیر اتی شعبے
کو پہلے سے ہی مراعات حاصل ہیں ، اب دیگر شعبوں کو بھی مرا عات دے دی گئی
ہیں،ماحول کے لئے بھی بجٹ رکھا گیا ہے اور اس بجٹ میں سمجھداری کے ساتھ
مختلف معاملات پر توجہ دی گئی ہے ، اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ صوبائی حکومتیں
ان معاملات پر کس طرح وفاقی حکومت کے ساتھ چلتی ہیں ، صوبوں کو اپنے بجٹ
میں 80فیصد سوشل سیکٹر جبکہ 20 فیصد دوسرے شعبوں پر خرچ کرنا ہوگا،اس بجٹ
میں9سوارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں،کراچی ٹرانسفارمیشن
پلان کے لیے 739ارب روپے رکھے گئے ہیں ل۔ تعلیمی امور خدمات کے لیے
91.97ارب روپے مختص کیئے جو کہ ماضی کے اعتبار سے ایک بڑی رقم ہے جس سے
اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ حکومت تعلیم کے شعبے میں کس قدر سنجیدہے ،صحت کے
لیے 28.352ارب رکھیں ہے جو کہ صحت کے میدان میں بہتری لانے کے لیے اب تک کی
سب سے بڑی کوشش ہے ، زراعت کے شعبے میں حکومت اپنے شروع دن سے ہی سنجیدہ
دکھائی دیتی ہے بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے 12ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ،تحریک
انصاف حکومت کے پہلے دو بجٹوں سے عوام مہنگائی کے سبب اور سرکاری ملازمین
تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کے سبب سخت ناراض نالاں اور پریشان تھے، وزیر
اعظم اکثر جب بھی یہ کہتے کہ گھبرانا نہیں ہے اس پراپوزیشن والوں نے ان کے
اس جملے کا خوب مذاق اڑایا لیکن عمران خان مسلسل کہتے رہے کہ چونکہ مکمل
آمدنی مختلف وجوہ و اسباب سے بہت کمزور ہے لہٰذا ہم اس اپوزیشن میں نہیں
ہیں کہ عوام کوفی الفور ریلیف مہیا کرسکیں اس طرح وہ اپنی ہر تقریر میں
لوگوں کو تسلی اور امید وں سے وابسطہ کرتے رہے اوریہ یقین دلاتے رہے ،فی
الحال موجودہ بجٹ کو اگر مثالی نہ بھی کہا جائے تو موجودہ حالات میں زیادہ
معاشی ماہرین کے مطابق یہ ایک معتدل اور اس لحاظ سے عوام دوست اور سادہ سا
بجٹ ہے کہ اس میں عوام پر کوئی نیا ٹٰکس نہیں لگایا گیا،بجٹ میں کئی چیزوں
میں چھوٹ دی گئی ہے جس میں زراعت کی اسٹوریج ہے 850 سی سی گا ڑیوں پر سیلز
ٹیکس 17.5 سے 12.5 فیصد کردیا گیا ہے، الیکٹرک گاڑیوں اس میں سیلز ٹیکس کی
مد میں چھوٹ دی گئی ہے،ان تمام باتوں کوعملی اقدامات تک پہچانے کے لیے
حکومتی کوششیں تیزی سے جاری ہیں پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے سے حالیہ
معاہدہ کیا ہوا ہے، اس معاہدے کا مقصد ملکی معیشت کو درست کرناہے،حقیقت تو
یہ ہے کہ جب معیشت ترقی کرتی ہے تو کاروبار میں وسعت آتی ہے اور روز گار کے
زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں،لوگوں کو مختلف شعبوں میں ترقیاں ملتی
ہیں ، معاشی بہتری سے کھانے پینے کی اشیا سمیت ملبوسات گاڑیوں اور دیگر
سامان پر لوگ پیسہ خرچ کرتے ہیں، حکومت کی جانب سے اس بجٹ سے قبل کچھ ایسے
معاشی عشاریئے سامنے آئے ہیں جو نہ صرف حیرت انگیز ہیں بلکہ انہیں پاکستان
کے بے شمار مبصرین بزنس کمینوٹی کی جانب سے خوش آئندہ قرار دیا گیاہے اور
میں سمجھتاہوں کہ حکومت ابھی معاشی صورتحال کی مزید بہتری کی کوششوں پر ہی
عمل پیرا ہے لہٰذا حکومتی ناقدین سے اپیل ہے کہ بلاوجہ کی تنقید سے دور
رہتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیں اورمیں وزیر اعظم عمران خان کو ایک عام شہری
کی حیثیت سے یہ مشورہ دینا چاہونگاکہ کسی بھی لحاظ سے اپوزیشن اگرکوئی صاحب
مشورہ دیتی تو اسے بڑے دل کے ساتھ قبول کیا جائے۔ |