چراغ پاسوان علی الاعلان خود کو وزیر اعظم کا ہنومان کہتے
تھے ۔ مرکز اور صوبے میں بی جے پی کی حکومت ہے اس کے باوجود ان کا چراغ بجھ
گیا اور پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ پشوپتی پاسوان نے سارے ارکان پارلیمان
کو اپنے ساتھ جوڑ کر بھتیجے کو تنہا کردیا ۔ اس کے برعکس بہار کے سپوت آصف
تنہا کو حکومت کی مرضی کے خلاف ضمانت مل گئی ۔ دیونگنا کلیتا اور نتاشا
نروال کے ساتھ یو اے پی اے کا پنجرہ توڑ کر آزاد ہونے والے آصف ان تمام
مظلومین کے لیے امید کی کا چراغ بن گئے ہیں جو اس ظالمانہ قانون کے تحت جیل
کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیئے گئے ہیں۔ چراغ پاسوان کوسرکاری قوت وحشمت
ذلت ورسوائی سے نہیں بچا سکی جبکہ حکومت وقت کے خلاف نبردآزما دیونگنا
کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا بالآخر کامیاب و کامران ہوگئے ۔ یہ
دو مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کامیابی کی شاہِ کلید
اور اس کی حمایت تباہی و بربادی کا سرچشمہ ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے 15؍جون کو شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد سے متعلق
ایک معاملہ میں پنجرہ توڑ کی دیونگنا کلیتا، نتاشا نروال اور اسٹوڈنٹس
اسلامک آرگنائزیشن کے آصف اقبال تنہا کی درخواستِ ضمانت منظور کر لی۔
گزشتہ سال فروری میں کپل مشرا جیسے بی جے پی رہنماوں کے اشتعال اور سازش کے
نتیجے میں شمال مشرقی دہلی کے اندر بدترین فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے۔
اس کے شواہدکی تفصیل دہلی اقلیتی کمیشن کی تفتیشی رپورٹ میں موجود ہے ۔ یہ
کھیل چونکہ اربابِ اقتدار کی نگرانی میں کھیلا جارہا تھا اس لیے تشدد کے
موقع پرسرکار کے اشارے پر کام کرنے والی پولس یا تو خاموش تماشائی بنی رہی
یا اس میں شریک ہوگئی۔ فسادات کے بعد دہلی پولیس نے یہ اوٹ پٹانگ دعویٰ
کردیا کہ مذکورہ تشدد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی
جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا
منصوبہ بند حصہ تھا ۔
انتظامیہ نے اپنے آقاوں کی خوشنودی کے لیے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی
کوشش کی ۔ اول تو فسادات کے اصل مجرموں کو بچالیا گیا۔ اس کا ثبوت کپل مشرا
کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے والے دلیر جج مرلی دھر کا راتوں
رات تبادلہ تھا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جسٹس مرلی دھر کے ساتھی جج انوپ
بھمبانی نے یہ حالیہ فیصلہ سنایا ۔ وہ ابتدا سے فسادات کے معاملات کو دیکھ
رہے ہیں ۔ پولیس نے یہ الزام بھی لگا دیا کہ علٰحیدگی پسندمظاہرین حکومت کو
غیر مستحکم کرنے کی خاطر ’’سول نافرمانی کا رخ‘‘ کر رہے تھے۔ عصر حاضر میں
حکومت اپنی مخالفین کو قوم دشمن قرار دے کر ان پرملک کی خلاف سازش کا الزام
لگا دینا عام بات ہے۔ مخالفت دبانے کے لیے مظاہرین کو این ایس اے اور یواے
پی اے کے تحت گرفتار کرلینا موجودہ سرکار کا معمول بن گیا ہے کیونکہ ان
بیچاروں کو اقتدار چھن جانے کا خوف دن رات ستاتا رہتا ہے۔
جسٹس سدھارتھ مردل اور انوپ جے بھمبانی کی ڈویژن بنچ نے ضمانت کی درخواست
منظور کرتے ہوئے’’اختلاف رائے کو کچلنے‘‘ والے حکومتی اقدامات کو تنقید کا
نشانہ بناتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا ’’ایسا لگتا ہے کہ اختلاف رائے کو
دبانے کی بے چینی میں احتجاج کے حق کی آئینی ضمانت اور دہشت گردی کی
سرگرمیوں کے مابین فرق دھندلےپن کا شکار ہو رہا ہے۔ اس رحجان کا فروغ
جمہوریت کے لیے تکلیف دہ دن ہوگا۔‘‘عدالت نے یاد دلایا کہ حکومتی یا
پارلیمانی اقدامات کی مخالفت کے دوران پرامن ولولہ انگیز تقاریر اور چکہ
جام جیسے اقدامات کا شمار جائز حقوق میں سے ہے نہ کہ دہشت گردی۔عدالت عظمیٰ
میں بارہا اس بات کا اعادہ کیا جاچکا ہے کہ حکومت کی مخالفت ملک کے خلاف
سرگرمی نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر سرکار عوام کے حقوق کو پامال کرنے لگے
تو اس کے خلاف کمربستہ ہوجانا ملک کو قوم کی سب سے بڑی خیر خواہی ہے ۔
عدالت عالیہ کے مطابق مندجہ بالا احکامات کی روگردانی روزمرہ کا معاملہ
ہوگیا ہے ۔ حکومت سرِ عام اس کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس بابت سرکارکی لگی
بندھی حکمت عملی میں سب سے پہلے مظاہرین پر تشدد بھڑکانے کے الزامات لگائے
جا تے ہیں ۔ ان سے وابستہ تحریکوں کے تئیں ذرائع ابلاغ کے توسط سےشکوک و
شبہات پیدا کرکے عوام کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ مظاہرین کو ضمانت سے محروم
کرنے کے لیے ان پر یواے پی اے جیسی دفعات لگادی جاتی ہیں ۔ اس کے بعد ایک
من گھڑت ضخیم اور گنجلک چارج شیٹ داخل کی جا تی ہے ۔ سرکار کے لیے یہ کام
بہت آسان ہے کیونکہ اگر اس کے 20اہلکار 50 صفحات کی کہانی بھی لکھ ماریں
تب بھی ہزار صفحات کی داستان تیار ہوجاتی ہے۔ اس میں سیکڑوں فرضی گواہوں کے
نام شامل کرکے مقدمہ کی کارروائی کوطول دینے کا اہتمام کردیا جاتاہے ۔
مذکورہ فیصلے میں اس طریقۂ کار کی ایک ایک کرکے دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔
دہلی کی عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں اس بات کی یاددہانی کرائی کہ کسی
معاملے میں سزا جس قدر سخت ہو اتنا ہی زیادہ احتیاط برتا جانا چاہیے۔ عدالت
نے تسلیم کیا کہ یو اے پی اے کے تحت تخریبی کارروائی کی تعریف خاصی وسیع
اور مبہم ہے۔ دہشت گردانہ کارروائی کا اطلاق ان جرائم پر نہیں ہونا چاہیے
جو روایتی تعزیرات کی دفعات کے تحت آتے ہیں ۔ عدالت نے واضح کیا کہ دہشت
گردی کو صرف اور صرف ملک کے دفاع پراثر انداز ہونے والی سرگرمیوں تک محدود
ہونا چاہیے۔ اس اصطلاح کے بے دریغ استعمال سے پریشان ہوکر عدالت کو یہ کہنا
پڑا کیونکہ 2019 میں 1126 لوگوں کو اس ظالمانہ قانون کے تحت حراست میں لیا
گیا۔ یہ تعداد مودی یگ کے 2015 میں 897 سے بھی بہت زیادہ ہے۔ ان گرفتار
شدگان میں چھتیس گڑھ کے قبائلی، کشمیر کے مسلمان اور منی پور کے عیسائی بھی
شامل ہیں۔ کرتار سنگھ کے معاملے میں بھی عدالت عظمیٰ نے اس تشویش کا اظہار
کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے میں پہلی بار بڑی تفصیل کے ساتھ یو اے پی اے
کےبیجا غلط استعمال پر گرفت کی گئی ہے۔ ہائی کورٹ میں استغاثہ نے خطرے کا
ارادہ کو وسیع کرکے امکان تک پھیلادیا۔ عدالت کے مطابق طلبا اور قبائلیوں
کے احتجاج سے خطرے کا امکان قوم کی مضبوط بنیادوں کو متزلزل نہیں کرسکتا۔
اس معاملے میں نہ توکوئی دہشت گردانہ سرگرمی ہوئی اور نہ سازش یا اس کے لیے
چندہ جمع کیا گیا اس لیے یواے پی اے کی تینوں دفعات اس پر نافذ نہیں ہوتیں۔
ملزمین کے خلاف تشدد بھڑکانے کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا اور جو
کچھ فردِ جرم میں درج ہے اس پر انہیں ضمانت مل چکی ہے۔ اس فیصلے میں احتجاج
سے متعلق بہت اہم رہنمائی دی گئی ہے ۔ مثلاً سپریم کورٹ کے مطابق حکومت اور
پارلیمانی فیصلوں کے خلاف احتجاج جائز ہے۔ عدم تشدد کے جلوس آزادی کی
جدوجہد کا اہم ہتھیار تھے۔ ان مظاہروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پرامن رہیں
گے لیکن ان کا جائز متعینہ حدود سے نکل جانا عام بات ہے۔
ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے حوالے کہا کہ جائز عدم اتفاق جمہوری کا امتیاز
ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ احتجاج صحیح ہے یا غلط ، حق بہ جانب ہے یا نہیں۔
عوام کو بظاہر غیر اہم فضول نظر آنے والے مسائل پر بھی اپنے خیالات کے
برملا اظہار کا حق حاصل ہے ۔ ویسے تو حکومت کو اس میں سہولت فراہم کرنی
چاہیے مگر ناگزیر صورتحال میں وہ احتجاج پر پابندی بھی لگا سکتی ہے لیکن اس
کے بنیادی حق کی بجا آوری کے تمام راستے بند نہیں کرسکتی ۔ اس قضیہ میں یہ
ثابت نہیں ہوتا کہ احتجاج پرتشدد یا ممنوعہ حدود میں داخل ہوگیا تھا۔
مظاہرے پر پابندی کی کوئی دستاویز نہیں دکھائی گئی اس کے باوجود اگر کوئی
خلاف ورزی ہوئی ہوتو اس پر ضمانت دی جاسکتی ہے۔ آصف تنہا کے بارے میں کہا
گیا کہ ان کا تعلق ایس آئی او سے ہے لیکن عدالت کے مطابق وہ ممنوعہ تنظیم
نہیں ہے۔ اس لیے اس سے وابستگان پر شک کرنا یا انہیں قوم دشمن قرار دینا
درست نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا محض کسی کنفیوژن کے سبب حکومت ضمانت کو
روک نہیں سکتی ۔
طول طویل فردِ جرم اور اس میں موجود سیکڑوں گواہوں کی بابت کہا گیا کہ لاک
ڈاون جیسی صورتحال میں ان کی سماعت کے تکمیل کی خاطر بہت لمبا وقت درکار
ہوگا۔ اس وقت تک ان ملزمین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا خلاف ِعدل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عام دنوں میں بھی عدالتی کارروائی خاصی لمبی چلتی ہے ۔
عدالت نے یاد دلایا کہ جب تک کسی پر مقدمہ نہ چلے اور جرم ثابت نہ ہوجائے
وہ بے قصور ہے۔ جرم ثابت ہوجانے کے بعد ہی سزا دی جاتی ہے۔ ضمانت پر اعتراض
نہ تو سزا کے طور پر ہو نہ احتیاطی تدبیر ہو بلکہ یہ مدعا الیہ کی مقدمہ
میں حاضری کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے۔ کے اے نجیب معاملے میں عدالت
عظمیٰ نے کہا تھا کہ اگر تیزی کے ساتھ فیصلہ سنائے جانے کا حق مجروح ہورہا
ہوتو دہشت گردی کا مشکوک ملزم بھی ضمانت کا حقدار ہے ۔ ملزم کی بلاجواز
حراست اس کی جسمانی و نفسیاتی حق تلفی ہے۔ اس سے مقدمہ کی تیاری بھی متاثر
ہوتی ہے۔
مودی راج میں شرجیل امام اور ان سے قبل یلغار پریشد کے دانشوروں کی حراست
کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ اس بات کا ثبوت
ہے اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے۔ حکومت کی یہ سازش اب عدالت کے گلے سے
نہیں اترپارہی ہے۔ اس فیصلے نے اس مایوسی کا بھی خاتمہ کردیا ہے کہ اگر کسی
پر یواے پی اے یا این ایس اے لگادیا جائے تو عدلیہ اس کے خلاف بے
یارومددگار ہوجاتا ہے۔ اس طلسم کو توڑنے کےلیے جسٹس سدھارتھ مردل اور انوپ
جے بھمبانی خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ اس نذیر کے ذریعہ عمر خالد اور
ان کی مانند بے شمار بے قصور لوگوں کی رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ اب بجا
طور پر توقع کی جارہی ہے کہ حکومت کی مخالفت کے سبب پابند سلاسل کیے جانے
والے کہ سارے مظاہرین جلد ہی رہا ہوجائیں گے ۔ حکومت اپنی مزید رسوائی کی
خاطر عدالت عظمیٰ میں اس فیصلے کے خلاف رجوع کیا ہے مگر امید ہے وہاں سے
بھی وہ بے آبرو ہوکر لوٹے گی۔ آصف کی رہائی اور چراغ کی رسوائی مزاحمت کی
فتح اور مداہنت کی شکست کا مژدہ سناتی ہے۔ بقول علامہ سیماب اکبر آبادی؎
بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی
کہ انقلاب کے پردے میں آ رہا ہے کوئی
|