قدرت کا ہر نظام کسی نہ کسی اصول
کے تابع ہے صدیوں میں ایسا ہو تا ہے کہ جب قوم میں رہبر و رہنما اور قائد
جنم لیتا ہے چو نکہ قائد قوموں کے لئے قدرت کا عطیہ ہو تے ہیں اس لئے قدرت
اپنے عطیے کی ناقدری کسی طور پر گوارا نہیں کر تی، تاریخی تنا ظر میں یہ
بات ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ جب زمانہ کسی تاریخ ساز یا نظریہ ساز ہستی
کو نظر انداز کر دے تو اس تخلیق کار ہستی کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن اگر کوئی
تخلیق کار یا تاریخ ساز ہستی زمانے کو نظر انداز کر دے تو وہ زمانہ تباہ و
بر باد ہو جاتا ہے اس لئے جن قو موں نے قدرت کے اس عطیے کی دل و جان سے قدر
کی وہ سرخرو ہوئیں اور جن قوموں نے قدرت کے اس عطیہ کی ناقدری و نا شکری کا
مظاہرہ کیا وہ ذلت و رسوائی کا شکار ہو ئیں اور تباہی ان کا مقدر بنی۔
دنیا کی ہر قوم اپنے تخلیق کا ر و تاریخ ساز ہیرو پر فخر کرتی ہے مثلا
فرانس نپو لین اور ژاں پال ساتر پر فخر کر تا ہے بر طا نیہ شیکسپئیر ، چر
چل ، بر ٹر ینڈرسل پر فخر کر تا ہے اہل مصر اپنے عجیب و غریب احرام تعمیر
کرنے پر فخر کرتے ہیں ، بر صغیر میں مسلم انڈیا کو امیر خسرو، مرزا غالب،
میر تقی میر، سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان ، حسرت مو ہانی اور سر سید احمد خان
پر فخر ہے تو اسی مسلم انڈیا کے وارث پاکستان نے جناب الطاف حسین بھائی کو
جنم دیا گو انسانی تاریخ کے لاثانی نظریہ ساز رہنما ہیں۔
جناب الطاف حسین کا نظریہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی عالمی فکری اثاثہ ہے
اور وہ دن دور نہیں جب دنیا کی با شعور قو میں اپنی یونیورسٹیوں میں حقیقت
پسندی عملیت پسندی پر ریسرچ ورک کریں گی جناب الطاف حسین ایک دیو مالا ئی
ہیرو جسے دیو مالا سے اتنی ہی نسبت ہے جتنی کہ حقیقت سے۔۔۔۔۔
جناب الطاف حسین لیڈر آف دی نیو میلینیم ہیں۔جناب الطاف حسین نے پاکستان کے
کروڑوں عوام کے حقوق اور آزادی کی لئے حق پرستا جدو جہدد کا آغاز عمر کے اس
حصے میں کیا جس میں ینگسٹرز کو رنگوں کی تر بیت کا بھی ڈھنگ نہیں ہو تا یہ
جناب الطاف حسین کی لاثانی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صرف 25 سال کی
عمر میں قوم کو شعوری طور پر بیدار کر نے کے لئے عملی جدو جہد کا آغاز کر
دیا۔
پاکستان میں حقوق سے محروم کروڑوں عوام کی خوش بختی ہے کہ قدرت نے انہیں
ایک ایسے قائد سے نوازا جس نے اپنی دانائی اور حکمت سے قوم کو اندھیروں سے
نکال کر روشنی میں لا کھڑا کیا اور اب قوم کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے
کہ وہ قدرت کے اس انمول اور حسین تحفے کی صدق دل سے قدر کرے اور قائدسے
اپنی عقیدت و محبت کے رشتے کو ہر صورت میں بر قرار رکھے تاکہ نہ صرف
پاکستان سے فیوڈل سسٹم کاخا تمہ اور مڈل کلاس آرڈر کا قیام ہو بلکہ انٹر
نیشنل کمیو نیٹی میں بھی پاکستان کو با وقار مقام ملے اور اس آ خری جملے کے
ساتھ اجازت چا ہونگا کہ جو قد رت کا فیصلہ ہے وہی ہم سب کا فیصلہ ہے اور ہم
سب کا فیصلہ ہے الطاف رہنما۔ |