"میرا پاکستان میرا گھر" ٹوپی ڈرامہ

ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
پاکستانی عوام بڑی سادہ لوح ہے جو ستّر سال سے زیادہ عرصہ سے اربابِ اقتدار سے خیر اور بھلائی کی اُمید لگائے ہوئے ہے۔ حالانکہ ہر دور میں رہنماؤں کے روپ رہزنوں سے ہی اُن کا پالا پڑتا رہا ہے۔ جو بھی اقتدار کی مسند پر براجمان ہوا، اُس نے عوامی اور قومی مفاد کی بجائے اپنی ذاتی مفاد کو ہی ترجیح دی۔ لیکن پاکستانی عوام ہمیشہ حوصلہ اور مستقل مزاجی سے اُنہی رہبروں سے اُمید وفا لگائے بیٹھے ہیں۔
ہر دور میں مملکت خدا داد پاکستان کو ہنگامی حالات کا سامنا رہا ہے لیکن ہر طرح کے نا مساعد اور سخت حالات میں بھی پاکستانی عوام ذرا بھی نہیں گھبرائے اور مستقبل میں بہتری اور ترقی کی اُمید پر تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ ایسے ہی حالات میں 2018ء کے انتخابات میں پاکستانی عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے کامیاب کر کے ایوان اقتدار پر براجمان کیا کیونکہ تحریک انصاف کا منشور عوامی حقوق کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی تھا۔اُنہیں عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا نظر آیا اور انہوں نے جناب عمران خان صاحب سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں کہ وہ اُن کی محرومیوں کا اِزالہ کریں گے اور اُن کی حق تلفیوں کی تلافی کریں گے اور اُن کے دکھوں کا مُداوا کریں گے۔

وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب کی ایمانداری اور نیک نیتی پر کوئی شک نہیں۔ آپ کرکٹ کے زمانے سے ہی ایمانداری میں مشہور ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اقتدار کے تین سال گزرنے کے باوجود آپ کی حکومت اب تک عوامی فلاح و بہبود میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکی اور آپ کی حکومت کی تائید وحمایت کرنے والے پیر وجواں بھی اب مایوسی کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ایسا کیوں ہے کہ آپ کی حکومت پوری طرح سے عوام کو مطمئن نہیں کر سکی؟ آپ کی شدید خواہش کے باوجود عوامی فلاح وبہبود کا خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہیں ہو سکا؟

پاکستانی عوام کو اس بات کا اِدراک ہے کہ ہر شعبہ میں مافیا کی اجارہ داری ہے جن کا کام ہی ہرعوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں رخنے ڈالنا اور اپنے ذاتی مفادات کا تسلسل اور تحفظ کرنا ہے۔یہی حال آپ کی طرف سے پیش کئے گئے منصوبہ "میرا پاکستان میرا گھر" کا بھی ہے۔ بظاہر اس منصوبے سے کم آمدنی والے طبقے اور تنخواہ دار سرکاری وغیر سرکاری ملازمین کو اپنے گھر کا خواب پورے ہونے کے لئے اُمید کی کرن نظر آئی تھی لیکن اس منصوبے میں بھی طاقتور بنک مافیا نے پاکستانی عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کی انتہا کر دی۔ اُن کا رویہ اِس معاملے میں بڑا عجیب ہے۔ نہ بھی نہیں کرنی اور دینا بھی کچھ نہیں اُن سب بنکوں کا نصب العین ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی معاہدہ کیا جائے تو اُس کے لئے دستاویز ی ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ لیکن "میرا پاکستان میرا گھر" سکیم کا معاملہ ہی بڑا عجیب ہے۔ اس میں دستاویزات کی بھول بھلیوں میں قرض کے لئے درخواست دینے والے صارف کو ایسے گھمایا جاتا ہے کہ اُس کو اپنے گھر واپسی کا راستہ بھی بھول جاتا ہے۔عام لوگ شدید مجبوری کی حالت میں قرضلینے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ بڑے مگر مچھ عوامی دولت ہڑپ کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔

میں نے سرکاری نوکری حاصل کرنے کے بعد پہلی بار 2012ء میں اور دوسری بار 2016ء میں نیشنل بنک سے ایڈوانس سیلری کی مد میں قرض لیا تھا۔ اُس قرض میں مجھے کسی پیچیدہ طریقہ کار کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا کیونکہ اُس قرض میں بنک کوبھاری سود کا فائدہ نظر آرہا تھا لیکن اب "میرا پاکستان میرا گھر" سکیم کے لئے میں نے درخواست جمع کروائی ہے تو قدم قدم پر پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شاید بنکوں کو اس سکیم میں کم منافع مِل رہا ہے اِس وجہ سے وہ اِس منصوبہ کے تحت کسی صارف کو قرض دینے کے لئے آمادہ نہیں اور اسی لئے ہر بنک اپنی اپنی مرضی کی پالیسی وضع کر کے صارفین کی حوصلہ شکنی بلکہ اعصاب شکنی کرنے پہ تُلا ہے۔

جنابِ وزیرِ اعظم صاحب!
میرے ساتھ بھی اِس سکیم کے تحت نہایت ذلت آمیز اور رُسوا کن سلوک ہوا ہے۔ آپ کی خدمت میں اپنی روداد اس لئے پیش کر رہا ہے کہ شاید آپ بنکوں کو عوام کے استحصال سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں یا اِس سکیم کے تحت درخواست دینے والے افراد مجھ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنے ارادے سے باز آجائیں اور مزید ذلت ورسوائی سے بچ جائیں؟

میں نے مورخہ 13جنوری 2021ء کو ABL سرگودھا روڈ برانچ چنیوٹ میں اس سکیم کے تحت قرض کے حُصول کے لئے درخواست جمع کروائی۔ بنک مینیجر نے انتہائی اچھے اندازسے میری رہنمائی کی اور مختلف اوقات میں مختلف دستاویزات کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ میں نے درخواست جمع کرواتے واضح طور پر بتایا تھا کہ میں اپنے گاؤں موضع متھرومہ تحصیل و ضلع چنیوٹ میں واقع اپنے پلاٹ پر زیر تعمیر مکان کے لئےقرض کا خواہاں ہوں اور یہ کہ میرا یہ پلاٹ بذریعہ انتقال میرے نام منتقل ہوا ہے۔

درخواست جمع ہونے کے بعد میں مسلسل برانچ مینیجر سے رابطے میں رہا اور اُس کی رہنمائی میں میں نےمختلف اوقات میں بڑی جدّ وجہد اور کثیر رقم خرچ کرنے کے بعد تمام مطلوبہ دستاویزات بنک میں جمع کروا دیں۔ مورخہ 11جون 2021ء کو بنک کی طرف سے مقرر کردہ نمائندہ نے میرے زیرِ تعمیر گھر کا معائنہ کیا اور اس کام کے لئے میں نے آٹھ ہزار روپے فیس بھی ادا کر دی۔ بعد ازاں بنک کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کے پاس مورخہ 15جون 2021ء کو فیصل آباد میں اُس کے دفتر میں ملاقات کی اور بنک کی ہدایت کے مطابق قانونی رائے طلب کی تو اُس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ اِس قرض کے لئے اہل نہیں۔ کیونکہ ہمارا بنک دیہات میں واقع پلاٹ اور بذریعہ انتقال حاصل کی گئی زمین پر قرض نہیں دیتا۔
اس کے بعدمیں نے ABL ہیڈ کوارٹر فیصل آباد میں ایریا مینیجر عثمان نذیر سے اِس بارے میں ملاقات کی کیونکہ اس سے پہلے اس کیس کے معاملے میں میں نے متعدد بار اس سے بھی رابطہ کیا تھا اور اس کی طرف دستاویزات بذریعہ WhatsApp بھیجتا بھی رہا تھا ۔میں نےاُسے سارے معاملے کے بارے میں آگاہ کیا تو اُس نے بھی صاف انکار کردیا اور میں اِس سارے قصے میں طویل جد وجہد کے بعدذلت و رسوائی کو دامن میں سمیٹ کر بوجھل قدموں سے واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

راستے میں میرے ذہن میں بے شمار سوال اُبھرتے رہے جن کا جواب مجھ سے اب تک نہیں بن سکا۔ اگر آپ اِن سوالات کے جوابات میں میری مدد کر دیں تو عنایت ہوگی۔

کیا دیہات میں رہنے والے پاکستانی شہری نہیں؟ کیا دیہات میں رہنے والوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے؟ کیا انتقال کے ذریعے زمین کی خرید وفروخت غیر قانونی ہے؟ اگر یہ غیر قانونی ہے تو اب تک دیہاتوں میں اس کے ذریعے زمین کی خرید وفروخت کا عمل کیوں جاری ہے؟

مجھے اِس بات پہ دکھ نہیں ہے کہ مجھے قرض نہیں ملا۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ بلا وجہ طویل عرصہ کے لئے مجھے ذلیل وخوار کیوں کیا گیا؟قرض کا حصول ہمارا حق نہیں۔ اسے بنکوں کی طرف سے دی گئی خیرات ہی سمجھئے۔ لیکن کیا خیرات دیتے ہوئے لوگوں کی عزت و وقار کا کچھ خیال نہیں رکھا جاتا؟

کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے دور میں ایک چڑیا نے ایک شکاری کے بارے میں آپؑ کے دربار میں شکایت کی تو آپؑ نے اُس سے پوچھا کہ تو اُس شکاری کی شکایت کیوں کر رہی ہے حالانکہ تیرا شکار کرنا اُس کا حق ہے؟ اُس چڑیا نے جواب دیا کہ مجھے اُس کے حق پر کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے اعتراض اِس بات پر ہے کہ وہ متقی اورزاہد کے روپ میں مجھے دھوکہ دے کر میرا شکار نہ کرے بلکہ شکاری بن کر مجھ پر تیر چلائے۔

تمام بنکوں سے میری یہی گزارش ہے کہ ہمیں بے شک قرض سے نہ نوازیں لیکن دھوکہ تو نہ دیں۔ شروع میں کھلم کھلا انکار کر دیں تو ہمیں آپ پرکوئی اعتراض نہ ہو گا کیونکہ آپ کا حق ہے کسی کو قرض دینا یا نہ دینا۔ اگر کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہے تو وہ عوام ہی ہیں جو ستر سال سے زیادہ عرصہ سے بغیر کسی حق کے جی رہے ہیں اور ذرا بھی نہیں گھبرائے اوران شاء اللہ آئندہ بھی نہیں گھبرائیں گے کیونکہ اب تو ہمارے وزیراعظم صاحب بھی اُنہیں نہ گھبرانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
یہ روداد تو بس اس لئے پیش کر دی ہے کہ:
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
فقط
پاکستان کا خیر خواہ
"سارا پاکستان میرا گھر"
میرے کیس کی مختصر تاریخ درج ذیل ہے:
نمبر شمار تفصیل تاریخ
01 درخواست جمع کروائی 13-01-2021
02 فرد ملکیت (کمپیوٹرائزڈ) 14-01-2021
03 ابتدائی رپورٹ بابت منظوری قرض 18-02-2021
04 اکاؤنٹ کھلوایا ABL میں 19-02-2021
05 گھر کا نقشہ بنوایا 07-04-2021
06 تخمینہ لاگت 07-04-2021
07 مصدقہ نقل انتقال کا حصول 16-04-2021
08 عکس شجرہ کا حصول 22-04-2021
09 NEC کا حصول 26-04-2021
10 نمائندہ بنک کا موقع کا معائنہ بعوض فیس- 8000 روپے 11-06-2021
11 قانونی رائے کے لئے بنک کے مقرر کردہ ایجنٹ وکیل سے ملاقات 15-06-2021
12 ABL ہیڈ کوارٹر فیصل آباد کے ایریا مینیجر سے ملاقات 15-06-2021
13 نتیجہ آپ اہل نہیں لہذا درخواست رد کی جاتی ہے
(بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچہ سے ہم نکلے)
 

Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 58141 views I am proud to be a Muslim... View More