حقوقِ انسانی کمیشن پر شب خون

موجودہ سرکار کا طریقۂ کار بہت دلچسپ ہے۔ بہت سارے کام کیے بغیر وہ اپنے نام کرلیتی ہے اور کئی کام نام لیے بغیر کر گزرتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کورونا سے نمٹنا ہے ۔ وزیر اعظم کے مطابق پہلی لہر مرکزی حکومت کے سبب بہ آسانی قابو میں آگئی اور دوسری لہر ریاستی سرکاری کی وجہ سے بے قابو ہوگئی حالانکہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اسی طرح یہ حکومت گزشتہ سرکاروں کے کارناموں کو نئے نام دے کر اپنے نام کرلیتی ہے اور بغیر اعلان کیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردیتی ہے۔ اس بات کو اب سبھی سوچنے سمجھنے والے لوگ تسلیم کرچکے ہیں کہ فی الحال ملک میں ہنگامی حالات نافذ ہیں مگر اس کا باقائدہ اعلان نہیں کیا گیا اس لیے کہ ایمرجنسی کے بھی متعین حدود و قیود ہیں لیکن اگر بغیر اعلان کے اس کا نفاذ ہوجائے تو وہ شتر بے مہار کی مانند من مانی بن جا تی ہے۔ یہی حال آئینی اداروں کا ہے مثلاًسی بی آئی کوعملاً پنجرے کا طوطا بنادیا گیا ہے ۔الیکشن کمیشن کاجو تھوڑا بہت تقدس تھا وہ وقت کے ساتھ پامال کردیاگیا ہے ۔ گورنر کے وقار کو خاکی نیکر والے خاک میں ملا چکے ہیں ۔ اس کے بعد عدلیہ پر سیندھ ماری گئی تو رنجن گوگوئی اور شرد بوبڑے جیسے چیف جسٹس نصیب ہوئے اور اب قومی حقوقِ انسانی کمیشن پر شب خون مار کر اسے سولی پرچڑھا نے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

یکم جون کو گذشتہ 6 ماہ سے خالی این ایچ آر سی کے سربراہ کی نامزدگی عمل میں آئی ۔ وزیر اعظم کی قیادت میں اعلی سطحی کمیٹی نے سابق جسٹس ارون مشرا کو اس عہدے ہر فائز کرنے کا اعلان کیا۔ اس کمیٹی کے ارکان میں وزیر داخلہ امیت شاہ، ایوان زیریں کے اسپیکر اوم بڑلا، ایوانِ بالا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے اور ڈپٹی اسپیکر ہری ونش شامل تھے۔ اسی کے ساتھ جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مہیش کمار متل اور آئی بی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راجیو جین کو این ایچ آر سی کہ رکنیت سے نوازہ گیا۔ جسٹس مشرا چونکہ سپریم کورٹ کے جج رہتے ہوئے وزیر اعظم مودی کی تعریف کرچکے ہیں اس لیے ان کی اس وقت بھی تنقید کی گئی اور اب بھی ہورہی ہے۔ ان کے ساتھ اور بھی کئی تنازعات وابستہ ہیں مثلاً جسٹس آنجہانی لویا کیس سے وابستگی اور پرشانت بھوشن توہین عدالت کےمعاملہ کو طول دے کر رسوا ہونا وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے 79 دانشوروں اور سماجی جہد کاروں نے جسٹس ارون مشرا کے اس اہم عہدے پر تقرر کی مشترکہ خط لکھ کر مخالفت کی۔

اس بار ایک روایت شکنی یہ بھی ہوئی کہ کمیشن کے پچھلے 27 سال میں یہ پہلا موقع ہے جبکہ حکومت نے چیئرمین کا عہدہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے بجائے کسی اورجج کومقرر کیا ہے۔ویسے اس مرتبہ مذکورہ عہدےکے لیے تین سابق چیف جسٹس مدن لوکر ، جسٹس کورین جوزف اور جسٹس دیپک گپتا کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے دوتو سرکار کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کے جرم عظیم کا ارتکاب کرچکے ہیں اور جسٹس دیپک مشرا کا حقوق انسانی کی بابت ریکارڈبہت بہتر ہے اس لیے ان سب کو درکنارکرکے جسٹس ارون مشراپر نظر عنایت کی گئی۔کانگریس رہنما کھڑگے کا مشورہ تھا چونکہ این ایچ آرسی میں زیادہ تر شکایتیں دلت،آدی واسی یا اقلیتی طبقات سے متعلق ہوتی ہیں، اس لیےکمیشن میں ان کا کم از کم ایک نمائندہ ہونا چاہیےلیکن دیگرارکان نےیہ کہہ کر اس تجویز کو مسترد کردیا کہ اس بنیاد پرارکان کی تقرری کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اس پر کھڑگے کی دلیل تھی کہ اس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔اس نہایت معقول سفارش کے نامنظور ہونے پر ملیکارجن کھڑگے نے اپنی مخالفت درج کرائی تھی ۔

این ایچ آرسی کی بابت حکومت کی عدم دلچسپی کا ایک یہ عالم ہے کہ صدارت کا اہم عہدہ جملہ پانچ مہینے سے یعنی دسمبر سے جسٹس ایچ ایل دتو کی سبکدوشی کے بعد خالی پڑا رہا ۔ اس دوران وقت کمیٹی کے سربراہ وزیر اعظم اور اس کا اہم ترین رکن یعنی وزیر داخلہ کے قلب و ذہن پر مغربی بنگال کی انتخابی مہم سوار تھی ایسے میں انسانی حقوق جیسی چیزیں ان کے نزدیک غیر اہم ہو گئی تھیں ۔ حقوق انسانی کمیشن کا قیام کا مقصد عوام کے حقوق کی پامالی کے خلاف مدافعت ہے۔ لوگ اس سے اس وقت رجوع کرتے ہیں جب انتظامیہ یا حکومت ان کے حقوق بحال کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی معاملات میں عوام کے حقوق کی پامالی میں انتظامیہ اور سرکار ملوث ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت پیش آتی ہے جو مظلوم و مقہور لوگوں کے تئیں حساس ہو اور حکومت و انتظامیہ کے زیر اثر نہ ہو۔ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی خاطر اس کے سربراہ کا دردمند ہونا ضروری ہے تاکہ کوئی مظلوم اگر گوں ناگوں مجبوریوں کے سبب آگے نہ آسکے تو کمیشن ازخود اس کا نوٹس لے کر کارروائی کرے اور بلا تفریق و امتیاز ظالموں کی گرفت کرے ۔ اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے وہ کوئی سرکاری دباو قبول نہ کرے ۔

اس تناظر میں اگر جسٹس ارون مشرا کی شخصیت کو جانچا اور پرکھا جائے ان کا پچھلے سال فروری میں دوران ملازمت دیا جانے والا متنازع بیان شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ۔ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ مودی ’بین الاقوامی سطح پر سراہے گئے دوررس شخصیت کے حامل ہیں، وہ عالمی سطح پر سوچتے اور مقامی سطح پر کام کرتے ہیں۔‘اس طرح کے مرعوب شخص سے یہ توقع کیسے کی جائے کہ وہ حکومت کے ذریعہ کی جانے والی حقوق کی پامالی پر انگشت نمائی کرسکے گا؟ بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ٹال مٹول کے ذریعہ حکومتی زیادتی کی پردہ پوشی کرے گا اور بعید نہیں کہ انہیں جائز قرار دینے کی سعی کرے ۔ ایسی صورت میں حقوق انسانی کمیشن کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا ۔ موجودہ سرکار ایمنسٹی جیسے آزاد بین الاقوامی ادارے بوریہ بستر گول کرنے پر مجبور کرچکی ہے۔ وہ ادارہ انسانی حقوق کی پامالی کو اجاگر کرکے صدائے احتجاج بلند کرتا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اول تو ان واقعات تحقیق و تفتیش میں رکاوٹ پیدا کی گئی اور اس کے بعد ان کی سماعت و تدارک کا دروازہ بند کردیا گیا۔

ان مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر ایک ایسے وفادار فرد کو کمیشن کا سربراہ بنایا گیا جو حکومت کے چشم ابرو کی اطاعت کرے۔ اس عہدے کے لیے عوام کی مخالفت اور سرکار کی بیجا حمایت دونوں سمِ قاتل سے کم نہیں ہےلیکن جسٹس ارون مشرا کا کردار کیسا ہوگا اس کا اندازہ لگانے کی خاطر برلا سہارا ڈائری کے معاملے کی مثال کافی ہے۔ 2013 میں جب مودی جی انتخابی مہم چلارہے تھے تو اس وقت 25اور 40 کروڈ روپیوں کی ادائیگی اس ڈائری میں درج ہے۔2017 میں یہ قضیہ جسٹس ارون مشرا کے سامنے آیا تو انہوں نے فرمایا ایسے بڑے لوگوں پر منتشر اوراق(loose papers) کی بنیاد پر کارروائی ممکن نہیں ہے ۔ مشرا جی بھول گئے کہ قانون کی نظر میں کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے اس کے آنکھ پر پٹی باندھی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کل کوئی غریب مزدور حقوق انسانی کمیشن میں آکر کسی اعلیٰ افسر کی شکایت کرے اور اسے اسی قسم کا جواب ملے تو وہ کیا کرے گا؟ اور کہاں جائے گا؟

وزیر اعظم کی خوشنودی کے لیے جسٹس ارون مشرا نے سن 2015 میں سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کی عرضی کو خارج کردی ۔ اس وقت یہ جناب چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی اس بنچ میں شامل تھے جس کے سامنے سنجیو بھٹ نے گجرات فسادات کی ازسرِ نو تفتیش کی گہار لگائی تھی۔ اس مطالبے کی بہت بڑی قیمت حق شناس سنجیو بھٹ کو چکانی پڑی اور انہیں ایک بے بنیاد الزام کے تحت 30 سال کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ سنجیو بھٹ کے ساتھ ہونے والی ناانصافی میں بھی بلاواسطہ ارون مشرا کا ہاتھ ہے۔ جس شخص نے اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے سنجیو بھٹ جیسے حق پسند پولس افسر کی حق تلفی اس کی نظروں میں غریب قبائلیوں کی کیا بساط؟ ارون مشرا نے عدالتِ عظمیٰ میں حکومت کے ذریعہ قبائلی عوام کے حقوق کی پامالی کا مسئلہ پر سرکار کے حق میں فیصلہ سناکر حکومت کی عملاً حمایت کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ۔ ایسی مایوس کن صورتحال میں عام آدمی ازخود اس ادارے کا رخ کرنا بند کردے گا ۔ شاید حکومت یہی چاہتی ہے کہ یہ سفید ہاتھی موجود تو ہو لیکن عوام کے کسی کام نہیں آئے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226951 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.