بے نظیر بھٹو عہد ساز شخیصت

 21جون سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا یوم پیدائش ہے اس سال 68ویں سالگرہ کی تقریبات دنیابھر میں منائی گئیں جو چاروں صوبوں کی زنجیر نعرہ بے نظیر کے نام سے موسوم اور شہید بے نظیر بھٹو کی قومی خدمات کا اعتراف ہے۔ انہوں نے اپنے نظریئے کے تحت آئین کی بالادستی پارلیمنٹ کی تکریم کیلئے جدوجہد جاری رکھی۔ قوم کی بیٹی نے آمریت اور دہشتگردی کے خلاف مردانہ وارجنگ میں ملک پر جان نچھاور کردی جس کی بناء پر بے مثال قومی راہنما بے نظیر بھٹو شہید کی ملکی جمہوری، سیاسی و عوامی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی انہی اوصاف کی بدولت بے نظیر بھٹو شہید کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ سال گذریں یا صدیاں بیت جائیں ہم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی طویل سیاسی جدوجہد، عظیم قربانی اور لازوال انسان دوست فلسفہ کو ہمیشہ یادرکھیں گے جس کی بدولت وہ کئی دہائیوں تک پاکستانی عوام کے دلوں کی حکمران بنی رہیں جبکہ عوام دشمن قوتوں شہید محترمہ بینظیر بھٹو پر کئے جانے والے مظالم پر انسانیت ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔ عوام نے ایک لمحے کے لئے بھی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو فراموش نہیں کیا کیونکہ تاریخی طور پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو فراموش کرتی ہے نہ دشمنوں کو پہچاننے میں غلطی کرتی ہے۔ تاریخی اعتبارسے بے نظیر بھٹو عالم ِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ پہلی بار آپ 1988ء میں پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا الزام لگا کر اپنے خصوصی اختیارت سے اسمبلی کو برخاست کیا اور نئے الیکشن کروائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو 21 جون، 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول (Lady Jennings Nursery School) اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری (Convent of Jesus and Mary) کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ (Rawalpindi Presentation Convent) میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انہیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا۔ انھوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اپریل 1969ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے درمیان کافی مقبول تھیں بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی پہلی خاتون تھیں جنہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ اور امریکہ بھیجا گیا۔ اس موقع پر ذوالفقارعلی بھٹو اپنی بیٹی کو آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش لیکر گئے، اس دوران باپ بیٹی میں یہ مکالمہ ہوا ’’تم امریکہ میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھو گی جو تمہارے لئے حیرت کا سبب بنیں گی اور کچھ ایسی بھی جو ذہنی صدمے کا باعث بنیں گی لیکن مجھے اْمید ہے کہ تم میں حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت ہے۔بے نظیر بھٹو برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔ لیکن ان کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اتحاد PNAکی احتجاجی تحریک نے پرتشدد مظاہروں کا روپ دھارلیا بھٹو نے کئی بڑے شہروں میں مارشل لاء لگادیا تحریک ِ نظام مصطفےٰ نامی تریک کے دوران سینکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے گھمبیرحالات کی بناء اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا بھٹو فیملی اور پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے رہنماؤں کو گرفتارکرلیا گیا ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذو الفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ 1981ء میں مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا۔ جس میں آمریت کے خلاف 14 اگست 1983ء سے بھر پور جدوجہد شروع کی، تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مصطفےٰ جتوئی نے دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن عوام نے جدوجہد جاری رکھی۔ 1984ء میں بے نظیر بھٹو کو جیل سے رہاکردیاگیا جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد جب اپریل 1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اگلے سال بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جِدوجْہد کا دامن نہیں چھوڑا۔ 17 اگست، 1988ء میں ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا دروازہ کھل گیا۔ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔ جس نے نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ اور بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اگست، 1990ء میں بیس ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ 2 اکتوبر، 1990ء کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے الائنس بنایا۔ جس کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔ جس کے بعد اکتوبر 1993ء میں عام انتخابات ہوئے۔ جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق لغاری نے 1996ء میں بے امنی اور بد عنوانی، کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک الزام یہ بھی تھا کہ بے نظیر بھٹو اپنے پہلے دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو امریکا کے کہنے پر رول بیک کرنے کے لیے تیار ہوگئیں تھیں لیکن آرمی کے دباؤ کی وجہ سے نہ کر سکیں اس بات کو بے نظیر بھٹو کی پاکستان دشمنی تصور کیا گیا خود بے نظیربھٹو اور آپ کے خاوند آصف علی زرداری پر مالی کرپشن کے بیشتر الزامات میں مقدمات قائم کردئیے ہیں جبکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس سلسلہ میں ان پر کرپشن کے الزامات میں مقدمات درج ہوئے ۔ اکتوبر 2007ء میں بینظیر امریکی امداد سے پرویز مشرف کی حکومت سے سازباز کے نتیجے میں اپنے خلاف مالی بدعنوانی کے تمام مقدمات ختم کروانے میں کامیاب ہو گئی مقدمہ کی سماعت کے دوران نیب نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کئے ۔ بلاول بھٹو زرداری پی پی پی چیئرمین نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ اپنی شہید ماں کے اس نامکمل مشن کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے جو پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور عوام کو خوشحال بنانے کا مشن تھا۔بے نظیر بھٹو کا ایک بیٹا دو بیٹیاں بلاول بھٹو زرداری، محترمہ بختاور بھٹو زرداری، محترمہ آصفہ بھٹو زرداری ہیں 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیربھٹو نے روالپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ ان کی گاڑی جلسہ گاہ سے نکل رہی تھی کہ ایک خود کش دھماکے دوران بے نظیر بھٹو ہلاک ہو گئیں۔ ان کی ہلاکت پر ملک بھر، بالخصوص صوبہ سندھ میں بد امنی پھیل گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ایک ٹریبیونل نے بھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات کی تھیں لیکن تاحال ان کے قاتلوں کو بے نقاب نہیں کیا جاسکا لگتاہے یہ قتل بھی ایک معمہ بن کررہ جائے گا۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 338414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.