آزاد کشمیر کی سیاست باالخصوص
26جون2011ءکے انتخابات نے پاکستانی سیاست اور حکومت پر بحران کی کیفیت پیدا
کردی اور مسئلہ کشمیر کو بھی سوالیہ نشان بنادیا۔ حکومت کی مضبوط اتحادی
جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے آزاد کشمیرقانون ساز اسمبلی کی دو نشستوں پر
انتخابات کو ملتوی کرنے کو بنیاد بنا کر نہ صرف حکومت سے علیحدگی کا اعلان
کیابلکہ سندھ میں گورنر شپ سے استعفےٰ کے علاوہ اب وفاق اور صوبے میں
اپوزیشن میں بیٹھنے کےلئے درخواستیں بھی جمع کرادی ہیں۔ اگرچہ تاحال متحدہ
کے استعفےٰ منظور ہوئے ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے متحدہ کی حکومت سے
علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کیا ہے تاہم اب کی بار متحدہ کے اقدام سے ایسا
لگتا ہے کہ یہ علیحدگی حتمی ہے۔ اکثر مبصرین کو اب بھی یقین نہیں ہے کہ
متحدہ حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں رہے گی کیونکہ گزشتہ 8 سال کے دوران متعدد
مرتبہ متحدہ نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور پھر واپسی کی۔
چند روز قبل متحدہ کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ شیر آیا
ہے لیکن کوئی یقین نہیں کرتا۔ دراصل اس میں شیر کا قصور ہے نہ ہی لوگوں کا،
اصل قصور تو منادی کا ہے جو آئے روز شیر آئے، شیر آئے کی صدا دیتا رہااور
لوگ دیکھتے تو کہتا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا۔ آخر شیر آہی گیا اور اس نے
چیر پھاڑ کی۔ منادی کرنے والا اب کی بار حقیقت میں شیر آیا، شیر آیا اور
بچاﺅ بچاﺅ کی آوازیں دیتا رہا لیکن لوگ پہلے کی طرح اس کو بھی مذاق سمجھتے
رہے۔ یوں منادی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پاکستانی سیاست میں لگتا ہے
کہ اب کی بار شیر واقعی آیا ہے اس کی کچھ حقیقی علامتیں بھی دکھائی دے رہی
ہیں۔ سیاسی عمل میں چیر پھاڑ بھی نظر آرہی ہے اور دہاڑ بھی سنائی دے رہی
ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ شیر کی کھال پہن کر
گیدڑ آیا ہو اور اس کی آوازیں بھی مصنوعی ہوں۔ جب لوگوں کا شور سنے اور
تعداد دیکھے تو واپس نہ جائے، یہی خوف لوگوں کےلئے یقین نہ کرنے کا سبب بن
رہا ہے۔
آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کوبعض لوگ صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی
کی مقبولیت کا ثبوت اور بعض اس کو نواز شریف کی شکست قرار دے رہے ہیں۔
دراصل جو لوگ آزاد کشمیر کے حوالے سے اس طرح کے تبصرے کررہے ہیں، وہ آزاد
کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاست اور وہاں کے انتخابی حالات سے واقف نہیں،
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو
بنیاد بناکریہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے آئندہ
انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کو اسی طرح کامیابی ملے گی۔ یہ بہت بڑی بھول
ہے۔ اس لئے کہ آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان یہاں انتخابات کے وقت پاکستان
کے سیاسی نظریات اور ملکی سیاسی شخصیات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے بلکہ
اکثریت اس بات کو دیکھتی ہے کہ انتخابات کے وقت پاکستان میں کس کی حکومت ہے
اور ان کےلئے فنڈز کی فراہمی میں سب سے زیادہ معاون اور مددگار کون ثابت
ہوسکتا ہے اور ان علاقوں میں علاقہ یا برادری ازم کا بھی بہت زیادہ خیال
رکھا جاتاہے۔ اگر آزاد کشمیر کے ماضی کے 7 اور گلگت بلتستان کے 12 انتخابات
کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان علاقوں میں وہی لوگ کامیاب
ہوتے رہے ہیں جن کو پاکستان میں موجود حکومتوں کی حمایت و سرپرستی حاصل رہی
ہے۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس کامیابی میں دھاندلی کا ایک بہت عنصر شامل ہوتا
ہے کیونکہ یہاں انتخابات کے دوران پٹواری، تحصیلدار، نائب تحصیلدار اور
مقامی پولیس کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے منتخب
نمائندوں کی زیادہ توجہ انہی بھرتیوں پر ہوتی ہے بعض اوقات مذکورہ بالا
طبقات کے افراد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہوئے اس بڑے
پیمانے پر دھاندلی کر بیٹھتے ہیں کہ اس دھاندلی کے نتیجہ میں جیتنے والوں
کو بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کو تقریباً
ساری جماعتوں نے مسترد کیا ہے۔ اگر کسی نے پاکستان میں مہاجرین کی 12
نشستوں پر الیکشن کے نتائج کو مشکوک اور دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا ہے تو
کوئی آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی ثابت کرنے پر
تلا ہوا ہے۔کوئی ایک جماعت بھی ان انتخابات کو شفاف تسلیم کرنے کے لیے تیار
نہیں ہے ۔موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے تو چیف الیکشن
کمیشن کو باربار پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ، مسلم لیگ( ن)، جماعت
اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، جموں وکشمیرپیپلز پارٹی، جمعیت علماءاسلام آزاد
کشمیر اور دیگر تمام جماعتیں بھی دھاندلی کے الزامات میں ان سے پیچھے نہیں
ہیں یہ تمام جماعتیں ان انتخابات کسی صورت شفاف ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں۔
پی پی پی کے علاوہ سب کا مطالبہ ہے کہ ان انتخابات کو کالعدم قرار دے کر
دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔ ان سب کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں ہونے والی
دھاندلی نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی دھاندلیوں کو بھی پیچھے چھوڑ
دیا ہے۔
اس میں کچھ حقیقت بھی ہے کیونکہ 38 لاکھ آبادی والے آزاد کشمیر میں 23 لاکھ
ووٹوں کی موجودگی ضرور ایک سوالیہ نشان ہے۔ 2006ءسے2011ءتک آبادی میں 3لاکھ
اور ووٹروں میں 4لاکھ60ہزار افراد کا بے مثال اضافہ ایک کرشمہ ہے۔ اگرآزاد
کشمیر قانون ساز اسمبلی کے کشمیر کے اندر کے 29 حلقوں میں2006ءسے2011ءتک
5سال میںووٹرز کے اضافے کا انفرادی جائزہ لیا جائے توان انتخابی حلقوں
میں10سے52فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور زیادہ اضافہ والے حلقوں میں ایک مخصوص
جماعت کی کامیابی بھی ایک بڑا سوال ہے۔ اسی طرح 10 لاکھ مہاجرین کی نشستوں
کےلئے تقریباً 7 لاکھ ووٹروں کا اندراج بھی حیران کن ہے۔ پاکستان کی مجموعی
آبادی 18 کروڑ جبکہ ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ ہے جن میں ایک بڑی تعداد جعلی
ووٹروں کی قرار دی جارہی ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس بات کو
تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی ووٹر فہرستوں میں تین کروڑ 71 لاکھ سے زائد
ووٹوں کا دہرا یا پھر جعلی اندراج ہے۔پاکستان کے شہری علاقوں میں53فیصداور
دیہی علاقوں میں50فیصد جبکہ مجموعی طور پرملک میں 51فیصد آبادی18سال یا اس
سے اوپر کی ہے جبکہ آزاد کشمیر کی ووٹر فہرستوں کے مطابق
تقریباً60فیصدآبادی 18سال یا اس سے اوپر کی ہے،حالانکہ آزاد کشمیر کا اکثر
حصہ دیہی ہے۔اگر ہم آزاد کشمیر میں درج ووٹروں کو ہی مدنظر رکھیں تو یہ بات
واضح نظر آتی ہے کہ دھاندلی کا آغاز ووٹروں کی فہرستوں سے ہی ہوا ہے جس کے
حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں نے بھرپور انداز میں نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ
اس کے ثبوت بھی فراہم کئے لیکن الیکشن کمیشن آزاد کشمیر نے وہ نوٹس نہیں
لیا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔ اب یہی ووٹر فہرست مخالف جماعتوں کےلئے
دھاندلی کا ایک بڑا ثبوت ثابت ہورہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس الیکشن
میں بھی پیپلز پارٹی کو اگرچہ نشستیں ملیں لیکن اس کے ساتھ ہاتھ بھی ہوگیا،
جن لوگوں پر انہوں نے انحصار کیا، ان لوگوں نے ہیر پھیر میں کوئی ضرورت سے
زیادہ ہی ہاتھ مارنے کی کوشش کی ان لوگوں میں آزاد کشمیر کے الیکشن کمشنر
کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر کی تاریخ کے یہ پہلے انتخابات ہیں جن میں تنازعہ کشمیر کہیں بھی
نہیں دکھائی دیا اور اس وجہ سے مسئلہ کشمیر کو ان انتخابات میں انتہائی
سنگین نقصان پہنچا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس الیکشن سے
تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کو فائدہ ملے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ
یہ الیکشن تنازعہ کشمیر کے حوالے سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ ہم ہمیشہ
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کو سوالیہ نشان بناتے رہے ہیں لیکن
کشمیر کے حالیہ انتخابات نے بھارت کو بھی اعتراض کا بہت اچھا موقع فراہم
کیا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستان کو یہ
مشورہ دیا ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے فکرمند ہونے کے بجائے اپنے حالات کی
فکر کرے اور اب تو اس طرح کی سوچ پاکستان کے اندر بھی بعض لوگوں میں پروان
چڑھ رہی ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل کی اصل وجہ کشمیری بنے
ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان عاقبت نا اندیشوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی
معاشی اور سرحدی سلامتی کشمیر سے جڑی ہوئی ہے، کشمیر کے بغیر پاکستان
ادھورا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے الیکشن نے جہاں
تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کئی سوال چھوڑے ہیں، وہیں پر ان انتخابات نے
پاکستان کی موجودہ حکومت اور سیاست کو بھی سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی بحران کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ زرداری کو بچانے کے
لیے گجرات کی شجاعت کہاں تک کام آتی ہے وہ سابق اتحادیوں کو پھر سے متحد
کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر اب کی بار ایم کیو ایم کی پی پی پی سے
علیحدگی طلاق مغلظہ میں بدل جاتی ہے۔ اس کا فیصلہ چند ہی دنوں میں ہوگا
کیونکہ کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ بعض قوتیں مارچ 2012ءسے پہلے پہلے
تبدیلی چاہتی ہیں اور حالات سے بھی یہی لگتا ہے کہ ایساہی ہوگا۔ |