بچگانہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟

ہمارا خطہ تاریخی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اربوں ڈالر جنگ کی نذرکرنے کے بعد امریکی اور نیٹو فوجیں اسی ماہ سے واپسی کا راستہ لے رہی ہیں۔ افغانستان سے نکلتے ہوئے وہ پاکستان مخالف افغان دھڑوں کو مضبوط کر رہے ہیں اور پاکستان کے ازلی دشمن کا افغانستان میں رول بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی پاکستان سے اپنے فوجی انخلاءکے بعد افغانستان میں اپنے اڈوں کے ذریعے پاکستان کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں براہ راست کسی کاروائی کے بجائے افغان گروپوں اور بھارت سے ہی کافی مدد مل سکتی ہے۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم نے کشمیر کے حوالے سے بھی ایک زور دار تھپڑ پاکستانی قیادت کو دے مارا ہے اور ادھر سے مکمل خاموشی یہ ثابت کر رہی ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے بیان میں اچھی خاصی جان ہے۔ وطن عزیز مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، سارے دشمن یک جان ہوکر اس کا گھیراؤ کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں چوہے بلی کا کھیل بدستور جاری ہے۔ حکمران اقتدار کو طول دینے اور مال بنانے میں مکمل طور پر یکسوئی سے جُٹے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن والے بھی بہت ہی معمولی مفادت کے لیے دست و گریباں ہیں۔ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن کے لیے جو کچھ ہورہا ہے، اس کے بعد اپوزیشن کے بارے میں کچھ کہنا عبث ہے۔

حکمرانوں نے آزادکشمیر الیکشن میں جو کردار ادا کیا ہے اور جو کچھ وہ کراچی میں کرنا چاہتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں کو ملک کی سرحدووں پر بڑھتے ہوئے خطرات سے ذرا برابر دلچسپی نہیں۔ سب ہی اپنے، اپنے گھٹیا مفادات کے غلام بنے ہوئے ہیں اور ملک کی کسی کو فکر ہی نہیں۔ یہ وقت اقتدار کی چھینا چھپٹی اور افواج پاکستان کو ہدف تنقید بنانے کا نہیں۔ ہم سب کو ایک ہوکر ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا ہے۔ ملک سلامت رہے گا تو سب کو کچھ نہ کچھ ملتا رہے گا اور اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہوگیا تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ بلوچستان جس صورت حال سے دوچار ہے، کشمیریوں کو جس طرح دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے اور قبائلی علاقہ جات کو جس بیدردی سے خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ اس سے خطرات اور خدشات میں اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ملک کی اقتصادی صورت حال جس کنارے پر پہنچ چکی ہے اور اوپر سے بجلی، گیس، پڑول اور ڈیزل کے نرخوں میں جس رفتار سے اضافہ کیا جا رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غریب عوام کو ایک وقت کی روٹی جو میسر ہے، وہ بھی چھین کر حکمران اپنی جیبیں بھرنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں۔

ان حالات میں حکمرانوں، اپوزیشن جماعتوں اور مقتدر اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور لوٹ مار کو فوری طور پر روک کر وطن کو درپیش مسائل کے لیے یک جان ہوکر کچھ فوری اور کچھ دور رس اقدامات کرنے چاہیے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ سیاستدانوں کو چھوڑیئے، ملک کے دانشور، صحافی، علماء، وکلاء اور بزنس مین کمیونٹی کی طرف سے بھی حالات کو سنبھالا دینے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی۔ کہیں کسی تشویش کا اظہار نظر نہیں آرہا اور کہیں بھی ان مشکلات سے نکلنے کے لیے سوچ بچار کرنے کی کوئی مجالس منعقد ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ درد دل رکھنے والے افراد یونین کونسلوں، شہروں، صوبوں اور مرکز کی سطح پر مل بیٹھ کر کوئی غور و فکر کرتے اور عوام کو نجات کا کوئی راستہ دکھاتے۔ بار کونسلیں سیمینار کرتیں، یونیورسٹیوں میں کوئی غور وفکر ہوتا، سماجی تنظیموں اور اہل دانش کہیں بیٹھتے اور اپنی تشویش کا اظہار کرتے۔ سابق فوجیوں اور سابق بیوروکریٹس کی تنظیمیں ہیں، وہ کوئی ابتداءکرتیں۔ پورا ملک بانچھ، بے فکر اور لا تعلق نظر آرہا ہے۔

پاکستان میں بے حسی تو رہی ہے لیکن اس قدر بے فکر اور لاتعلقی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میں طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور خوانچہ فروشوں کو متوجہ کروں گا کہ وہ گلی، محلوں، بازاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں، چوکوں اور چوراہوں پر مجالس فکر کا انعقاد کریں اور اپنی تشویش سے سیاستدانوں اور مقتدر قوتوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ احتجاج، ہڑتال، مارکٹائی اور باہم جنگ و جدل کا وقت نہیں۔ ایک دوسرے کو ساتھ ملانے، ایک دوسرے کو حوصلہ دینے اور ایک دوسرے کو قوت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کا سہارا بن گئے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کرسکتی اور اگر ہم ایک ہی محلے، ایک ہی گلی اور ایک ہی شہراور ملک میں رہتے ہوئے بیگانہ بنے رہے تو پھر دشمن کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ وقت اپنے اندر کڑھنے کا نہیں، اپنے جذبات کو قوم کے ساتھ شئیر کرنے اور پوری پریشان حال قوم کو ایک قوت میں ڈھالنے کا ہے۔ کوئی اٹھے اور اس کا آغاز کرے۔ جو قدم بڑھائے گا قوم اس کا ساتھ دے گی۔ اپنی ، اپنی ڈفلی بجانے کے بجائے پوری ملت کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہے۔ کون ہے جو یہ کرنے پر آمادہ ہے۔

میں پُر امید ہوں کہ قوم اٹھے گی اور 1947 جیسا جذبہ ایمانی اور وطن دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے یکجان ہو گی اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ناکام و نامراد کر دے گی۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117171 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More