اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2010کو اپنے65ویں
سالانہ اجلاس میں 23جون کو بیواؤں کے عالمی دن کے طور پر منانے کی قرارداد
منظور کی۔گزشتہ 11سال سے دنیا بھر میں اس دن کو منایا جاتا ہے تا کہ بیواؤں
کو درپیش معاشی، سماجی، قانونی اور نفسیاتی مشکلات اور ان کے حل کے لئے
عوام میں آگاہی پیدا ہو سکے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1989 میں شروع ہونے
والی مسلح جدوجہد کے دوران ہزاروں کشمیری نوجوان شہید ہوئے ۔ہزاروں بھارتی
جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔سیکڑوں
کی تعداد میں کشمیری نوجوان قابض بھارتی فوج کی حراست میں قتل کر کے غائب
کئے گئے۔ لا تعداد نوجوانوں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ قتل کر دیئے
گئے یا زندہ ہیں۔ان لاپتہ نوجوانوں کی ازواج کو معلوم نہیں کہ ان کے شوہر
کہاں اور کس حال میں ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا
مردہ۔ اس لئے ان کی واپسی کی انہیں امید ہے کہ شاید کبھی وہ لوٹ آئیں۔ وہ
انتظار کے سوا اور کچھ کر نہیں سکتیں۔ یہی خواتین جو نہیں جانتی کہ ان کے
شوہر زندہ ہیں یا قتل کر دیئے گئے، نیم بیوہ کہلاتی ہیں۔ ان کا رنج و غم
بیواؤں سے الگ نوعیت کا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 31 برس سے جاری تحریک کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ
افراد شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں لا پتہ ہو چکے ہیں۔ہزاروں خواتین
نوجوانی میں بیوہ ہو گئی ہیں اور یتیموں کی تعداد اس سے دگنی یا تین گنا
ہے۔شہید ہونے والوں کی بڑی تعداد 15 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے۔
جس نے کشمیر میں آبادی کے تناسب میں جنس کے لحاظ سے عدم توازن پیدا کر دیا۔
نوجوان بیوہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کشمیریوں کے لیے ایک بہت بڑا
معاشرتی مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔کسی کا والد، کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر، کسی
کا بھائی شہید یا لاپتہ ہوا۔ نیم بیواؤں کی طرح نیم یتیموں کی تعداد بھی
ہزاروں میں ہے۔ کشمیری خاتون پروینہ آہنگر کا نوجوان بیٹا 1991میں قابض
بھارتی فوج نے گرفتاری کے بعد لا پتہ کردیا۔ انہوں نے در در کی خاک چھانی ،
مگر وہ نہ ملا۔ یہی وجہ ہے کہ1994میں اس خاتون نے گمشدگان کے والدین کی ایک
تنظیم ’’اے پی ڈی پی‘‘قائم کی۔ جو آج 300خاندانوں کے کیس اجاگر کر رہی
ہے۔ایسی خواتین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جن کے خاوند یا بیٹے لاپتا ہو
گئے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو آخری بار بھارتی قابض فورسز کی طرف سے
حراست میں لیتے ہوئے دیکھا گیا۔سرکاری طور پر چار ہزار مگر کشمیر کی رضاکار
تنظیم کے مطابق 10,000سے زائدافراد جبری طور پر لا پتہ کر دیئے گئے ہیں۔
ایسی خواتین بھی ہیں جن کے شوہر فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے واقعات
میں اپنوں سے جدا ہوئے۔یہ خواتین نیم بیوہ اور ان کے بچے نیم یتیم ہیں۔
بیوہ خواتین کے شوہر غائب ہو گئے لیکن انھیں مردہ قرار نہیں دیا گیا۔کئی کے
شوہر گھر سے اٹھالئے گئے۔کئی کو فوج دوپہر کے وقت تفتیش کے لئے لے گئی اور
شام تک اسے واپس بھیجنے کا وعدہ کیا۔مگر وہ شام کبھی نہ آئی۔ خواتین نے کئی
سالوں تک اپنے شوہر تلاش کئے۔ پولیس اسٹیشنوں سے لے کر ضلعی عدالتوں تک
دھکے کھائے۔ لیکن ان کی فریادنہیں سنی گئی۔ آخر کار وہ اپنے بچوں کی پرورش
کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے خاندان کا واحد سہارا بن گئیں۔
یہ ہر صبح اس شخص کے آنے کی امید کے ساتھ جاگتی ہیں جس نے ہمیشہ ان کے ساتھ
رہنے کا وعدہ کیا تھا۔وہ آنسووں کے ساتھ ابھی بھی اس امید پر دروازے کے
دروازے کی طرف دوڑتی ہیں کہ وہ ان کے لئے بازو پھیلائے وہاں کھڑا ہوگا۔
کھلے دروازہ پر بچے اس آدمی کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں جس نے عید پر
اسے نئے جوتے، کھلونے اور چاکلیٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ شخص واپس
نہیں آیا۔ آسمان پر منڈھلاتے سیاہ بادل اور چناروں سے گرتے پتے آپ کو بتاتے
ہیں کہ شاید، وہ کبھی نہیں آئے گا۔ایسے دل دہلا دینے والے لمحے کا تصور
کرنا مشکل ہے۔ لیکن کشمیر کی خواتین کوہر روز اس آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان کے شوہروں کو برسوں قبل بھارتی قابض فورسز نے گرفتار کیا تھا اور اس کے
بعد سے وہ واپس نہیں آئے۔ان خواتین کو اگر اسلام میں خودکشی کے گناہ ہونے ،
اپنے بچوں کی حفاظت اور مستقبل کی فکر نہ ہوتی تو وہ بہت پہلے خودکشی کرچکی
ہوتیں۔لیکن وہ بہادری سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہیں۔اپنے شوہروں سے بے خبر،
یہ خواتین نہ صرف وہ غم برداشت کرتی ہیں جو اپنے شریک حیات سے علیحدہ ہونے
کا ہے بلکہ اپنے زندہ رہنے کے لئے بھی مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر
یا تو ابھی تک بھارتی افواج کی تحویل میں زندہ ہیں یا ان کے ہاتھوں قتل
ہوچکے ہیں - انھیں مردہ نہیں قرار دیا گیا ، لہذا یہ نیم بیوہ ہیں۔ چونکہ
ان کے شوہروں کو سرکاری طور پر مردہ قرار نہیں دیا گیا ہے، لہذا ان کو
قانونی مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہیں لازمی طور پر قابض افواج کے
ذریعہ بد سلوکی کے خوف سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو اپنی مرضی سے خواتین کا
شکار، تشدد اور عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے بطور استعمال کرتے ہیں۔
مسلم میرج ایکٹ 1945کے دفعہ 2(i) کے اگر کسی خاتون کا شوہر چار سال تک
لاپتہ رہے تو وہ طلاق لے سکتی ہے۔مگر سسرال کے دباؤ اور معاشرے سے کوف زدہ
خواتین یہ بھی نہیں کر سکتیں۔ شوہر کے لاپتہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی
کا معاہدہ کرنے کی اجازت پر اسلامی اسکالرز کے درمیان اختلاف رائے کی وجہ
سے ان میں سے بہت سے خواتین نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ ان خواتین کے ساتھ
منسلک معاشرتی بدنامی ان کی پریشانیوں میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن ہر رات سونے
سے پہلے ان کے ہونٹوں پر خاموشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا، جب ان کے بچے پر
امید آنکھوں سے پوچھتے ہیں، ''امی، بابا کب آئیں گے؟‘‘۔نیم بیوہ خواتین
وراثتی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ مسلمان شریعتی قانون مسلم پرسنل لا ء کے تحت
آتے ہیں۔ قانون کے مطابق، کسی بیوہ کو اپنے شوہر کی جائیداد کے آٹھویں حصے
کا حق حاصل ہے جبکہ بے اولاد بیوہ ایک چوتھائی حصے کی حقدار ہے۔ تاہم، نیم
بیوہ کی کوئی شناخت نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں، خواتین کے پاس صرف ایک ہی
راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موت کو ثابت کرے۔ اگر کسی فرد کے بارے
میں سات سال تک کوئی خبر نہیں ملتی تو، وہ مردہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، موت
کو ثابت کرنا خواتین کے لئے تقریباًناممکن ہے۔
مزید یہ کہ زیادہ تر شہری موت کو ثابت کرنے کے قانونی طریقہ کار سے واقف
نہیں ہیں۔ پولیس ایسے معاملات نمٹانے میں بھی غفلت برتی ہے اور ایف آئی آر
درج نہیں کرتی۔ پولیس اسٹیشنوں تک پہنچنے میں انہیں بے شمار رکاوٹوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارت کا اجراء کردہ راحت کارڈ یا شوہر کی جائیداد یا
بینک اکاونٹس کی منتقلی جیسے کئی دوسرے ذرائع بھی نیم بیوہ خواتین کے لئے
بند ہیں۔کیوں کہ ان کے پاس ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں۔ ان کے شوہر وں مردہ تسلیم
نہیں کیاجاتا۔
حکومتی اہلکار انکوائری کرتے وقت انہیں ''لاپتہ'' قرار دیتے ہیں جس سے
سرکاری حلقوں میں یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ وہ عسکریت پسند بن چکے ہیں۔ علما
ء کے مابین اتفاق رائے ہے کہ نیم بیوہ چار سال کے انتظار کے بعد دوبارہ
شادی کر سکتی ہے۔مگر سسرال والے نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی جائیداد
باہر چلی جائے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں نہ تو مقننہ اور نہ ہی
عدلیہ نے لاپتہ ہونے کے مسئلے کو تسلیم کیا ہے۔تب ان ممالک سے مدد لی
جاسکتی ہے جنہوں نے گمشدگیوں کے تدارک کے لئے قانون سازی کی ہے۔ یہ اقدامات
ایسے کمیشن قائم کرنے سے متعلق ہیں جو ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے اجرا کو یقینی
بناتے ہیں۔ ارجنٹائن نے ایک قانون نافذ کیا جس میں ان افراد''لاپتہ ہونے سے
غائب ہونا'' قرار دیا گیا ۔ ایکٹ کے تحت رشتے داروں کو صرف حراست کی تاریخ
بتانا ہوگی۔ اس سے خواتین کو منجمد بینک اکاونٹس تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے،
جائیداد کے بھی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں اور دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔انہی
قوانین کو، پیرو، بوسنیا اور ہرزیگوینا، چلی جیسے ممالک نے اپنایا ہے۔بھارت
بین الاقوامی کنونشن (ICPPED) کا دستخط کنندہ ہے لیکن اس نے ابھی تک اس کی
توثیق نہیں کی ہے۔کنگز کالج لندن کی ڈاکٹر عائشیہ رے کا کہنا ہے کہ کشمیری
خواتین بھارتی فورسز اور پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس لئے
وہ اپنے حقوق کے لئے تھانوں کچہریوں پر دستک دینے سے گریز کرتی ہیں۔ بھارت
کی قابض حکومت اور انتظامیہ سے کوئی خیر کی امید لگائے بغیر کشمیر کی سول
سوسائٹی، سکالرز، وکلاء، طلباء، تاجر برادری سمیت ہر ذی شعور اس اہم ایشو
پر خاص توجہ دے کر اسے حل کر سکتے ہیں تا کہ حالات کی ستائی یہ نیم بیوہ
خواتین اپنی باقی زندگی قدرے سکون سے گزارنے کے قبال بن سکیں۔
|