متاع

۷۷۹۱ کے انتخابات اپنی نوعیت کے منفرد انتخابات تھے اور ایسے پر جوش اور زور دار انتخابات شائد پاکستان میں دوبارہ کبھی نہیں ہو سکے۔ نظریاتی سیاست کی جو صف بندی ان انتخا بات میں دیکھنے کو ملی پھر کبھی اس طرح نظر نہیں آئی۔ دا ئیں بازو اور با ئیں بازو کی تقسیم پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ دونوں مکتبہ فکر اپنی اپنی جیت کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔عوام کا جذبہ اور شرکت دیدنی تھی۔جذ بات تھے کہ کناروں سے امڈ تے جاتے تھے۔ پوری قوم دو کیمپوں میں تقسیم تھی ایک وہ جو ذوالفقار علی بھٹو سے محبت کرتے تھے اور ایک وہ جو اس کے اندازِ سیاست سے اختلاف کرتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ترقی پسندی اور سیاسی رواداری کی علامت تھی جب کہ قومی اتحاد کی بنیاد مذہبی شدت پسندی اور ا نتہا پسندی پر رکھی گئی تھی جس کا اظہار ان کے انتخابی جلسوں میں بھی ہو تا تھا۔بزورِ بازو مخالفین کو کچل دینے کی سوچ قومی اتحاد کی جماعتوں پر غالب تھی اور شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ پچھلے کئی سالوں سے یہ ساری جماعتیں اپوزیشن میں تھیں اور اپوزیشن بھٹو صا حب کے دورِ حکومت میں سکھ کا سانس نہیں لے پائی تھی۔ بلوچستان اور سرحد میں اپوزیشن کی حکومتیں تحلیل کی گئی تھیں اور ان دونوں صوبوں میں پی پی پی نے اعلیٰ حکمتِ عملی سے اپنی حکومتیں تشکیل دے لی تھیں اور یہ بات بھی اپوزیشن کے غصے میں واضع عنصر کی نمائندگی کر رہی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بالمقابل پاکستان قوم اتحاد (پی این اے) تشکیل دیا گیا تھا اور ملک کی سا ری قابلِ ذکر اپوزیشن جماعتیں اس اتحاد کی ممبر تھیں۔ تمام جما عتوں کی نمائدگی ظاہر کرنے کےلئے نو ستاروں والا پرچم تشکیل دیا گیا تھا اور ہل ان کا انتخابی نشان تھا۔ اس اتحاد کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ بھٹو مخالف ووٹ تقسیم نہ ہونے پائے اور اقتدار سے پی پی پی حکومت کا مکمل خاتمہ کرکے بھٹو مخالفین کا اقتدار قائم کیا جائے لیکن وہ شخص جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا اور سیاست جس کا رومانس تھا کیا وہ اتنا بے خبر تھا کہ وہ قومی اتحاد کے عزائم کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اسے سب علم تھا کہ قومی اتحاد کے عزائم کیا ہیں اور ان کے پیچھے کونسی عا لمی طاقتیں کھڑی ہیں ۔ اسے ادراک تھا کہ قومی اتحاد کی تشکیل صرف اسے اقتدار سے باہر پھینکنے کےلئے کی گئی ہے، بھٹو دشمنی کے علاوہ ان میں کچھ بھی مشترک نہیں تھا ۔ اس اتحاد میں شامل کچھ مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں تھیں اور ماجی میں ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتووں کا آزادانہ استعمال کرتی رہی تھیں ۔ نفرت ، انتقام اور غصے کے اس ماحول میں بھٹو صاحب نے اپنے خطابانہ جوہر آزمانے کا فیصلہ کر لیا ۔ وہ قریہ قریہ نگر ی نگری بستی بستی گیا اور پاکستان کو درپیش مسائل پر عوام کو اعتماد میں لیا ان سے اپنی خدمات وفاﺅں اور اداﺅں کا ذکر کیا اور پاکستان کو ایک ترقی پسند ملک بنانے کےلئے عوام سے دستِ تعاون طلب کیا ۔پاکستانی عوام نے ہمیشہ کی طرح ان انتخابات میں بھی اسکی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ،اس سے محبتوں کاباب رقم کیا اور اسے بھاری ا کثریت سے کامیابی کی سند عطا کی جس نے قومی ا تحاد کے تن بدن میں آگ لگا دی۔

جلسوں میں عوام کی حاضری اور منہ زور جذبوں کی نمائش کی بنا پر پاکستان قومی اتحاد بزعمِ خویش یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس نے یہ انتخابات جیت لئے ہیں لہٰذا جب انتخابی نتائج اسکی توقع کے بالکل بر عکس سامنے آئے تو وہ ان انتخابات میں اپنی شکست کے صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور انتخابات میں دھاندلی کے نام پر ایک تحریک شروع کر دی ۔پاکستا ن قومی اتحاد کو خبر تھی کہ انھیں انتخابا ت میں شکست ہو گئی ہے لیکن چونکہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے لہذا اس کےلئے کسی بہانے کی ضرورت تھی اور بہانہ بڑا آسان تھا کہ ہمار ے خلاف دھاندلی کی گئی ہے۔ باہمی مذاکر ا ت کے بعد وہ نشستیں جہاں پر قو می اتحاد نے دھاندلی کی شکا یات کی تھیں وہ ۸۲ نکلیں۔ بھٹو صاحب نے پیشکش کی کہ شکائیت شدہ سیٹوں پر دوبارہ انتخابات کروا لیتے ہیں اور یہی سا ری دنیا میں ہوتا ہے کہ جہاں پر دھاندلی کی شکایات موصول ہوتی ہیں وہاں پر دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں اور یوں دھاندلی سے پاک امیدواروں کا نتخاب عمل میں آجاتا ہے۔

میں ا ہلِ حل و عقد افراد سے یہ پو چھنے کی جسارت کرونگا کہ کیا ۸۸۹۱ کے انتخابات شفاف تھے جس میں پی پی پی کا راستہ روکنے کےلئے جنرل حمید گل نے پاکستان کے قومی خزانے کے بے دریغ استعمال سے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا تھا ؟کیا ۷۹۹۱ کے وہ انتخابات جو فاروق احمد لغاری نے کروائے تھے اور جن میں میاں صاحب کے ساتھ گہری سازش اور گٹھ جوڑ کے نتیجے میں انھیں ہیوی مینڈ یٹ دلوایا گیا تھا دھاندلی سے پاک تھے؟ کیا جنرل ضیا الحق کا ریفرینڈم اور جنرل پرویز شرف کا ریفرینڈم حقیقی عوامی نمائندگی کے مظاہر تھے؟ کیا ان میں دھاندلی نہیں ہوئی تھی؟کیا جنرل پرویز مشرف کے دور میں منعقدہ انتخابا ت ۲۰۰۲ شفاف تھے؟ بالکل نہیں لیکن اس پر تو جنرل ضیا کے پسماندگان نے کوئی واویلا نہیں مچایا اور نہ ہی کوئی تحریک چلانے کی دھمکی دی۔ اس وقت تو فوجی وردی کے خوف سے ان کی بولتی بند تھی یہ وہی انتخا بات ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کو صرف ۵۱ سیٹیں ملی تھیں اور ان کی جماعت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ یہ انتخا بات تو انجینئرڈ تھے لیکن مسلم لیگ (ن) اور اسکی حلیف جماعتوں اور نظامِ مصطفٰے کے داعیوں میں اتنی جرات کہاں تھی کہ وہ ان انتخابت کو ڈھونگ قرار دے کر کوئی تحریک چلا نے کا اعلان کرتے ۔جب قیادت معاہدے کر کے ملک سے راہِ فرار اختیار کر لے تو پھر فوجی حکومت کے خلاف ڈٹ جانے کی ہمت نہیں آتی لہٰذا کسی احتجاج اور تحریک کا امکان باقی نہیں رہتا اور یہی سب کچھ ۲۰۰۲ کے انتخابات میں ہوا تھا اور کسی نے انتخابی دھاندلی پرکوئی تحریک شروع نہیں کی تھی۔

۷۷۹۱ میں سوال دھاندلی کا نہیں تھا سوال اس بد نیتی کا تھا جو قومی اتحاد کے راہنماﺅں کے دلوں میں سمائی ہوئی تھی ا ور معاملہ اس گٹھ جوڑ کا تھا جو اس نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے کےلئے فوج اور امریکہ سے کر رکھی تھی۔عالمی طاقتیں ذوالفقار علی بھٹو سے ایٹمی پروگرام اور اسلامی سربرا ہی کانفرنس کے انعقاد کی وجہ سے خاصی ناراض تھیں اور بھٹو حکومت سے چھٹکارا چاہتی تھیں ۔ ان کےلئے یہ ایک سنہر ی موقعہ تھا کہ وہ پاکستان میں احتجاجی سیاست کی پشت پنا ہی کریں اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایوانِ اقتدار سے چلتا کریں کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے مفادات کے راستے کی دیوار تھا اور دنیا کی واحد سپر پاور کو دیواریں پسندنہیں آیا کرتیں لہذا بھٹو مخالفین کو تھپکی دینا ضروری تھا تاکہ بھٹو کا کانٹا راستے سے نکل جا ئے تا کہ سپرپاور ساﺅتھ ایشیا میں اپنی من ما نی کر سکے اور کو ئی اس کو روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہو۔ سپر پاور پاکستان کے ملکی مسائل پر اپنی مکمل گرفت چاہتی تھی اور اپنے مفادات کا تحفظ اس کی پہلی ترجیح تھی جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں ممکن نظر نہیں آر ہی تھی ۔آج مذہبی جماعتیں سپر پاور کے خلاف بڑے بلند بانگ دعوے کر رہی ہیں ، سپر پاور کے خلاف بڑے غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہیں ، سیاسی شہید بننے کی اداکاری کر رہی ہیں لیکن اس وقت تو وہ سپر پاور کی گود میں بیٹھ کر اسکی حاشیہ بردار بنی ہوئی تھیں کیونکہ مقصد بھٹو حکومت کا خاتمہ تھا۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے انھوںنے وہ طرزِ عمل اختیار کیا جو قومی امنگوں اور ملکی مفادا ت کے خلاف تھا لیکن انھیں اسکی کو ئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ انھوں نے خود کو سپر پاور کے ہاتھوں میں گروی رکھ دیا تھا اور انکی نظر میں سپر پاور کا مفاد ملکی مفادات سے بالا تر تھا۔ دونوں کا مشترکہ مفاد ذوالفقار علی بھٹو کو ہمیشہ کےلئے اپنے راستے سے ہٹانا تھااور اس کےلئے ایک دوسرے کی معاونت اور مدد ضروری تھی۔

فوج، ا سٹیبلشمنٹ، مذہبی جماعتوں اورعالمی سپر پاور کا ایک غیر اعلانیہ اتحاد معرضِ وجود میں آیا جس کا واحد مقصد بھٹو حکومت کا خاتمہ تھا۔ اورآخرِ کار ۵ جولائی ۷۷۹۱ کوجنرل ضیا الحق نے شب خون مار کر پاکستان پر تاریخ کا طویل ترین مارشل لا مسلط کر دیا۔ پاکستانی عدالتوں نے ہمیشہ کی طرح اس مارشل لا کو بھی جائز قرار دیا اور یوں جنرل ضیا الحق کی غیر آئینی حکومت کو آئین کی چھتری عطا کر دی گئی۔ پاکستانی عدلیہ بھی کمال کی چیز ہے جب چاہتی ہے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لا کو آئینی قرار دے دیتی ہے، جب چاہتی ہے آئینی حکومت کو کرپشن کے الزامات میں مجرم ٹھہرا کر ایوانِ اقتدار سے باہر نکال پھینکتی ہے اور ملک کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کو قتل کے ایک مقدمے میں سرِ دار کھنچ دینے کا حکم صادر کر کے اپنے آقاﺅں کو خو ش کرتی ہے۔ قومی اتحاد کی ساری قابلِ ذکر جما عتیں جنرل ضیا ا لحق کی فوجی حکومت کا حصہ بنیں اور پھر ان کی باہمی رضامندی اور عالمی سپر پاور کی منشا کے مطابق ۴ اپریل ۹۷۹۱ کو پاکستانی عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ مٹھا ئیاں بانٹی گئیں ڈھول پیٹے گئے، بھنگڑے ڈالے گئے، مبارک بادیں دی گئیں اور جشن منائے گئے کہ ہم نے قائدِ عوام کو شکست دے دی ہے اور اسکی زندگی کا چراغ گل کر دیا ہے۔کیا واقعی ایسا ہو گیا تھا؟ذوالفقار علی بھٹو کو منوں مٹی کے نیچے دفن تو کر دیا گیا تھا لیکن وہ بھٹو جو کروڑ و ں انسانوں کے دلوں میں زندہ تھا اس بھٹو کو کون مار سکتا تھا ؟ اس بھٹو کوکون پھانسی دے سکتا تھا ؟ اس بھٹو کو کون دلوں سے نکال سکتا تھا ؟ وہ بھٹو تو آج بھی زندہ ہے ایک قد آور ہیرو کی مانند۔یہ وہ سچ تھا جس کا ادراک اس کے قاتلوں کو بہر حال نہیں تھا ۔ وہ بھٹو کو ایک گوشت پوست کا انسان سمجھ کر قتل کر رہے تھے لیکن انھیں خبر نہیں تھی کہ بھٹو تو ایک نظریہ تھا ایک سوچ تھی ایک علامت تھی اور نظریے اور علامتیں کبھی مرا نہیں کرتیں۔

کیسا عجیب شخص تھا وہ کہ جب تک زندہ رہا اسکے سیاسی مخالفین اسکے اندازِ سیاست سے خائف رہے ۔ اپنی بے شمار خواہشات کے باوجود بھی اسکے مخالفین اسکا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے سے قاصر رہے۔ اسکو خدا نے فہم و فراست کی بیش بہا دولت سے نوازا تھا جرات و بسا لت کی خوبیوں سے لیس کیا تھا۔ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے والا دل عطا کیا تھا لہٰذا بھٹو اور عوام ایک ہی سکے کے دو رخ قرار پائے دونوں رخوں میں عوامی امنگوں کی خوشبوﺅیں بکھری ہوئی محسوس ہو تی ہیں۔ بھٹو عوام کا نام تھا اور عوام کی امنگوں کا نام بھٹو تھا لہٰذا ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے۔ موت کیا انسانی خوبیوں کو بھی مار دیا کرتی ہے کیا موت سے انسان کے کارنامے بھی مر جا یا کرتے ہیں کیا موت سے محبت دم توڑ جاتی ہے اور کیا موت رشتوں کی گہرائی کو بھی چاٹ جا یا کرتی ہے ۔ نہیں با لکل نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر انسانیت کی ساری تاریخ بانجھ ہو تی اس میں سور ما ﺅں کی بہادریوں کے قصے اور جوانمردوں کی جراتوں کا کہیں نا م و نشان نہ ہوتا ۔ قائدین کی عقل و دانش کا زکر نہ ہوتا، نہ کہیں پر قائدِ اعظم کے پیرو کار ہو تے نہ کہیں پر اقبال سے محبت کرنے والے ہو تے نہ کہیں پر ناموسِ رسالت پر اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے عاشق ہوتے۔ یہ دھرتی بانجھ ہوتی بالکل بانجھ اور اس میں زندگی کی سانسیں لینے والے فقط مٹی کے پیکر ہوتے جذبات سے عاری، محبتوں سے عاری ،ایثار سے عاری ،قربانی سے عاری،بسالتوں سے عاری۔بے جان مورتیوں کی مانند جو گمنام زمانے کے درو دیوار پر لٹکی ہوتی ہیں۔۔

پاکستا نی عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ انکے محبوب قائد ذولفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا لحق نے ۵ جولائی ۷۷۹۱ کو اپنے راستے سے کیوں ہٹایا ۔ پاکستانی عدلیہ نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ کیوں دیا۔ عالمی طاقتوں کے اسے ہٹانے کے پیچھے کیا عزائم تھے ۔ جنرل ضیا لحق اور سیاسی جما عتیں اپنی د ھرتی کے سپوت کے خلاف عالمی طاقتوں کی سازش کا حصہ کیوں بنیں۔ مذہبی قیادت کو بھٹو صاحب سے کیا پر خاش تھی جسکی وجہ سے وہ اسکے خون کی پیاسی تھی اور جب بھٹو صاحب کو علم ہو گیا تھا کہ ملکی اور غیر ملکی طاقتیں باہمی گٹھ جوڑ سے اسکی زندگی کا چراغ گل کرنا چا ہتی ہیں تو پھر اس نے سرِدار جھول جانے کا انتخاب کیوں کیااور اوجِ دار پر عوام سے اپنی محبت کی گواہی دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔ کہتے ہیں انسان کے پاس اسکی سب سے انمول متاع اسکی زندگی ہو تی ہے اور یہ متاع ہر ایک کو بڑی عزیز ہوتی ہے لیکن جو لوگ اس قیمتی متاع کو عوام کی خاطر قربان کر دیں انھیں کوئی نہیں مار سکتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی متاعِ بے بہا کو عوام کی خاطر لٹا کر اپنے سارے مخالفین کو مات دے ڈالی تھی اور اوجِ دار پر تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کےلئے زندہ و جاوید ہو گیاتھا۔
کہتے ہیں لوگ جعفری منصورِ عصر ہے۔۔کیسا مقام مجھ کو دیا اوجِ دار نے
(ڈاکٹر مقصود جعفری)
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.