ایک مشہور کہاوت ہے کہ ایک محاذ سے پسپائی دوسرے محاذ سے
پسپائی کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔موجودہ ایف اے ٹی ایف ( فیٹف) کا اجلاس اور اس
کا نتیجہ بالکل اس کہاوت کی عملی شکل پیش کر رہا ہے ۔ پاکستان کو دنیا کس
نظر سے دیکھ رہی ہے اور ماضی میں کس طرح دیکھا جاتارہا ہے وہ بھی بہت واضح
ہے۔ باوجود اس کے کہ جنوبی ایشیا میں امن اور علاقائی ترقی واستحکام کے لیے
پاکستان کو مثبت کردار دنیا تسلیم کر رہی ہے اس کے باوجود معاشی عدم
استحکام سے دوچار پاکستان کو عالمی سیاست میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے
سخت محنت کرنا پڑ رہی ہے ۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء اور
پاکستان کی جانب سے زمینی و فضائی سہولت فراہم نہ کرنے کے اعلان کے نتائج
بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں ۔ پاکستان کی افغان پالیسی ہو یا دہشت گردی
سے نبٹنے کی حکمت عملی ، پہلی دفعہ حکومت کسی تذبذب کا شکارنہیں ہے اور
آزادانہ و خودمختارانہ فیصلے کرتی نظر آرہی ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں ہر
آزاد اور خودمختار فیصلوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور وہ پاکستان مختلف
معاملات میں ادا کر رہا ہے ۔فیٹف اجلاس اور اس کا اعلامیہ بظاہر یہی پیغام
دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی تمام تر توجہ منی لانڈرنگ ، دہشت
گردی کے لیے فنانسنگ کے خلاف اقدامات پر مبذول ہے ۔
ایف اے ٹی ایف کا 20 جون سے جاری اجلاس جمعہ کے روز اختتام پذیر ہوا جس میں
پاکستان کے حوالے سے فیصلہ سامنے آیا ہے۔ ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ
کے مطابق پاکستان نے 27نکات میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کر لیا ہے تاہم اس
کے باوجود پاکستان کو گرے فہرست میں برقرار رکھا گیا ہے اور شرط عائد کی
گئی ہے کہ جب تک اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں اور
افراد کو سزائیں نہیں دی جاتیں اس وقت تک کے لیے گرے فہرست سے نہیں نکالا
جائے گا ۔ آئندہ سال جنوری 2022یا جون 2022میں دوبارہ جائزہ لیا جائے گا جس
کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو گرے فہرست سے نکال دیا جائے ۔ یاد
رہے کہ فروری 2021 کو ہونے والے جائزے میں پاکستان کو تین باقی نکات پر عمل
کرنے کے لیے کہا گیا تھا جن پر پاکستان نے عملدرآمد کر لیا تھا۔اس اجلاس
میں ایف اے ٹی ایف نے 2019 میں ایشیا پیسیفک گروپ کی باہمی جائزہ رپورٹ میں
جن شعبوں میں کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا وہ بھی نئی فہرست
میں شامل کر دیے گئے ہیں ۔ موجودہ اجلاس میں فیٹف نے پاکستان سے مطالبہ کیا
ہے کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بالخصوص کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور
پاکستان پر زور دیاتھا کہ باقی ماندہ ایک نکتہ پر جلد از جلد عمل در آمد
کیا جائے۔ اس نکتہ کا تعلق دہشت گردوں کی مالی معاونت کیسز پر تحقیقات،
اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ دہشت گرد گروہوں اور ان کے مرکزی رہنماؤں
کو سزائیں دلوانے سے متعلق ہے۔ایف اے ٹی ایف کے سربراہ مارکس بلئیر نے
اجلاس کے بعد ایک ور چوئل بریفنگ میں تسلیم کیا کہ پاکستان نے انسداد دہشت
گردی فنانسنگ کے خلاف کافی اقدامات کیے ہیں جس کے لیے وہ پاکستانی حکام کے
شکر گزار ہیں، تاہم منی لانڈرنگ اب بھی ہو رہی ہے اور پاکستان کو اس کی
تحقیقات مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گرے
فہرست تب ہی نکالا جاسکے گا جب وہ تمام نکات پر عمل درآمد مکمل کر لے
گا۔اسی موقع پر ا یف اے ٹی ایف کے تر جمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا باقی
ماندہ ایک نکتہ کوپورا کرنے کے بعد پاکستان کو گرے فہرست سے نکال دیا جائے
گایا اس کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایکشن پلان پر بھی عمل در
آمد کرنا ضروری ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک اہم شق جو کہ دہشت گردوں
کی مالی معاونت اور سزاؤں سے متعلق ہے اس کے مکمل ہونے کے بعد ایک ٹیم کو
پاکستان بھیجا جائے گا جو زمینی حقائق کا جائزہ لے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ
ایشیا پیسفک گروپ کی میوچل جائزہ رپورٹ کی جانب سے جاری منی لانڈرنگ سے
متعلق چھ نکات پر بھی پاکستان کوعمل کرنا ہو گا اور ان کو پورا کرنے کے بعد
ایک اورٹیم الگ سے زمینی حقائق کا جائزہ لے گی جس کے بعد پاکستان کوگرے
فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دوسری ط ر ف مارکس کا کہنا ہے کہ
ایف اے ٹی ایک کے باہمی جائزے کے چوتھے مرحلے میں جن ممالک کا جائزہ باقی
ہے انکے لیے شیڈول موجود ہے جو کہ کر ونا کے باعث متاثرہوا تھا اور جیسے ہی
وبا کی صورت حال بہتر ہو گیان ممالک بشمول بھارت کے ساتھ باہمی جائزہ شروع
کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس وقت ایف اے ٹی ایف کی تین سفارشات
رہتی ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ انتینوں سفارشات میں دہشت گردوں کے خلاف
قانونی چارہ جوئی، سزا اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔ان کے مطابق
پاکستان کی طرف سے ان سفارشات پر پیشرفت کے بارے میں جوابات جمع ہوتے رے گی
اور اب جواعتراضات ہوں گے ان پر کام کیا جاے گا۔ پاکستان سٹیٹ بینک کے
شعبیفنانشل مانیٹر نگ یونٹ (ایف ایم یو) کی ڈائریکٹر جنرل لیتی فاروق نے
بتایا کہ اس وقت رہ جانے والی تینوں سفارشات پر ہم نے بھر پور کام کیا ہوا
ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو اعتراضات آتے رہیں گے ہم ان کا جواب دیتے
رہے ہیں اور آگے بھی دیتے رہیں گے۔ حالانکہ منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے
ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) نے پاکستان کو اپنی دوسری فالو اپ رپورٹ میں
مزید نگرانی کی تجویز دی تھی تاہم اس کے باوجود ادارے نے پاکستان کی طرف سے
سفارشات کی تعمیل کو بھی سراہا تھا۔اس وقت جن اہداف پر کام کرنا ضروری ہے
ان میں نامزد شدت پسندوں یا جو ان کے لیے یا ان کی جگہ کام کر رہے ہیں ان
پر پانی پاندیاں لا گو کرناہے ۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے
خلاف تحقیقات اور مقدمات اور ان افراد یا اداروں کو ٹارگٹ کرنا جو ان کی
جگہ کام کر رہے ہیں۔دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلافمتناسب یا مکمل
پابندیوں کی صورت میں کارروائی شامل ہے۔اگرچہ پاکستان اس پر پہلے سے ہی
عملدرآمد کر رہا ہے ۔منہ لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام
سے متعلق کئی قوانین پارلیمنٹ سے منظور ہو چکے ہیں ۔ گزشتہ دی گئی سفارشات
کی روشنی میں وفاقی سطح پر گیارہ جبکہ صوبائی سطح پر تین بل منظور کیے
جاچکے ہیں ۔ اسی طرح قومی سطح پر 22 بہترین افسران پر مشتمل بین الاقوامی
کو آپریشن سیل قائم کیا جو کئی دفعہ دہشتگردوں کی فنڈنگ اور منہ لانڈرنگ کے
خطرات کا جائزہ لے چکا ہے ۔جہاں خطرات ذیادہ ہیں وہاں ریگولیٹری فریم ورک
ترتیب دیا جا چکا ہے ۔جن تنظیموں کو اقوام متحدہ نے کالعدم قرار دیا تھا ان
کے خلاف بھی عملی سطح پر اقدامات کیے جا چکے ہیں ۔ ان کے متعدد رہنما اس
وقت نہ صرف جیلوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں بلکہ تنظیمی سطح پر بھی ان کا
تمام اسٹرکچر ختم کر دیا گیا ہے حتی کہ اس میں ان تنظیموں اور افراد کو بھی
شامل کر لیا گیا جومختلف فلاحی ورفاحی منصوبوں پر کام کر رہے تھے ۔ اب یہ
بات تو بالکل واضح ہے کہ کچھ ممالک جن میں بھارت اور اسرائیل سرفہرست ہیں
اس فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں لیکن اس
کے ساتھ ساتھ انہیں امریکی حمایت بھی پوری طرح مل رہی ہے ۔ پاکستان کا
المیہ یہ ہے کہ یہاں مقامی سیاست میں قومی سلامتی کے معاملات کو نظر انداز
کر دیا جاتا ہے ۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں سمیت
سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اس حوالہ سے کوئی حکمت عملی
ترتیب دیتی لیکن یہ اخلاقی قوت حکومت میں موجود ہے اور نہ ہی ہماری اپوزیشن
جماعتیں اس حد تک بالغ ہوئی ہیں کہ وہ حساس معاملات پر ایک ہو سکیں خاص طور
پر ایسی صورتحال میں جب پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما خود منی
لانڈرنگ کے مقدمات اور الزامات کا سامنا کررہے ہوں ۔ پاکستان اس وقت جہاں
اپنی خودمختاری و آزادی کی قیمت چکا رہا ہے وہاں سیاسی عدم استحکام کی وجہ
سے بھی عالمی سطح پربھی کمزور مقام پر کھڑا نظر آتا ہے۔ اس وقت دنیا کا
منظر بدل رہا ہے بالخصوص افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور انقلابی
معاشی منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان سب سے ذیادہ متاثر
ہونے والا ملک ہے ۔ اس موقع پر نہ صرف ’’ایکٹو خارجہ پالیسی ‘‘ بلکہ ’’
جارحانہ خارجہ پالیسی ‘‘ کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قوم کی یکجہتی
اور سیاسی استحکام ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ آنے والے خطرات سے بہتر
انداز میں نبٹا جاسکے۔
|