اتر پردیش سے اس ہفتے کی سب سے بڑی سیاسی خبر یہ ہے کہ
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ اپنے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کے گھر
گئے ۔ کسی وزیر اعلیٰ کا اپنے نائب کے گھر جانا کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن
اگر ایسا ہے تو پھر اس کی تصویر تمام قومی اخبارات کے پہلے صفحے پر بڑے
اہتمام سے کیوں شائع کروائی گئی؟ اس کے علاوہ اور بھی کئی سوال ہیں مثلاً
ان دونوں رہنماوں کے گھروں کے درمیان صرف 100 میٹر کا فاصلہ ہے۔ اس قدر کم
فاصلہ طے کرنے میں یوگی جی کو ساڑھے چار سال کا عرصہ کیوں لگا؟ یعنی اس سے
قبل انہیں اپنے نائب کے گھر جانے کا خیال کیوں نہیں آیا ؟ کیشو پرشاد
موریہ کے علاوہ ڈاکٹر دنیش شرما بھی اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔
یوگی جی کو آخر شرماجی کے گھر جانے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی ؟ ایک سوال یہ
بھی ہے کہ عہدے کے لحاظ سے ، ذات کے لحاظ سے اور دھیان گیان کے لحاظ سے
یوگی جی کو موریہ جی پر فوقیت حاصل ہے اس لیے یہ بھی ہوسکتا تھا کہ موریہ
خود اپنے اہل خانہ بشمول نئی بہو اور بیٹے کے ساتھ مٹھادھیش کی سیوا میں
حاضر ہوکر آشیرواد پراپت کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا؟ اس ایک ملاقات نے ان
تمام سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ اس لیے ان کا ایک ایک کرکے جواب معلوم کرنا
دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
پہلا سوال یوگی کا موریہ کے گھر جانا ذرائع ابلاغ کی زینت کیوں بنا ؟ اس کا
جواب یہ ہے کہ ایسا پہلا کبھی نہیں ہوا ۔ یوگی جیسا گھمنڈی اورخود پسند شخص
کسی کو کچھ نہیں سمجھتا اور کبھی کسی سے ملنے نہیں جاتا۔ ملاقات کے لیے
جانا تو دور وہ لوگوں کے فون بھی نہیں لیتا ۔ اپنے نائب وزرائے اعلیٰ ،
کابینی وزیر اور ارکان اسمبلی تک کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ اس کا ثبوت یہ
ہے کہ تقریباً 200؍ ارکان اسمبلی یوگی کے خلاف ایوان اسمبلی میں دھرنے پر
بیٹھ چکے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر کیشو پرساد موریہ
کے ساتھ ہیں ۔ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر آج ارکان اسمبلی سے رائے لی
جائے تو یوگی کا بوریہ بستر گول ہوجائے گا ۔ اسی لیے جب کیشو پرساد موریہ
سے پوچھا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کا چہرہ کون ہوگا تو انہوں نے جواب دیا تھا
یہ ہائی کمان طے کرے گا ۔ اس کے بعد یہ بھی بولے کہ بی جے پی وراثت کی
بنیاد پر نہیں چلتی اس لیے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کا
انتخاب کریں گے حالانکہ ان دونوں باتوں میں تضاد ہےاگر ارکان اسمبلی کو
فیصلہ کرنا ہے تو درمیان میں ہائی کمان کہاں سے آگیا خیرایسی تضاد بیانی
بی جے پی کا شعار ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جن پڑوسیوں کے گھروں میں صرف 100 میٹر کا فاصلہ ہے۔
اسے طے کرکے ساڑھے چار سال بعد یوگی جی کو اب اپنے نائب کے گھر جانے کا
خیال کیوں آیا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوگی کو پتہ ہے صرف ہندوتوا میں اتنا
دم خم نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پرانتخاب جیتا جاسکتا ہو اسی لیے بی جے پی
مختلف ذاتوں کو جوڑ کر اپنی انتخابی حکمت عملی وضع کرتی ہے۔ اترپردیش میں
پسماندہ ذاتوں کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ رام منوہر لوہیا نے ان کو
براہمنوں، دلتوں اور مسلمانوں کی پارٹی کانگریس کے خلاف منظم کرنا شروع کیا
تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ جاٹ اور یادو سماج نے اٹھایا۔ موریہ ، کرمی ،
نشاد اور ملاح وغیرہ محروم رہ گئے۔ بی جے پی نے سب سے پہلے موریہ پر ہاتھ
مارنے کے لیے پچھلے صوبائی الیکشن سے قبل کیشو پرشاد موریہ کو پارٹی کا صدر
بنادیا ۔ اس کے بعد بہوجن سماج پارٹی کے بڑے رہنما سوامی پرساد موریہ کو
توڑ کر اپنے ساتھ جوڑا۔ اس کے علاوہ نشاد سما ج کے اپنا دل اور ملاحوں کے
راج بھرکو بھی اپنے ساتھ ملاکر انتخاب میں کامیابی درج کرائی ۔ یوگی کی
رعونت نے نہ صرف کیشو پرشاد موریہ بلکہ سوامی پرشاد موریہ کو بھی بدظن
کردیا ہےکیونکہ وہ تو سنگھ کی شاخ سے تربیت یافتہ نہیں ہیں اس لیے بڑے ووٹ
بنک کی بغاوت کا خوف یوگی کو کیشو پرشاد کے دروازے پر لے گیا ۔
سوامی پرشاد موریہ جیسے لوگ اپنے آپ کو اسی طرح ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں
جس طرح مکل رائے کی کیفیت ہے اور وہ ٹی ایم سی میں لوٹ چکےہیں۔ مکل رائے
ممتا کے بعد ٹی ایم سی میں دوسرے نمبر پر تھے ۔ ان پر بدعنوانی کا الزام
تھا ۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ مغربی بنگال کے اندر بی جے پی میں کوئی معروف
شخصیت توہے نہیں ۔ وہاں جانے کے بعد نہ صرف بدعنوانی کا الزام ہٹ جائے گا
بلکہ صوبائی شاخ کی سربراہی بھی مل جائے گی ۔ پارٹی نے انہیں قومی نائب صدر
بناکر اس کا اعتراف کیا ۔ مکل رائے نے خوش ہوکر پنچایت انتخابات میں بی جے
پی کو کامیابی دلا کر اس کی جڑیں مضبوط کیں اور صوبائی انتخاب سے قبل ٹی
ایم سی کے 33؍ ارکان اسمبلی سمیت پچاس لوگوں کو توڑ کر بی جے پی میں لے
آئے ۔ شبھیندو ادھیکاری بھی ان میں سے ایک تھے ۔ ان نواردوں میں 13 کو بی
جے پی نے ٹکٹ دیا اور صرف 3 کامیاب ہوئے۔ اس سے مکل رائے کو ممتا کی طاقت
کا اندازہ ہوگیا۔
شبھیندو ادھیکاری نے چونکہ ممتا کو شکست دی تھی اس لیے بی جے پی نے ان کو
حزب اختلاف کا رہنما بناکر مکل رائے کو بددل کردیا۔ انہوں نے سوچا ادھیکاری
کے تحت دوسرے نمبر پر رہنے سے بہتر تو ممتا بنرجی کے ساتھ کام کرنا ہے
کیونکہ وہ اقتدار میں ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی اپنے ایک نائب صدر سے
محروم ہوگئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ٹی ایم سی سے بی جےپی میں آنے والے تو
صرف تین ارکان اسمبلی کامیاب ہوئے مگر مودی جی سے ملاقات کے بعد شبھیندو
ادھیکاری جب گورنر کے سامنے دہائی دینے کے لیے پہنچے تو بی جے پی کے 24؍
ارکان اسمبلی غائب تھے ۔ یہ لوگ اگر پھول کے بجائے پتی پر اکتفاء کرتے ہیں
تو بنگال میں کمل مرجھا جائے گا۔ مکل رائے کی طرح کا معاملہ سوامی پرشاد
موریہ کا ہے ۔ وہ بہوجن سماج پارٹی سے یوگی کے تحت کام کرنے کے لیے مایاوتی
کو چھوڑ کر نہیں آئے تھے ۔ کیشو پرشاد اگر وزیر اعلیٰ ہوجاتے تو وہ کسی
طرح اپنے سماج کو سمجھا بجھا لیتے لیکن وہ بھی نہیں ہوا ۔ یوگی کی نیاّ
ویسے بھی گنگا میں لاشوں کے درمیان ڈول رہی ہے اس لیے اگر وہ اس وقت کمل کو
چھوڑ کر سائیکل پر سوار ہوجائیں تو امکانات بہتر ہیں اس لیے ان کے من میں
پھر سے بغاوت کی آرزو انگڑائی لے رہی ہوگی ۔
سوامی پرشاد کو سمجھا بجھاکر ساتھ رکھنا یوگی کے بس کا روگ نہیں ہے اس لیے
کیشو پرشاد کی ضرورت ہے اور یہی چیز وزیر اعلیٰ کو اپنے نائب کے گھر لے گئی
۔ ان کے اگر کیشو پرشاد سے اچھے تعلقات ہوتے تو اہل خانہ کے ساتھ دعوت کرتے
اور آشیرواد دے کر روانہ کردیتے ۔ اس صورت میں بھی تصاویر شائع ہوتیں مگر
کیشو پرشاد کبھی بھی یوگی کے گھر جانے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ اس لیے سنگھ
پریوار نے یوگی کو سمجھا بجھا کر کیشو پرشاد کے گھر بھیجا اور وہ جانے پر
مجبور ہوئے۔ آج کل سنگھ کا کام فائر فائٹنگ یعنی آگ بجھانے کا ہو کر رہ
گیا ہے اور یہ ہندوتوا کی آپسی بغض و عناد کے ایسے شعلے ہیں کہ جنہیں ایک
طرف سے بجھاو تو دوسری جانب بھڑک جاتے ہیں ۔ ایک سوال یہ ہے بھی ہے کہ یوگی
جی کو اپنے دوسرے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر دنیش شرما کے گھر جانے کی توفیق
کیوں نہیں ہوئی ؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ وکاس دوبے کے انکاونٹر نے اتر پردیش
کا برہمن سماج کو یوگی سے ناراض کردیا ہے ۔ برہمنوں کی ناراضی کو کم کرنے
کے لیے جتن پرساد کو کانگریس سے درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیش
شرما کے ذریعہ برہمن سماج کو اعتماد میں لینا ممکن نہیں ہے ۔ شرماجی کو
کاٹھ کے الو کی طرح نائب وزیر اعلیٰ تو بنادیا گیا مگر ان کی مقبولیت صفر
ہے۔
ہائی کمان نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مودی جی کے چہیتے تیز طرارسرکاری
افسر اے شرما کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کی مگر یوگی کے اڑیل رویہ
نے اسے ناکام کردیا ۔ اس کے باوجود یوگی سوچتے ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کے
پاس سماجوادی پارٹی یا کانگریس کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے اسی طرح یہ
براہمن مجبوراً اسی کو ووٹ دیں گے حالانکہ یہ سوچ غلط ہے ۔ ماضی میں برہمن
اپنی ناراضی کا اظہار بی ایس پی کو ووٹ دے کر کرچکا ہے اور آگے بھی کرسکتا
ہے بشرطیکہ و بڑے پیمانے پر برہمنوں کو ٹکٹ دے ۔اس بار مسلمان ہاتھی کا رخ
کم ہی کریں گے اس لیے برہمنوں کا ٹکٹ دینا آسان ہے ۔ اترپردیش میں اگر یہ
ہوگیا تو بی جے پی کی ساری سوشیل انجیننرنگ فیل ہوجائے گی۔ فی الحال یوگی
اور مودی کے درمیان صلح صفائی میں مصروف سنگھ کی نظروں سے یہ پہلو اوجھل ہے
اور جب یہ اس کی آنکھ کھلے گی بہت دیر ہوچکی ہوگی اور ممکن ہے اس کا بیڑہ
ہوچکا ہو۔ بی جے پی اگر سنگھ پریوار سے امید باندھے ہوئے ہے کہ وہ اس نیاّ
پارلگائے گا تو اس پر واقف رائے بریلوی کا یہ شعر صادق آئے گا؎
انہیں تو ڈوب ہی جانا ہے ایک دن واقفؔ
جو سوچتے ہیں ہمیں کوئی پار لے کے چلے
(۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|