بس بہت ہوچکا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب حکومتی ذمہ داران کی طرف سے اِس قسم کے بیانات سامنے آئیں کہ ”پاکستان
میں کوئی ائیر بیس کسی کو نہیں دیا گیا“، ”شمسی ائیر بیس خالی کروانے کا
کہہ دیا ہے“،”شمسی ائیر بیس خالی کروا لیا گیاہے“ ،” موجودہ حکومت نے
امریکہ کو ڈرون حملوں کےلئے کبھی بھی شمسی ائیر بیس استعمال کرنے کی اجازت
نہیں دی“،” شمسی ایئر بیس سے امریکی انخلا کے باعث یہ اب آپریشنل نہیں
ہے“،”شمسی ایئربیس خالی کرنے کی کوئی بات نہیں ہوئی اِس حوالے سے وزیر دفاع
کا بیان مشکوک ہے“،”ہم شمسی ائیر بیس کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے“تو حقائق
کا ادراک مشکل ہوجاتا ہے،آپ تمیز نہیں کرسکتے کہ کون سچ بول رہا اور کون
جھوٹ،لگتا ہے کہ ہماری قومی زندگی میں جھوٹ ناگزیر ہوچکا ہے اور ہمارے
حکمران جھوٹ کا استعمال ضرورت سے زیادہ کرنے لگے ہیں،حال یہ ہوگیا ہے کہ
ارباب اقتدارمسلسل جھوٹ بول کر حقائق کو چھپاتے اور عوام کو بے وقوف بناتے
ہیں،جبکہ اَمر واقعہ یہ ہے کہ سچائی جلد یا بدیر آشکارہ ہوہی جاتی ہے،جیسا
کہ بلوچستان کے قصبے دالبندین سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر قائم سمشی ائیر
بیس کے حوالے سے ہوا،ہمارے حکومتی ذمہ داران کے بیانات کی سچائی امریکی
ذرائع ابلاغ کچھ یوں بیان کررہا ہے کہ شمسی ائیر بیس کے حوالے سے وزیر دفاع
کا بیان امریکی ذمہ داروں کے نزدیک امریکہ مخالف عوامی جذبات کو ٹھنڈا کی
کوشش ہے،ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کیلئے یہ بات حیران کن ہے کہ
پاکستانی عہدیدار اپنے عوام میں غلط معلومات کیوں دیتے ہیں،جبکہ حقیقت یہ
ہے کہ شمسی ائیر بیس تاحال امریکہ کے زیر استعمال ہے،اب رہا امریکی میڈیا
کی جانب سے اٹھایا گیایہ سوال کہ پاکستانی حکام اپنے عوام کو غلط معلومات
کیوں دیتے ہیں،تواس کی صحیح وضاحت سرکاری حلقے ہی کرسکتے ہیں،مگر عوام اچھی
طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ارباب اقتدار جھوٹ کے اسیر اور جھوٹ اُن کی زندگی
کا خاصہ ہے،وہ قومی زندگی کے ہر موڑ پر جھوٹ بول کر عوام کو دھوکہ دیتے اور
بے وقوف بناتے ہیں،انہوں نے کبھی حقیقت حال عوام کو بتاکر اعتماد میں لینے
کی کوشش نہیں کی ۔
آج بھی یہی ہورہا ہے ایک طرف وزیر دفاع فرماتے ہیں کہ امریکہ کو شمسی ائیر
بیس خالی کروانے کا کہہ دیا ہے تودوسری طرف حکومت کی وزیر اطلاعات دور کی
کوڑی لاتے ہوئے فرماتی ہیں کہ شمسی ایئربیس خالی کرنے کی کوئی بات نہیں
ہوئی،اس حوالے سے وزیر دفاع کا بیان مشکوک ہے،دوسری جانب امریکہ ببانگ دہل
پاکستانی حکام کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایئر بیس عسکریت
پسندوں پر ڈرون حملوں کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے،اسے نہ تو خالی کیا گیا
ہے،نہ کرینگے،باالفاظ دیگر شمسی ایئربیس تو ہمارے پاس آپکی غلامی کی علامت
اور ثبوت ہے،یہ ثبوت ہم آپکے حوالے کردینگے...! بھول جاؤ،اسی میں تمہاری
بہتری اور بھلائی ہے،رہا وزیر اطلاعات کی جانب سے وزیر دفاع کے بیان کو
مشکوک قرار دینے کا معاملہ،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دفاعی امور کے
بارے میں متعلقہ وزیر ہی کا بیان مشکوک ہے تو پھر کس کا بیان قابل اعتماد
ہوسکتا ہے،لہٰذااس صورتحال میں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی کہ کوئی
دوسری قوت حکومت کو ڈس کریڈٹ کر رہی ہے،ہماری نظر میں حکومت کا پرابلم یہی
ہے کہ خود حکومتی شعبوں کی کارکردگی ہی اُس کے ڈس کریڈٹ ہونے پر دلالت کرتی
ہے،اس مسئلے کا دوسرا اور توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام کی
اکثریت یہ محسوس کر تی ہے کہ امریکہ کی ناراضگی ہمارے بڑے بڑے لوگوں کے
بیانات کو مشکوک بنا دیتی ہے،عموماً دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں ایک آزاد اور
خود مختار ریاست کے حکمرانوں ا ور ذمہ دار افراد کی بات کو قابل اعتبار اور
قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے،لیکن ہمارے حکومتی ذمہ داروں کے حالیہ بیانات نے
اس شرمناک حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ ایک ادنیٰ امریکی عہدیدار کے
سامنے ہمارے حکمرانوں اور ذمہ داران کی بات کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے،جو
امریکہ بہادر نے کہہ دیا بس وہی بات ہمارے ارباب اقتدار کے نزدیک وقعت و
اہمیت رکھتی ہے ۔
آج ہماری اس بے وقعتی کی اصل وجہ امریکی کاسہ لیسی اور غلامی ہے،اگر ہمارے
حکمرانوں نے ابتداء سے قومی غیرت اور ملکی مفادات کے مطابق آبرومندانہ
پالیسیاں اختیار کی ہوتی اور بیرونی جارحانہ عزائم کو نکیل ڈالی ہوتی،دفاع
وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے سخت ردعمل ظاہر کرکے دوٹوک جواب دیا ہوتا تو آج
یہ نوبت نہ آتی،نہ امریکہ اور اسکے اتحادی ہمیں اپنی چراگاہ بناتے اور نہ
ہی وہ ہمیں ترنوالہ سمجھنے کی جرات کرتے،مگر افسوس کہ ہمارے سابقہ اور
موجودہ حکمران تو امریکہ کو یہ یقین دلاچکے ہیں کہ ہماری پالیسیاں اس غیرت
کے تابع قطعاً تشکیل نہیں پائیں گی جس سے آپ اور آپکے ساتھی ہنود و یہود و
نصاریٰ خوفزدہ ہیں، بلکہ آپ یقین رکھیں کہ ہماری پالیسیاں اور ہمارا مفاد
آپکے ساتھ وابستہ ہے،اس صورت میں ظاہر ہے کہ یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ
غلامی کا پٹہ خوشی سے اپنے گلے میں ڈال کر اور ہاتھ میں کشکول گدائی پکڑ
ایجاب و قبول کرنیوالے حکمرانوں کی معمولی سی سرکشی بھی آقا کو برداشت نہیں
ہوگی،جیسا کہ موجودہ امریکی درعمل سے ظاہر ہورہا ہے ۔
دوسری طرف امریکہ دہشت گردی کیخلاف نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے ہمیں
یہ بھی باور کرارہا ہے کہ مستقبل میں امریکہ عراق اور افغانستان جیسی مہنگی
جنگوں کے بجائے مزید ڈرون حملوں اور خصوصی فورسز کی چھاپہ مار کاروائیوں
میں اضافہ کرے گا، یہ کسی اور کیلئے نہیں، صرف ہمارے لئے اس بدمست ہاتھی کا
پیغام ہے جس نے ڈرون حملوں کا ہماری دھرتی کو ہدف بنایا ہوا ہے جو ایبٹ
آباد اپریشن کی صورت میں اپنی سپیشل فورسز کی چھاپہ مار کاروائیوں کا بھی
ہم پر تجربہ کر چکا ہے،امریکہ کی یہ تمام کاروائیاں حکمرانوں کی قومی غیرت
سے عاری پالیسیوں کا نتیجہ ہیں،آج اگر امریکی گیدڑ بھبکی کے ردعمل میں
ہمارے حکمران سرجھکائے اپنی صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں تو یہ اس بات کی
علامت ہے ابھی قوم کو مزید عذاب سہنے اور مزید برباد ی کیلئے تیار رہنا
چاہیے،ظاہر ہے جب آپ ملکی سلامتی کے خلاف امریکی ڈرون حملوں اور ایبٹ آباد
آپریشن جیسے اقدمات کو بخوشی قبول کرتے نظر آئیں گے اور اپنے بے گناہ
شہریوں کے سفاک قاتل ریمنڈ ڈیوس کو اپنے ملکی قوانین اور عدالتی عملداری کی
دھجیاں بکھیرتے ہوئے مکمل پروٹوکول کے ساتھ امریکہ کے حوالے کر دیں گے تو
وہ ہماری بات حقارت کے ساتھ ہی ٹھکرائے گا، ویسے بھی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے
کہ جب اونٹ کو خیمے میں گردن گھسانے کی ا جازت دے دی جائے تو وہ پورے کا
پورا خیمے میں گھسنا اپنا حق ہی سمجھے گا ۔
بدقسمتی سے جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں شریک
ہوا ہے،اس کے بدترین نتائج نے آج پاکستان کی ساکھ شکوک و شبہات کا شکار
بنادی ہے،پاکستان کی سلامتی کے ذمہ داران بھی آج اس اَمر پر تشویش میں
مبتلا نظر آتے ہیں کہ امریکہ اب باقاعدہ طور پر پاکستان کی سلامتی و خود
مختاری کی حدود کو پامال کررہا ہے،اسامہ بن لادین آپریشن کے بعد سے پاکستان
سے انتہائی توہین و تحقیر آمیز انداز میں بات کی جارہی ہے،یہ پاکستان کی
بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی
سمت اور اہداف کا تعین کیے بغیر ہی اپنے چار ائیر بیس ( شہباز ائیر
بیس،مہران ائیر بیس ،سمشی ایئر بیس اور وفاقی دارالحکومت سے کچھ دور تربیلا
)امریکہ کے حوالے کردیئے،جہاں تک شمسی ائیر بیس کا تعلق ہے تو اس بارے میں
دستیاب معلومات یہ بتاتی ہیں کہ امریکہ اس اڈے کو کبھی خالی نہیں کرے گا،اس
لیے کہ یہ سی آئی اے آپریشنز کا بڑا مرکز بن چکا ہے،دفاعی تجزیہ نگاروں کا
خیال ہے کہ امریکہ جس طرح افغانستان سے انخلاءکے باوجود افغانستان میں
بالخصوص وسطی افغانستان میں اپنے اڈے برقرار رکھے گا،اسی طرح وہ شمسی ائیر
بیس کو بھی خطے میں اپنے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھنا چاہتا ہے،جبکہ
پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی غیر معمولی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے
مکمل طور پر امریکی مفادات کی سرزمین بن گیا ہے،اسی لیے امریکہ نے اولین
پیش رفت کے طور پر پاکستان میں فیصلہ و پالیسی سازی کے عمل کو اتنا کمزور
کردیا ہے کہ فوج،پارلیمنٹ اور عوام شدید خواہش کے باوجود ڈرون حملے نہیں
رکوا سکے،2مئی کے واقعے کے بعد تو امریکہ کی خود سری دیدنی ہے،ہر آنے والے
دن کے ساتھ امریکی رعونت میں اضافہ ہورہا ہے ۔
چنانچہ اس تناظر میں اگر ہمارے حکمرانوں نے قومی غیرت و مفادات کے منافی
پالیسیاں برقرار رکھیں تو خدا نہ کرے کل ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی بھی امریکی
دسترس میں ہو اور ہمیں ہماری سلامتی کی بھی کوئی ضمانت نہ مل سکے،لہٰذا
عافیت اور دانشمندی کاتقاضہ یہ ہے کہ امریکہ کو ” بس بہت ہوچکا“ کا احساس
دلا کر نہ صرف شمسی ایئربیس خالی کرایا جائے بلکہ پاکستان میں موجود تمام
امریکی جاسوسی کے نیٹ ورک کو بند کرنے کے ساتھ نیٹو کی سپلائی لائن بھی
منقطع کردی جائے اورامریکہ پر باور کردیا جائے کہ آئندہ کوئی بھی ڈرون حملہ
برداشت نہیں کیا جائے،خلاف ورزی کی صورت میں پاک فضائیہ کی صلاحیتوں اور
ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونیوالے ہر
ڈرون کو مار گرایا جائے،اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو واضح طور پر آگاہ کیا
جائے کہ وطن عزیز کی خودمختاری کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں
جاکر ختم ہوتی ہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ یہی وقت ہے قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ
کرنے کا،قوم کو اعتماد میں لینے اور سچ بولنے کا،بہت جھوٹ بول چکے،خدا
کیلئے اب تو سچ بولیئے،یاد رکھیئے،حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ملک وقوم
کی سلامتی اور بقاءکے ذمہ دار قومی اداروں سے اگر قوم کا اعتبار اٹھ جائے
تو پھر کچھ باقی نہیں بچتا ۔ |