جبل الطارق کا وہ مشہور مقام جہاں مسلمان جرنیل طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں

image
 
جبل الطارق یا جبرالٹر وہ مشہور تاریخی مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلمان جرنیل طارق بن زیاد نے سنہ 708 میں یہاں کشتیاں جلا دی تھیں تاکہ ان کے سپاہیوں کے دلوں میں واپس لوٹنے کا خیال نہ رہے۔
 
یہ وہ مقام ہے جہاں برطانیہ اور سپین کی سرحدیں مل جاتی ہیں۔
 
فوٹو گرافر لیوک آرچر کا خاندان وہاں رہتا ہے اور اس مضمون میں وہ بحیرہ روم میں واقع اس جزیرہ نما کے حوالے سے اپنی تصاویر اور خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
 
جبرالٹر کے رہنے والے اپنی برطانوی شہریت پر فخر کرتے ہیں۔ 1967 اور 2002 کے ریفرینڈم میں انھوں نے 90 فیصد کی اکثریت سے اس سلسلے کو برقرار رکھا اور اس بات کو مسترد کر دیا تھا کہ جبرالٹر کی خود مختاری مشترکہ طور پر برطانیہ اور سپین کے پاس ہو۔
 
image
 
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ قومی فخر اکثر میڈیا میں سستی کے ساتھ ’برٹز ابراڈ‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں جبرالٹر اور سپین میں زیادہ باتیں مشترک ہیں جسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔
 
انگریز جو ایک زبان بولتے ہیں ان کے برعکس جبرالٹر کے رہائشی ہسپانوی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں متعدد مخلوط نسلوں کے خاندان آباد ہیں۔
 
درحقیقت گلی کوچوں میں سب سے زیادہ سنے جانے والے مقامی لہجے کا نام ینیتو ہے جو بنیادی طور پر ہسپانوی ہے مگر منفرد جملوں کے ساتھ ایک مخصوص لہجے میں بولا جاتا ہے جسے محض جبرالٹیرین کہا جا سکتا ہے۔
 
image
 
یہ صرف زبان نہیں ہے جہاں مخلوط ورثے کا اثر قابل توجہ ہو۔ لندن کے رہائشی کے طور پر میرے لیے جبرالٹرین کی زندگی ہسپانوی طرز زندگی سے زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ لوگ باہر بیٹھے ہیں، سڑک پر ایک دوسرے کو ہیلو کرتے ہیں، رکتے ہیں اور بات چیت کرتے ہیں۔
 
image
 
کسی نے مجھے بتایا کہ اگر برطانیہ کی آب و ہوا بھی جبرالٹر جیسی ہوتی تو ممکنہ طور پر برطانوی لوگ بھی تھوڑے آرام دہ اور زیادہ ’لاطینی‘ ہوتے۔
 
image
 
بریگزٹ ریفرینڈم میں جبرالٹر کے 96 فیصد رہائشیوں نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اگرچہ واضح طور پر وہ نتیجہ نہیں آیا جس کے لیے ووٹ دیا تھا، کچھ نے مجھے بتایا کہ یہ صورتحال کنٹرول سے باہر ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ اس کی فکر نہ کی جائے۔
 
متعدد افراد کو شبہ ہے کہ سرحد پر معاہدہ طے پا جائے گا کیونکہ ہزاروں ہسپانوی کام کرنے والے ہر روز سرحد پار کرتے ہیں اور دونوں جانب بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
 
image
 
میں نے سوچا چونکہ جبرالٹر بہت چھوٹا ہے اس لیے اس کا مکمل دستاویزی ریکارڈ تیار کرنا آسان ہو گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں بمشکل اس کی سطح ہی دریافت کر سکا۔ کسے معلوم تھا کہ اس چھوٹی سی جگہ کی بڑی تاریخ اور بتانے کے لیے بہت سی کہانیاں ہوں گی؟
 
میں نے اپنی دلچسپی کے کچھ علاقوں کے حوالے سے اچھا آغاز کیا جیسے کہ فوجی تاریخ اور مذہبی تنوع۔
 
image
 
پہاڑ کے سٹریٹیجک مقام اور اس کی بحری سہولیات نے برطانیہ کے کچھ بین الاقوامی تنازعات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مصنف نکولس رینکین نے اپنی حالیہ کتاب ’ڈیفنڈنگ دا راک‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ جرمنی کے رہنما ہٹلر جبرالٹر پر قبضہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم ہارے۔ لیکن اصل میں سپین کے آمر جنرل فرانکو کی اس تنازعے میں ملوث ہونے پر ہچکچاہٹ کی وجہ سے جبرالٹر محفوظ رہا۔
 
image
 
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی راج نے دم توڑا اور اقوام متحدہ نے نوآبادیات کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں تاہم جبرالٹر برطانوی حاکمیت ہی میں رہا۔ سپین نے جبرالٹر پر برطانوی دائرہ اختیار پر اعتراض کیا لیکن جبرالٹر کے رہائشیوں نے سپین اور برطانیہ کی مشترکہ حاکمیت کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
 
image
 
جبرالٹر ماضی میں نہیں پھنسا ہوا۔ الگ تھلگ ہونے کے باوجود یہ برطانیہ کی طرح کثیر الثقافتی ہے اور مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر دوسروں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
 
یہ شاید وہی برطانیہ ہے جسے میں جانتا ہوں۔ مزید بہتری ہمیشہ کی جا سکتی ہے لیکن زیادہ تر ہر کوئی ایک دوسرے کے مذہب اور روایات کا احترام کرتا ہے۔
 
image
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: