’’۲۲ لوگ‘‘

 اِس کتاب کا سائز اور وزن جس قدر بڑا اور زیادہ ہے،اسی طرح اِس کے مندرجات میں جن شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ بذاتِ خود ’’بھاری بھرکم‘‘ ہیں اور معاشرے میں بہت ممتاز اور نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ’’۲۲ لوگ‘‘ جیسا کہ کتاب کے ٹائٹل سے ظاہر ہے، ا س میں بائیس لوگوں کے انٹرویوز ہیں، جو کہ فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان بہاول پور سے وابستہ سجاد پرویز نے یہ انٹرویوز ریڈیو کے لئے ہی کئے، جن کے لئے انہوں نے اِن شخصیات کا بہاول پور آمد کا ہی انتظار نہیں کیا، بلکہ بعض اوقات اس کے لئے انہیں دوسرے بڑے شہروں کا سفر بھی اختیار کرنا پڑا۔ ریڈیو پر نشر ہو کر ’’آن ایئر‘‘ ہوا میں تحلیل ہو جانے والے الفاظ شاید یوں محفوظ نہ رہتے، کہ انہیں کتابی شکل دے کر مستقل دستاویز بنا لیا گیا ۔اس کتاب کے لئے ’دستاویز‘ کا لفظ اس لئے بھی حسبِ حال ہے، کہ اپنے اپنے شعبہ میں یہ شخصیات اتھارٹی جانی جاتی ہیں، اُن کی یادیں، باتیں ، آراء اور تجاویز یقینا تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ اِس سے یہ بھی ہوا کہ پہلے یہ انٹرویو سامعین کے لئے کئے گئے تھے ، اب کتابی صورت میں انہیں قارئین کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ کتاب کی اشاعت میں جدت اور دلچسپی یوں پیدا کی گئی ہے کہ ٹائٹل سے لے کر کتاب کے سائز تک، اندر کی ترتیب سے آرائش تک ہر چیز منفرد اور خاص بن گئی ہے۔ آغاز میں ہی روایت شکنی اِس طرح کی گئی ہے کہ پہلے صفحے سے ہی کتاب پر لکھے گئے تاثرات شروع ہو جاتے ہیں، جن میں بالترتیب رضا علی عابدی، وجاہت مسعود،عقیل عباس جعفری، عرفان جاوید، آمنہ مفتی،محمد حسن معراج، نعیم مسعود، ثمینہ پرویز خالد،ہارون الرشید عباسی، جاوید خان جدون، عبدالہادی مایار، شہزاد احمد خالد، خالد خلیل سید، سعید احمد سلطان اور آخر میں انٹرویو کرنے والے خود سجاد پرویز شامل ہیں۔ یوں کتاب کے 28ابتدائی صفحات ’نمبر شمار‘ کی قید سے آزاد ہیں۔

انٹرویو لینا ادب کی آسان صنف نہیں، اس کے لئے پہلے مطلوبہ شخصیت کی اہمیت، ان کی ذات اور کام ، ان کے شعبہ کے نشیب وفراز اور اسرارورموز سے آشنائی وغیرہ کے بارے میں معلومات کا ہونا، اس کے بعد بہتر اور بروقت سوالات کرنا نہایت ضروری عمل ہے، جس کے لئے سجاد پرویز بھرپور کامیاب دکھائی دیتے ہیں، کہ انہوں نے ایک تو مختلف شعبہ جات کے افراد کے انٹرویو کئے، دوسرا یہ کہ ہر انٹرویو سے قبل مناسب تعارف کو بھی ضبطِ تحریر میں لائے۔ وہ باتیں جو تعارف میں نہیں آئیں، وہ بات چیت کے دوران سامنے آتی گئیں۔ روایتی سوالات کی بجائے بات اگلوانے کی کوشش بھی شامل رہی، جبکہ مہمان کو بہت سی باتیں یاد دِلا دِلا کر بھولی بسری یادیں تازہ کیں۔ انٹرویو دینے والے کو بے تکلفی اور دوستانہ ماحول فراہم کرنا بھی انٹرویو لینے والے کے ہنر میں شامل ہے۔ صرف مہمان شخصیت ہی نہیں بلکہ اُن کے معاصر لکھاریوں یا وہ جس میدان کے بھی شہسوار ہیں،کے بارے میں معلومات ہونی بھی ضروری ہیں۔ سجاد پرویز نے جیسا کہ اپنے خاندان کے بارے میں بیان کیا ہے ، انہیں علمی و ادبی ماحول بچپن سے ہی میسر تھا، اس لئے مختلف شعبہ جات کے افراد سے انہوں نے بھر پور معلومات اور بے تکلفی سے انٹرویو کیا، ریڈیو پاکستان پر بات کرتے ہوئے یقینا بہت احتیاط اور ذمہ داری کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سی باتیں چھپائی بھی جاتی ہوں گی، جن سے ’نقصِ امن‘ کو خطرات درپیش ہوں، یا میزبان یا پھر مہمان کے لئے مشکلات پیدا کریں، اس کے باوجود انٹرویوز میں پوری دلچسپی پائی جاتی ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی قاری کتاب کا مطالعہ شروع کرے گا تو اُسے پڑھتا ہی چلا جائے گا۔ انٹرویو کے لئے یہ بھی بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ صرف ایک ہی میدان کے لوگوں کی بات نہیں، مہمان ادیب بھی ہیں، صحافی بھی، آرٹسٹ بھی ہیں مجسمہ ساز بھی، گلو کار بھی ہیں شاعر بھی، پروفیسر بھی ہیں کالم نگار بھی، ہر کسی کے لئے الگ قسم کی معلومات اور سوالات درکار ہوتے ہیں، جو کہ میزبان نے بہت خوش اسلوبی سے تیار کئے اور نبھائے۔ میزبان نے اپنی اوّلین کتاب کا انتساب بجا طور پر اپنے والدین کے نام کیا ہے۔

کتاب میں ہر مہمان کے انٹریو سے پہلے ان کا تعارف موجود ہے، یہ مصاحبہ کار کے علمی اور ادبی ذوق کی خوب ترجمانی کرتا ہے، مثال کے طور پر انتظار حسین کے تعارف سے اقتباس؛ ’’۔۔۔عالمِ بالا میں موجود اردو ادب کی کہکشاں کے تابندہ ستاروں کا انتظار ختم ہوا، کیونکہ انتظار حسین اب مستقل ہجرت کرکے زندگی کے پنجرے سے آزاد ہو کر اپنے دیرینہ دوستوں سے جاملے۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک طرف کراچی میں جب ڈاکٹر آصف فرخی اور امینہ سید ادبی میلہ سجائے انتظار صاحب کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس بار میلہ کہیں اور ہی سجنا تھا جس میں ناصر کاظمی ، انور جلال شمزا، حنیف رامے، مظفر علی سید، خالدہ حسین، قیوم نظر، علی سردار جعفری، احمد عقیل روبی، قراۃ العین حیدر، عبداﷲ حسین، جمیل الدین عالی، اور جون ایلیااپنی اپنی منڈلی جمائے انتظار صاحب کے لئے چشمِ براہ تھے۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اس مرتبہ انتظار حسین نے سوچا کہ اب کی بار اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ منڈلی جمانا چاہیے جن کو میرا اور مجھے اُن کا مدتوں سے انتظار ہے۔ سو اپنے عہد کا سب سے بڑا داستان گو رُخصت ہوا․․․۔‘‘

رضاعلی عابدی نے اپنے تاثرات میں اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے، ’’ جو لوگ بھی ریڈیو سے وابستہ رہے ہوں، چاہے سننے والے ہوں یا سنانے والے انٹرویو کے فن کی باریکیوں سے خوب واقف ہوں گے۔ لفظ انٹرویو کے لفظی معنی ہیں؛ اندر کا نظارہ ، انسان کے اندر جھانکنے کا ہنر ۔ بظاہر یہ سیدھی سی بات ہے، مگر ہے نہیں۔ ہم نے کیسے کیسے جید براڈ کاسٹر دیکھے ہیں جو کسی بڑی شخصیت کے سامنے بول نہیں پائے، اور ایسی بڑی شخصیتیں بھی دیکھی ہیں، جو چائے کی پیالی پر چہک رہی تھیں، لیکن مائیکروفون سامنے آنے پر انہیں چپ لگ گئی۔ اس وقت سجاد پرویز کی جو تصنیف ’’۲۲ لوگ‘‘ ہمارے رُو برُوہے، انٹرویو لینے اور دینے ، دونوں صورتوں میں اُن رموز سے پردہ اٹھاتی ہے، جو گفتگو اور مکالمے کے دوران کارفرما ہوتے ہیں۔‘‘

یہاں کتاب کے تعارف کے موقع پر یہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن مہمانوں کے اسمائے گرامی بالترتیب لکھ دیئے جائیں، جو کتاب کی فہرست میں حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ کچھ یوں ہے؛ ڈاکٹر آصف فرخی، آصف نورانی، انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب، افتخار عارف، امین گل جی، انتظار حسین، انور مقصود، اے حمید، پٹھانے خاں، رضاعلی عابدی، زاہدہ حنا، زہرا نگاہ، سلیمہ ہاشمی، شکیل عادل زادہ، ضیاء محی الدین، عبداﷲ حسین، عقیل عباس جعفری، فہمیدہ ریاض،مسرت کلانچوی، میکسم(ڈاکٹر شوکت محمود)نصرت فتح علی خان اور وجاہت مسعود۔

ہر مہمان کا اپنا زاویہ نگاہ ہوتا ہے، اس لئے ہر شخصیت کی باتوں سے دانش کے نئے نئے چشمے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں، دانائی کی باتوں کے علاوہ اُن کی ریاضت، محنت اور جُہدِ مسلسل کی داستانیں پڑھ کر قاری کے اندر کچھ کر گزرنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔اُن کی باتیں پڑھنے والے کی زندگیوں میں تبدیلی کا باعث بھی بنتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے میدان میں جو نشیب وفراز دیکھے یا جن جن مشکلات سے اُن کو واسطہ پڑا، اُن کے تجربات بھی سامنے آتے ہیں۔ قاری حیران رہ جاتا ہے، یہ لوگ اپنی اپنی جگہ تربیتی ادارے تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے فخرکرتے تھے۔ ان سے معلوم اور غیر محسوس انداز میں تربیت لینے والوں یا شاگردوں کی تعداد بھی لامحدود ہے۔

زیرِ نظر کتاب کے ہر صفحہ پر کوئی نہ کوئی چھوٹی یا بڑی رنگین تصویر ہے، مہمان کی نئی پرانی تصاویر کے علاوہ میزبان (جس نے خود کومصاحبہ کار لکھا ہے) کے ساتھ بھی تصاویر شامل ہیں، ایسی اہم شخصیات کی تصاویر بھی شاملِ اشاعت ہیں، جن کا انٹرویو دینے والوں نے اپنے جوابات میں تذکرہ کیا۔ کتاب کا ٹائٹل جہاں سیاہ رنگ کا ہے تو اوپر سنہری حروف سے کتاب کا نام اور حاشیہ بنایا گیا ہے۔ اندر گلیز پیپر پر خوبصورت بڑے صفحات پر تصاویر اور قدرے مختصر تحریر ہے۔ کتاب دلچسپ اس قدر ہے کہ ادبی ذوق رکھنے والے جب تعارفی کلمات ہی پڑھیں گے تو وہ انٹرویو پڑھنے پر مجبور ہو جائیں گے، مہمانوں کی دھیمے سُروں کی باتیں قاری کو اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں، یوں یہ کتاب ختم کرنے میں زیادہ وقت درکار نہیں۔ خیال آتا ہے کہ معزز مہمانوں کی باتیں پڑھنے میں اس قدر دلچسپ ہیں تو ریڈیو پر اُن کی اپنی آواز میں یہ انٹرویو کس قدر پسندیدہ ، دلچسپ اور تاریخی ہوں گے؟ کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اکثر مہمان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بہت سے مغربی ممالک سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آئے ، لیکن اُن میں سے اکثر پاکستان کے تعلیمی اور سیاسی نظام سے مایوس ہی دکھائی دیئے، کہ ہر میدان میں زوال واضح نظر آرہا ہے، پہلے والا معیار، سلیقہ، تہذیب بھی نہیں، اور سنجیدہ، دیانت دار اور محنتی لوگ بھی ناپیدہوتے جارہے ہیں۔ اگرچہ کتاب میں کتابت کی معمولی غلطیاں بھی موجود ہیں، اہلِ نظر یقینا انتظامیہ کو اُن اغلاط کی نشاندہی کر دیں گے، اگلے ایڈیشن میں کتاب کو مزید نکھار کر سامنے لایا جائے گا، دوسرا یہ کہ بولے ہوئے جملے میں لکھتے ہوئے بعض اوقات کسی حد تک کاٹ چھانٹ کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے، اگر کتاب بھر میں سے قاری کے مطالعہ میں اٹکتے ہوئے چند الفاظ کاٹ دیئے جائیں تو بولنے والے کے مفہوم ، انداز اور مدعا پر قطعاً فرق نہیں پڑے گا۔

پندرہ روزہ ’’حقیقت‘‘ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سالہا سال قبل کئے جانے والے ان انٹرویوز میں سے متعدد ’’حقیقت‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں، جس کا اعتراف میزبان (مصاحبہ کار) سجاد پرویز نے بھی کیا ہے۔ دراصل ’’حقیقت‘‘ نے جہاں بہاول پور بلکہ دُور و نزدیک کے بہت سے نوآموز لکھاریوں کو لکھنے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کئے، اُن کو قدم قدم چلنا سکھایا، ان کی آبیاری کی، وہاں کہنہ مشق لکھاریوں نے بھی ’’حقیقت‘‘ میں لکھنے کو اپنا فخر جانا، یہی وجہ ہے کہ تین عشرے گزر جانے کے بعد بھی پندرہ روزہ ’’حقیقت‘‘ ’ قدیم وجدید‘ لکھاریوں کی توجہ کا مرکز ہے۔مختلف کتابوں کا حصہ بننے والے ، مختلف لکھاریوں کے اور بھی بہت سے شاہ پارے ’حقیقت‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ یوں دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ ’حقیقت‘ نے ادبی دنیا کی بھی بھر پور خدمت کی ہے، یہ سلسلہ مدیر ’حقیقت‘ سعید احمد کی ان تھک محنت، بے تکان ریاضت ، جذبے اور کام سے لگن کی بنا پر جاری و ساری ہے۔

زیر نظر کتاب کی اشاعت کا اہتمام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے کیا ہے، یہ کارِ نمایاں سرانجام نہ پاتا اگر یونیورسٹی کو نہایت متحرک اور فعال وائس چانسلر نصیب نہ ہوتا۔ پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب جب سے اس عہدہ جلیلہ پر متمکن ہوئے ہیں، یونیورسٹی کو نئی زندگی ملی ہے۔ جہاں تعلیمی میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گڑے ہیں، جدت پیدا ہوئی ہے، سہولتوں میں بے بہا اضافے ہوئے ہیں، وہاں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی یونیورسٹی نے اہم مقام حاصل کیا ہے۔ جامعہ کی انتظامیہ نے ڈاکٹر محبوب کے دور میں ایک عرصے کے بعد ادارے کی چاردیواری سے باہر جھانکا ہے، بہت سے پروگرام اور منصوبے تکمیل کو پہنچ چکے ہیں ، بہت سے زیرِ تکمیل ہیں اور بہت سوں پر ابھی عمل ہونا ہے۔ یہ کتاب اور ادب سے وائس چانسلر کی دلچسپی ہی ہے کہ انہوں نے یہ جرات مندانہ قدم اٹھایا، ان کا یہ عمل آنے والے دنوں کے لئے روشنی کا استعارہ بنے گا، مقامی ادیبوں کی معیاری کتابوں کی اشاعت سے نئے اور پرانے لکھنے والوں کو امید اور حوصلہ ملے گا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب اور ان کے رفقا مبارک باد کے مستحق ہیں۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472354 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.